Great Game, Aik Purani Kashmakash Ki Nayi Shakal
گریٹ گیم، ایک پرانی کشمکش کی نئی شکل

افغانستان کی سرزمین تاریخ کے مختلف ادوار میں عالمی طاقتوں کی کشمکش کا مرکز رہی ہے اور آج ایک بار پھر یہی منظر نامہ ابھرتا دکھائی دے رہا ہے۔ 19ویں اور 20ویں صدی میں جو بڑی جغرافیائی اور سیاسی کشمکش دنیا نے دیکھی، وہ "گریٹ گیم" کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس اصطلاح کو پہلی بار برطانوی افسر آرتھر کونولی نے استعمال کیا اور بعد ازاں پیٹر ہاپکرک نے اسے اپنی مشہور کتاب "دا گریٹ گیم: دا سٹرگل فار ایمپائر ان سینٹرل ایشیا" میں مزید اجاگر کیا۔ یہ کشمکش دراصل برطانوی سلطنت اور روسی سلطنت کے درمیان وسطی ایشیا میں غلبے کے لیے جاری رہی، جہاں دونوں طاقتیں ایک دوسرے کے قریب تر آتی گئیں اور تصادم کے امکانات بڑھنے لگے۔
صدیوں بعد اب پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے لیکن کردار اور انداز کچھ مختلف ہیں۔ اگست 2021 میں جب امریکہ نے اچانک انخلا کیا اور طالبان نے دوبارہ اقتدار سنبھالا، تو افغانستان ایک بار پھر سیاسی انتشار کا شکار ہوگیا۔ خواتین کی آزادی سلب ہوئی، تعلیمی ادارے بند ہوئے اور جمہوری عمل مکمل طور پر معطل ہوگیا۔ دنیا نے طالبان کی حکومت کو اب تک تسلیم نہیں کیا اور افغانستان ایک بار پھر تنہائی کی طرف بڑھتا نظر آیا۔
تاہم اب تقریباً چار سال بعد امریکی پالیسی میں تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ صدر ٹرمپ، جو جنوری 2025 میں دوبارہ اقتدار سنبھال چکے ہیں، افغانستان میں امریکی اثر و رسوخ واپس لانے کے لیے متحرک ہو چکے ہیں۔ ان کی خاص توجہ بگرام ایئربیس پر ہے جو افغانستان میں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ تھا اور جسے 2021 میں خالی کر دیا گیا تھا۔
مارچ 2025 میں ایک امریکی وفد جس کی قیادت افغانستان کے امور کے ماہر زلمے خلیل زاد کر رہے تھے، کابل پہنچا۔ ان کا مقصد ایک امریکی شہری، جارج گلیزمن کی رہائی کے لیے بات چیت کرنا تھا، جو طالبان کی تحویل میں تھا۔ اس ملاقات میں طالبان کی وزارتِ خارجہ نے انسانی ہمدردی کے تحت قیدی کی رہائی کا اعلان کیا، جبکہ امریکی حکام نے اس اقدام کو مثبت پیش رفت قرار دیا۔
اس واقعے کے بعد یہ سوال اٹھا کہ کیا امریکہ اور طالبان کے درمیان تعلقات کی برف پگھل رہی ہے؟ اگر طالبان بگرام ایئربیس کا کنٹرول امریکہ کو دینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں، تو کیا امریکہ بدلے میں طالبان کی عالمی تنہائی ختم کرنے میں ان کی مدد کرے گا؟ یہ سوالات نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان اور پورے خطے کے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ افغانستان ہمیشہ بڑی طاقتوں کا قبرستان رہا ہے۔ چاہے وہ برطانیہ ہو، روس ہو یا امریکہ، سب نے یہاں شکست کھائی۔ یہاں کی زمین، قبائلی ساخت اور مزاحمتی سیاست نے ہمیشہ بیرونی قابضین کا راستہ روکا ہے۔ لیکن اس کے باوجود، بیرونی طاقتیں یہاں دوبارہ قدم جمانے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔
اس وقت امریکہ ایک نیا انداز اپنائے ہوئے ہے۔ وہ افغانستان میں نرم مداخلت چاہتا ہے بذریعہ امداد، سفارت کاری اور سرمایہ کاری۔ بگرام ایئربیس افغانستان میں امریکی موجودگی کا سب سے بڑا اور اہم عسکری مرکز رہا ہے۔ یہ ایئربیس کابل سے تقریباً 40 کلومیٹر شمال میں واقع ہے اور اسے سرد جنگ کے دوران سوویت یونین نے تعمیر کیا تھا۔ لیکن 2001 میں امریکی حملے کے بعد اسے جدید ترین عسکری اڈے میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہاں سے امریکی فضائیہ نے پورے افغانستان میں طالبان اور دیگر شدت پسند گروہوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیاں کیں۔ اس اڈے کی سب سے نمایاں حیثیت اس وقت سامنے آئی جب 2 مئی 2011 کو امریکی نیوی سیلز نے بگرام ہی سے پرواز بھر کر پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے خلاف کامیاب آپریشن کیا۔ یہ واقعہ نہ صرف امریکہ کی عسکری صلاحیت کا مظہر تھا بلکہ اس بات کا بھی ثبوت تھا کہ بگرام ایئربیس خطے میں امریکی اسٹریٹجک تسلط کا کلیدی مرکز تھا۔
آج ایک بار پھر یہ ایئربیس امریکہ کے لیے غیر معمولی اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ اگر واشنگٹن اسے دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ صرف افغانستان میں اس کی عسکری موجودگی کی بحالی نہیں ہوگی، بلکہ اس کے ذریعے ایران اور پاکستان پر بھی دباؤ بڑھایا جا سکے گا۔ ایران کے جوہری پروگرام اور پاکستان کے داخلی سیاسی حالات کے تناظر میں بگرام ایئربیس امریکہ کے لیے ایک "فروَرڈ آپریٹنگ بیس" کا کردار ادا کر سکتی ہے، جہاں سے وہ نہ صرف ان ممالک کی حرکات پر نظر رکھ سکتا ہے بلکہ کسی ہنگامی صورت حال میں مداخلت کی صلاحیت بھی حاصل کر لیتا ہے۔ مزید برآں چین کی وسطی ایشیا میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے بگرام امریکہ کے لیے ایک واچ ڈاگ بن سکتی ہے۔ یعنی بگرام محض ایک ایئربیس نہیں بلکہ ایک ایسی جغرافیائی کلید ہے جس کے ذریعے امریکہ خطے میں اپنی کھوئی ہوئی برتری دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور یہی اس نئی گریٹ گیم کا سب سے خطرناک موڑ بھی ہے۔
کچھ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اگر پاکستان میں سیاسی عدم استحکام بڑھا اور جوہری ہتھیاروں کو خطرہ لاحق ہوا تو امریکہ بگرام کو بنیاد بنا کر کارروائی کر سکتا ہے۔ اگرچہ یہ مفروضات ہیں، مگر امریکہ کا بگرام کے لیے زور دینا ایک خاص وقت پر ہو رہا ہے جس پر پاکستان کو بھی نظر رکھنی چاہیے۔
طالبان حکومت اس وقت بظاہر مستحکم ہے لیکن ان کا جھکاؤ پاکستان مخالف لگتا ہے۔ اگر طالبان امریکہ کو بگرام ایئربیس واپس دیتے ہیں، تو بدلے میں امریکہ انہیں عالمی سطح پر تسلیم کروانے، جدید ہتھیاروں کی مرمت اور عسکری طاقت میں اضافے کی پیشکش کر سکتا ہے۔ بھارت بھی طالبان سے اپنے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کر رہا ہے، جبکہ پاکستان کی پوزیشن کمزور ہو سکتی ہے۔
یوں لگتا ہے کہ "نئی گریٹ گیم" کا آغاز ہو چکا ہے۔ یہ پرانی کہانی کا نیا باب ہے، جہاں مقاصد پرانے ہیں لیکن طریقے نئے ہیں۔ امریکہ ایک بار پھر افغانستان میں قدم جمانا چاہتا ہے، طالبان بین الاقوامی شناخت کے خواہاں ہیں اور خطے کے دیگر ممالک اپنے مفادات کے لیے صف بندی کر رہے ہیں۔
پاکستان کے لیے یہ لمحہ غور و فکر کا ہے۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی اور سکیورٹی حکمت عملی پر ازسرنو نظر ڈالنی ہوگی، کیونکہ خطے میں جو بساط بچھ رہی ہے، اس میں کوئی بھی قدم، ہمارے قومی مفادات پر براہِ راست اثر ڈال سکتا ہے۔

