Aqeede Ki Maut
عقیدے کی موت

صدیوں تک انسان اپنی زندگی میں سکون اور ترتیب تلاش کرتا ہرا۔ آخر میں یہ سکون اسے میٹا نیریٹِوز میں ملا۔ میٹا نیریٹِوز ایسی بڑی، عالمگیر کہانیاں ہیں جو ہم خود کو ہر چیز کی وضاحت کے لیے سناتے ہیں۔ ان میں تاریخ، اخلاقیات اور انسانی وجود کی بنیادیں شامل ہوتی ہیں۔ یہ بڑے بیانیے زندگی کو ایک جامع ڈھانچہ فراہم کرتے ہیں۔ ان کی مثالوں میں روشن خیالی، ترقی کا وعدہ، مارکسزم کا مزدور انقلاب اور روایتی مذہبی عقائد شامل ہیں۔ یہ بیانیے معنویت کے ستونوں کی طرح کھڑے رہے۔ انہوں نے زندگی کو ایک ساخت دی، مقصد کامتعین کیااور پوری تہذیبوں کے لیے اخلاقی معیار قائم کیے۔ یہ ثقافتی اور سیاسی اقدامات کا حتمی جواز بنے۔ انہی یک سنگی (monolithic) بیانیوں نے جدید دنیا کی تعریف کی اور یہ بتایا کہ تاریخی طور پر کیا ناگزیر ہے اور اخلاقی طور پر کیا درست ہے۔
20ویں صدی کے وسط سے یہ ستون ٹوٹنے لگے۔ سوچ کی اس تحریک کو پوسٹ ماڈرنِزم کہا جاتا ہے۔ یہ تحریک عالمی جنگوں کی تباہی کے بعد ابھری۔ اس نے ان بڑے نظریات پر سوال اٹھایا اور بالآخر انہیں ناکارہ قرار دے دیا۔ اہلِ علم اور فنکاروں نے ایک گہرا نظریاتی موڑ محسوس کیا۔ انہوں نے ان بالادست نظاموں کو گہری شک کی نگاہ سے دیکھا۔ ان کا مؤقف تھا کہ جو کہانیاں ہمیں آزاد کرنے کے لیے بنائی گئی تھیں وہ درحقیقت سخت اور خارج کرنے والے دعووں کے ذریعے ہمیں جکڑ رہی ہیں۔ انہوں نے دلیل دی کہ وہ متحد کرنے والا اور مکمل ادراک دراصل فکری پابندی کی ایک شکل تھا۔ یہ تبدیلی جدت پسندی کی ناکامیوں کا براہِ راست جواب تھی۔ عالمگیر سچائی پر ایمان نے بڑے پیمانے پر تشدد اور نظریاتی جبر کو جنم دیا تھا۔ پوسٹ ماڈرنسٹ والوں نے نتیجہ نکالا کہ ایک "واحد سچا بیانیہ" تلاش کرنے کی کوشش ہی مسئلے کی جڑ ہے۔
میٹا نیریٹِو دراصل "کہانیوں کے بارے میں ایک کہانی" ہے۔ یہ عالمگیر صداقت اور مکمل وضاحت کی طاقت کا دعویٰ کرتا ہے۔ یہ انسانی تجربے پر آخری بات ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ جدید دور میں ان بیانیوں نے زندگی کو سمت دی اور سیاسی انقلابات یا بڑی نوآبادیاتی توسیع کو جواز فراہم کیا۔ ان کلی نظاموں کی مثالیں واضح ہیں۔ روشن خیالی کا ماننا تھا کہ عقل اور سائنس ناگزیر طور پر سماجی کمال کی طرف لے جائیں گے۔ مارکسزم نے طبقاتی جدوجہد کے ذریعے ایک کمیونسٹ جنت کی پیش گوئی کی۔ سائنسی پوزیٹیوِزم نے دعویٰ کیا کہ صرف تجرباتی سائنس ہی سچائی رکھتی ہے۔
لیکن بڑے بڑے وعدوں کے باوجود 20ویں صدی نے ایک تاریک حقیقت کو بے نقاب کیا۔ دو عالمی جنگیں، ہولوکاسٹ اور ناکام کمیونسٹ ریاستیں اس کا ثبوت ہیں۔ ان واقعات نے تہذیب کی موروثی آگے بڑھنے کے یقین کو توڑ دیا۔ انہوں نے دکھایا کہ ترقی کے وعدے آسانی سے خوف و ہراس اور غیر معمولی آمرانہ کنٹرول کا باعث بن سکتے ہیں۔ ایک واحد نظریے کی رہنمائی میں ایک کامل معاشرے کی جستجو نے بڑے پیمانے پر تکلیف کو جنم دیا۔ اس ردّ عمل کا فلسفیانہ مرکز فرانسیسی فلسفی ژاں فرانسوا لیوٹار سے آیا۔ ان کے 1979 کے اہم کام "دی پوسٹ ماڈرن کنڈیشن" میں لیوٹار نے پوسٹ ماڈرنِزم کی تعریف یوں کی: "میٹا نیریٹِوز پر عدم اعتماد"۔
