Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sami Ullah Rafiq
  4. Hosi Baghi

Hosi Baghi

حوثی باغی

حوثی باغی یمن میں ایک قبیلہ کی شکل میں رہتے ہیں۔ یہ یمنی قبائل ملک میں کئی برسوں تک بر سر اقتدار رہے ہیں۔ یہ زیدی شعیہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ حوثی سعودی تیل تنصیبات پر براہ راست حملے کر رہے ہیں۔ اب ان حملوں میں شدت آتی جارہی ہے۔ ان حملوں کے رد عمل میں سعودی فورسز دفاعی پوزیشن میں بھرپور جوابی حملے کررہے ہیں۔ یہ باغی چونکہ اہل تشیع مسلک ہیں تو ان کا ایران سے ایک جذباتی تعلق موجود ہے۔ سعودی حکومت ان حوثیوں کو اپنے لیے اور سعودی مستقبل کے لیے ایک خطرہ ثابت سمجھتی ہے۔ سعودی عرب میں رہائش پذیر شعیہ کمیونٹی بھی ان سے احترام کا رشتہ رکھتے ہیں۔ اگردیکھا جائے تو یہ ایک مسلکی یا فرقہ واریت کی لڑائی ہے جو سنی سعودی اور شعیہ ایران کے مابین دہائیوں سے جاری ہے۔ اس لڑائی میں مسلمان ہی مسلمان کو نشانہ بناتا ہے اور نقصان بھی مسلمان کا ہی ہوتا ہے۔ لیکن تسکین صرف ان عناصر کی ہوتی ہے جو ان کو لڑواتے ہیں۔ فائدہ ان ممالک کا ہوتا ہے جن کے ہتھیار خریدے اور استعمال ہوتے ہیں۔

صدر ٹرمپ کی حکومت میں ان باغیوں کو دہشت گردی کی فہرست میں ڈالا گیا تھا۔ امریکہ کو اس اقدام پر دنیا کے مختلف ممالک سے تنقید کا سامنا بھی کر نا پڑا۔ حالیہ صدر جو زف بائیڈن نے ان باغیوں کو دہشت گردی کی فہرست سے نکا ل دیا اور سعودی عرب کو ان باغیوں سے سیاسی طور پر نمٹنے کی ہدایت کرتے ہوئے فوری جنگ بندی کرنے کو کہا تاکہ یہ بحران ختم کیا جاسکے۔ سعودی حکام کے نزدیک یہ باغی ایرانی حمایت یافتہ ہیں اور ایرانی مددسے یہ سرزمین سعودی عرب پر حملے کرتے ہیں۔ یہ حمایت اور مدد سعودی عرب کے نزدیک ایک خطرےکی حیثیت اختیار کرتی جارہی ہےجس کو مستقبل میں آڑتے ہاتھوں لینا پڑے گا۔ لیکن امریکہ کی مرتب کردہ دہشت گردی کی فہرست سے نکل جانے کے بعد ان باغیوں کی طرف سےحملے زیادہ ہوگئے ہیں۔ پچھلے دو ہفتوں میں حوثی باغیوں کی جانب سے تقریبا بائیس حملے ہوئے۔ ان حملوں میں مختلف میزائل اور ڈرون استعمال ہوئے ہیں۔ سعودی تیل تنصیبات اور شہری آبادی ان حملوں کی زد میں آئے۔ دنیا کے بیشتر ممالک کو تیل کی سپلائی ان تنصیبات سے ہی ہوتی ہے۔ یہ حملے تیل کی سپلائی میں بھی ایک رکاوٹ بن گئے۔

سعودی عرب ان حملوں کو اپنی معیشت کے ساتھ اپنی سلامتی پر ایک حملہ تصور کررہا ہے اور دنیا کویہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ان حملوں کا بھرپور جواب دیا جائے کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ ان حملوں کے نتیجے میں تیل کی عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں ایک بار پھر بڑھ گئی ہیں۔ رد عمل کے طور پر دنیا کے مختلف ممالک سے ان حملوں کو اب سنجیدگی سے لیا جارہا ہے۔ حوثی جارحیت اب اخبارات کی شہ سرخیوں میں آنا شروع ہوگئے ہے۔ حوثی باغی ان حملوں کی وجوہات کے سلسلے میں بیانی ہیں کہ یہ حملےاصل میں ان سعودی حملوں کا جواب ہے جو حوثی سول آبادی اور نہتے شہریوں پر کیے جاتے ہیں۔ ان حملوں کا جواب قدرتی ہے۔ حوثی جوابی حملے سلامتی اور دفاع کیلئے ہیں۔

