Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sami Ullah Rafiq
  4. Friends Not Masters

Friends Not Masters

فرینڈز ناٹ ماسٹرز

برٹش رائل ملٹری کالج سے تربیت یافتہ، جنگ عظیم دوئم میں برٹش انڈین آرمی کی طرف سے لڑنےوالےکرنل اور پاکستان کے دوسرے صدر اورآرمی جنرل محمد ایوب خان جن کے اقتدار کا سورج 1969 تک چمکتا رہا اپنی مشہور زمانہ خود نوشت، "فرینڈز ناٹ ماسڑز " کے ایک باب فارن پالیسی میں لکھتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے 4 سالہ دورانیہ جو1960 تا 1964 تک محیط تھا امریکہ کے ساتھ خارجی تعلقات پر شدید تشویش کا سامنا کیا۔ امریکہ اپنی پالیسیوں کووقوع پذیر ہوتے واقعات کے ذریعے طے کر رہا تھا۔ اور ان واقعات پر مبنی پالیسیوں اورمختلف پروگراموں کے نتیجے میں جو تبدیلیاں رونما ہورہی تھیں وہ کس لحاظ سے پاکستانی عوام کی اخلاقیات کو متاثر کررہی تھیں۔ مملکت خداد کے عوام بے چینی اور مایوسی کا شکار ہورتھے۔ یہ مایوسی انہیں سنہ 1950 میں عظیم جدوجہداور محنت کے بعد قائم ہونے والے پاک امریکی دوطرفہ احترام کے تعلق کو تنزلی کی طرف لے جارہے تھی۔

اس کے علاوہ مشرقی ہمسایہ ہندوستان کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت کو وہ قطعا نظر انداز نہیں کرسکتے تھے جو انہیں ہر پل اپنی طرف توجہ دلاتا تھی۔ پاک و ہند کی تقسیم سے لے کر اب تک یہ توجہ فوجی بڑھوتری اورہر دوسرے فورم پر روایتی مسابقت ایک دوسرے کو اپنی طرف کشش ثقل کی طرح کھینچتی ہے۔ اگر بھارت کی طرف سے کوئی جارحیت ہوتی ہے تو پاکستان امریکی انحصار پر رہ سکتا تھا اور نہ ہی وہ امریکہ کو اپنی پالیسی کے بل بوطے پر اپنی طویل عرصہ پر محیط ایشائی پوزیشن کمزور ہوتے روک سکتے تھے۔ اس کے ساتھاس وقت کی امریکی حکومت کی سوچ پر چین کاخوف پوری طرح حاوی رہا اور وہ شدت احساس سے ہندوستان کے اس امکان سے چمٹے ہوئے تھےکہ وہ اس بات کا جواب دیں کہ وہ چینی خطرہ سمجھتے ہیں۔ اس صورتحال پر صدر ایوب نے امریکیوں سے بحث بھی لیکن انہیں کوئی جواب نہیں ملا۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ ہم ان کو یہ باور بھی نہیں کر اسکے کہ جب تک ہندوستان اور پاکستان کے مابین تعلقات وہی رہےجیسے اس وقت تھے تب تک برصغیر میں امن و استحکام ممکن نہیں ہوسکتا۔ انگریز بھارت اور پاکستان کے مابین معاہدہ کرانے کی ضرورت سے زیادہ واقف تھے، لیکن معاشی اور فوجی اثر و رسوخ کے معاملے میں ان کا بہت کم فائدہ تھا۔ صرف امریکہ ہی وہ واحد ملک تھا جس کا مطلوبہ اثر و رسوخ تھا لیکن اس نےبھی ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ انہیں ایک احساس تھا کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ میں مسلح افواج ہمارے نقطہ نظر سے زیادہ ہمدرد تھے لیکن وہ اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ محکمہ خارجہ میں منصوبہ سازوں کو متاثر کرکےا نکی سوچ کا محور بدل دیں۔ وہ تناؤ اور شدت کے اس دور میں انتہائی محتاط رہے کہ ایسا کچھ نہ کیا جائے جس سے امریکہ غیر ضروری طور پر اشتعال انگیزہو۔ لیکن وہ اپنے قومی مفادات کو نظرانداز کرنے کےبھی متحمل نہیں ہوسکتے تھے لہذا نہیں اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے کچھ اقدامات کرنا پڑے۔ ممکن ہے کہ ان اقدامات نے امریکی محکمہ خارجہ کو پریشان کیا ہو کہ پاکستان کو ان کی اجازت کے بغیر خارجہ امور کے میدان میں کام کرنا چاہئے۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے ہوسکتا ہے سوچا ہو کہ امریکہ نے پاکستان کو خاطر خواہ امداد دی ہے اور اگرچہ حالات بدل بھی چکے ہوں پاکستان کو اپنے تحفظ اور حفاظت کو یقینی بنانے کا کوئی حق نہیں تھا جس طرح سے وہ مناسب سمجھے۔