لیوٹار نے دلیل دی کہ یہ بڑی کہانیاں محض تاریخی طور پر غلط نہیں ہیں بلکہ یہ بنیادی طور پر جابرانہ ہیں۔ جب ایک میٹا نیریٹِو واحد، کلی وضاحت کا دعویٰ کرتا ہے تو یہ مخالف آوازوں کو خاموش کر دیتا ہے۔ اس سے استثنا کے ذریعے ظلم (Oppression by exclusion) کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ بیانیے اکثر ایک عقلی، یورپی مرد کی شخصیت کے گرد مرکوز تھےجس نے خواتین اور غیر مغربی ثقافتوں کو ساختی طور پر حاشیے پر دھکیل دیا۔ ان کے تجربات غالب اور طے شدہ کہانی میں فٹ نہیں ہو سکتے تھے۔ لیوٹار نے میٹا نیریٹِوز کو طاقت کے آلات کے طور پر دیکھا۔ وہ ریاست یا چرچ جیسے طاقتور اداروں سے جڑے ہوتے ہیں۔ اپنے بیانیے کو "حقیقت" قرار دے کر، وہ اس طاقت کے ڈھانچے کا جواز فراہم کرتے ہیں جو اسے فروغ دے رہا ہے۔ یہ آمریت کے حالات پیدا کرتا ہے۔
لیوٹار نے ایک اہم تبدیلی پر زور دیا۔ وہ عالمگیر وضاحتوں سے ہٹ کرمقامی، عارضی اور حالات کے مطابق علم کی طرف مائل ہوئے۔ انہوں نے یک سنگی بیانیوں کو چھوٹے، سیاق و سباق پر مبنی "چھوٹے بیانیوں" کے تنوع سے بدلنے کی وکالت کی۔ پوسٹ ماڈرن ادب نے فوری طور پر اس فلسفیانہ چیلنج کو اپنایا۔ اس نے بڑی تاریخی داستانوں کو ردّ کیا اور اس کی جگہ الجھن بھرے، انتشار زدہ اور متضاد انفرادی تجربات کو ترجیح دی۔ یہ ناول مقامی بیانیے (Localized Narrative) کو اپناتے ہیں۔ وہ تاریخ کا خلاصہ کرنے سے انکار کرتے ہیں بلکہ ہمیں اس کے ٹکڑے دکھاتے ہیں۔ وہ پورے ایک سماجی طبقے کے متوقع عروج کے بجائے مخصوص اور ذاتی واقعات پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔
یہ تحریریں انجام یا حل پر شک (Skepticism of Closure) کا اظہار کرتی ہیں۔ وہ صاف، تسلی بخش اختتام سے گریز کرتی ہیں اور مبہم طور پر ختم ہوتی ہیں۔ زندگی کو ایک نامکمل سوال سمجھا جاتا ہے، کوئی حل شدہ مسئلہ نہیں۔ تھامس پِنچن جیسے کئی مصنفین جنونیت (paranoia) کو تلاش کرتے ہیں۔ وہ بے نتیجہ سازشوں کے موضوعات استعمال کرتے ہیں۔ یہ میٹا نیریٹِو کے حتمی ٹوٹ پھوٹ کی عکاسی کرتا ہے۔ اگر سرکاری کہانی جھوٹ ہے، تو شاید ایک پوشیدہ سازش موجود ہو، لیکن اس سازش کو کبھی بھی مکمل طور پر کھولا یا یکجا نہیں کیا جا سکتا۔ ایک واحد، پوشیدہ سچائی کی تلاش ہمیشہ مایوس کن ہوتی ہے، جو ایک قابلِ بھروسہ عظیم بیانیے (Grand Narrative) کی غیر موجودگی کو ظاہر کرتی ہے۔
پوسٹ ماڈرن مصنفین عظیم بیانیے کی توقع کو جان بوجھ کر ختم کرتے ہیں۔ وہ مخصوص ادبی تکنیک استعمال کرتے ہیں۔ میٹا فکشن قاری کو یہ احساس دلاتا ہے کہ وہ ایک کتاب پڑھ رہا ہے۔ متن شعوری طور پر معروضی "سچائی" سمجھے جانے سے انکار کرتا ہے۔ یہ اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ ہر بیانیہ ایک تخلیق ہے اور اس کے مصنوعی پن کی یاد دلاتا ہے۔ عدم تسلسل غیر لکیری ٹائم لائنز اور تضادات میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار حقیقت کا ساختی طور پر آئینہ دار ہے۔ ایک متحد تاریخ کا احساس ٹوٹے ہوئے زمانوی تسلسل سے چکنا چور ہو جاتا ہے۔ مزاح اور طنز بڑے، عقائدی دعووں کی سنجیدگی کا مذاق اڑاتا ہے۔ یہ طنز کے ذریعے ان کے اختیار کو مجروح کرتا ہے۔
حرف آخر یہ کہ میٹا نیریٹِوز کو مسترد کرنا پوسٹ ماڈرنِزم کا سب سے اہم عنصر ہے۔ اس نے خلا پیدا نہیں کیا بلکہ آوازوں کے تنوع (Plurality of Voices) کے لیے جگہ کھولی۔ اس نے مرکزی، بالادست بیانیے کو ختم کر دیا۔ اس نے پہلے سے خارج کیے گئے گروہوں جیسے کہ رنگین مصنفین، خواتین مصنفین اور نوآبادیاتی دور کے بعد کی آوازوں کو اپنی کہانیاں سنانے دیا۔ اس بیانیے سے ایک ایسی دنیا کا آغاز ہوا جہاں معنویت اوپر سے نازل نہیں ہوتی بلکہ نیچے سے سمجھوتہ کرکے حاصل کی جاتی ہے۔ ایک عالمگیر جواب کی جگہ اب لاتعداد انفرادی سچائیاں آ گئی ہیں۔