یہ صورتحال سعودی عرب کو ایک دباؤ میں دھکیل رہی ہے۔ یہ سعودی عرب کو خطےمیں کمزور یا تنہا کرنے کی کاوش بھی ہوسکتی ہے۔ امریکہ کا سافٹ رد عمل حوثیوں کی حوصلہ افزائی اور سعودی عرب کے لیے ایک ٹف ٹائم ہے۔ امریکہ ان حملوں کے آغاز میں خاموش رہا لیکن اب وہ ان کوختم کروانا چاہتا ہے۔ نئی پیش رفت میں امریکہ سعودی عرب سے طے شدہ اسلحے کی ڈیل کو موخر کرچکا ہے۔ یہ دباؤ سعودی عرب اور امریکہ کے مابین ایک ڈیل کی صورت اختیار کرسکتا ہے جیسے ماضی میں نائن الیون کے بعد امریکہ نےسعودی عرب کو اپنی مدد کیلئے راضی کر لیا تھااور سعودی بادشاہ کے پاس اس کے سوا اور کوئی آپشن نہیں تھا۔ سعودی عرب ان حملوں کو رکوانے اور اپنے دفاع کی خاطر ہر حد تک جاسکتا ہے لیکن وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ اکیلا سب کچھ کرسکے۔ اگرسعودی اتحادی ممالک اس میں شرکت کرتے ہیں تو ان کے اپنے مفاد ہوسکتے ہیں۔ اگرسعودی اتحادی ممالک ہر صورت شہزادہ محمد بن سلمان کا ساتھ دیں تو یہ خطے میں مزید ایک نئی جنگ ثابت ہوسکتے ہیں جو بڑے پیمانے پر مشتمل ہوسکتی ہے۔ امریکہ ایک طرف پاکستان کے تعاون اور مدد سے افغانستان سے باعزت طریقے سے نکلنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف وہ ایران سے اپنے تعلقات کو معمول پر لانا چاہتا ہے۔ تیسرا وہ چین سے تعلقات کو بہتر کرنا چاہتا ہے۔ چوتھا امریکہ پاکستان کی موجودہ حکومت سے برابری کے تعلقات کا خواہاں ہے جس میں مثبت پیش رفت ہو رہی ہے۔ اب سعودی عرب کے پاس اپنے دفاع کی خاطر امریکہ سے تو نہیں لیکن چین اور روس سےدفاعی تعاون کیلئےہاتھ بڑھانا ہوگا۔ کیونکہ امریکی سعودی تعلقات اب پہلے جیسے گرم جوش محسوس نہیں ہوتے۔

اس ساری صورتحال اور سعودی پوزیشن میں پاکستان کو اپنا فعال کردار کرنا چاہیئے۔ پاکستان ماضی کی طرح سعودی مجبوریوں اور ضروریات کو سمجھتا ہے اور ان کے حل سے بخوبی واقف ہے۔ پاکستان اس خلا کواپنی خدمات دے کر پر کرسکتا ہے۔ پہلے نمبر پر پاکستان سعودی اور امریکی دوریوں کو سفارتی سطح پر مل بیٹھ کر بات چیت کر کے ختم کرے۔ دوسرا پاکستان یمن کے حوثی باغیوں اور سعودی حکام کو ڈائیلاگ اور جنگ بندی پر قائل کرے کیونکہ جنگیں مسائل کا حل نہیں بلکہ وسائل، معیشت اور زندگی کا ضیاع ہوتی ہیں۔ جنگیں تباہی کا مترادف ہیں جن میں دونوں فریقین کسی نہ کسی حد تک نقصان کا سامنا کرتے ہیں۔ جنگیں ڈائیلاگ کےذریعے ہی ختم کی جاسکتی ہیں۔ جنگ عظیم اول اور دوئم سے زیادہ خطرناک کوئی جنگ نہیں۔ یہ جنگیں بھی ڈائیلاگ پر ہی ختم ہوئیں اور امن بحال ہوا۔ پاکستان اپنی سٹریٹجک پوزیشن سےاس تنازعہ اور بحران کو ختم کرسکتا ہے۔ تیسرا پاکستان او آئی سی کا اجلاس بلائے جس میں سارے رکن ممالک اس بحران اور جنگی صورتحال کا کوئی مشترکہ لائحہ عمل تیار کرکے اس پر عملددارآمد بھی ممکن بنائے۔

About Sami Ullah Rafiq

The Author is a Lecturer of English Language and Literature in a private institute. He pens various historical and socio-political topics and global developments across the globe along with his own insight.

Check Also

X-Wife Ki Tareef Kaise Ki Jaye

By Mohsin Khalid Mohsin