یہ واحد راستہ تھا جس میں صدر پاکستان نے ان کوششوں کی وضاحت کرنے کی کوشش کی تھی جو امریکہ نے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لئے کی تھیں۔ انہیں جو احساس نہ تھا وہ یہ کہ پاکستان میں کسی بھی حکومت نے ہندوستان کی طرف سے درپیش اصل خطرے کو نظرانداز نہیں کیا تھا اور ملک کی سلامتی کو ناقص یقین دہانیوں اور کاغذی ضمانتوں پر آرام کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ نیز انہیں یہ بھی محسوس ہوا کہ امریکہ کو اس حد تک ادراک نہیں تھا کہ پاکستان کے عوام اپنے ملک کی عزت اور سالمیت کی خاطر معاشی پریشانیوں اور مشکلات کو قبول کرنے کے لئے کس حد تک تیار ہوں گے۔ ترقی پذیر ممالک کے لوگ مدد کے خواہاں ہوتے ہیں، لیکن باہمی احترام کی بنیاد پر۔ وہ دوست رکھنے کے خواہشمند ہیں آقا نہیں۔

ہم چین کے ساتھ امریکی تعلقات کے بارے میں جانتے تھے لیکن امریکہ کو بھی اپنی سیاسی اور جغرافیائی مجبوریوں کو تسلیم کرنا چاہئے۔ امریکہ کی طرف سے ہماری مجبوریوں کو سمجھنے اور پہچاننے کے بعد ہی ہمارا رشتہ ایک نئی تفہیم کی بنیاد پر دوبارہ قائم ہوا۔ عوامی جمہوریہ چین اور سوویت یونین کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لاتے ہوئے ہم اپنے تمام فوجی اتحادوں کے ساتھ کمیونسٹ مدار میں نہیں جا رہے تھے۔ ان تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل نے واضح طور پر متعین حدود کی پیروی کی۔

صدر ایوب کی فرینڈز ناٹ ماسٹرز کے اس باب سےیہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان کا مندجہ بالا تجزیہ اور فکر جنگی فضا کی نشادندہی کرتی ہے۔ آج کے پاکستا ن اور خارجہ محاذ پران کے تجزیے کی چھاپ واضح ہے کہ کس طرح بعد کے ادوارمیں لڑی جانے والی جنگیں اورخاص طور پر وار آن ٹیرر میں پاکستان کو مختلف محاذوں پر اپنی توجہ مرکوز کرکے اپنی بقا اور استحکام کو یقینی بنانا پڑا۔ بلاشبہ پاکستان ایک عرصے تک حالت جنگ میں رہا جس میں دشمن نے پاکستانی اقدار کو بلاشبہ مسخ کرنے کی کوشش کی۔ پراپیگنڈہ وار نے پاکستان کے امیج کو متاثر کیا۔ سوشل میڈیا پرریاست مخالف بیانیہ کی ترویج ہوئی جس کے نتیجے میں ریاست اور ریاستی اداروں کو کئی سوشل میڈیا فورمز نے آزادی اظہار کی آڑ میں تنقید کا نشانہ بنایا۔ پاکستان میں فرقہ وارانہ اور علیحدگی پسند سوچ کو پروان چڑھایا گیا۔ اس سے پاکستان کا سافٹ امیج دھندلا ہوگیا۔ ملک خداد کو کئی قربانیاں دینی پڑی اور آخر کار پاکستان کا بیانیہ جیت گیاکہ پاکستان امن کا خواہاں ہے۔ پاکستان کی امن کی خواہش ہر گز کمزوری نہیں۔

About Sami Ullah Rafiq

The Author is a Lecturer of English Language and Literature in a private institute. He pens various historical and socio-political topics and global developments across the globe along with his own insight.

Check Also

9 Lakh Ki Azmat Aur Awam Ka Qarz

By Muhammad Salahuddin