Sunday, 22 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sami Ullah Rafiq
  4. Apartheid Riasat

Apartheid Riasat

اپارتھائیڈ ریاست

فلسطین، جس کو عالمی امن کی ٹھیکیدار تنظیموں نے اپنی ناک تلے اسرائیل کے قبضے میں سونپا، گزشتہ چند دنوں سےشدیدمسلح جھڑپوں کی لپیٹ میں ہے۔ فلسطینیوں پر ایک بار پھر اپنے ہی وطن کی زمین تنگ کردی گئی ہے۔ سیکڑوں فلسطینی خواتین، بچے اور بوڑھوں کو اپنے ہی گھر وں سے بے دخل کیا جارہا ہے۔ اگر آپ گوگل میپ پر فلسطین لکھیں تو آپ کو فلسطین کی جگہ اسرائیل کا نقشہ دکھائی دے گا اور چھوٹے چھوٹے نقطوں کی شکل میں فلسطینی آبادیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ غرض گوگل میپ فلسطین کو نہیں بلکہ اسرائیل کو ایک ملک کے طورپر ظاہر کرتاہے اور یہ ہم سب جانتے ہیں کہ گوگل میپ کو کون چلاتا اور کنٹرول کرتاہے۔

اپارتھائیڈ ایک مکمل اصطلاح ہے جس کی تعریف ان الفاظ میں کی جاسکتی ہے کہ ایسے غیر انسانی اور نسل پرستانہ اقدام جو کسی ریاست کے لوگوں پرغلبہ پانے اور ظلم ڈھانے کی غرض سے کیے جائیں اور ان انسانیت سوز مظالم کا واحد مقصد اسریاست کو مٹانااور اپنا کنٹرول قائم کرنا ہو۔ یہ اصطلاح کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلا ایک سسٹم کے ذریعے سے ایک نسلی ریاست پر دوسری ریاست کاغلبہ، دوسرا نظام کے تحت ظلم و جبر جو ایک ریاست دوسری پر کرتی ہے، تیسرا یہ مظالم بزور طاقت ریاستی حدود کی منتقلی، پہلے سے موجود ریاست کے اندر اپنی ریاست قائم کرنا اور پہلی ریاست کو اس نظام کے تحت ختم کرنا، پہلے سے موجود ریاستی لوگوں کے حقوق اور شناخت کو نہ ماننا۔ اسرائیل کو اگر اس اصطلا ح اور اس کی تشریح میں موجود تمام عناصر کی روسے دیکھا جائے تویہ بات صادق آتی ہےکہ اسرائیل کئی دہائیوں سے فلسطینی مسلمانوں پر کئی طرح سے جبر کرکے اپنے مندرجہ بالا مقاصد حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہےاور اس میں خطے کے تمام بڑے سٹیک ہولڈرزاس کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں عالمی برادری کشمیر کے معاملے کی طرز پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہےاور فقط قراردادوں کے ذریعےبحران کو ختم کررہی ہے۔ اس طرح کی جھڑپوں پر صرف اخلاقیات کا سہارا لے کر کہا جاتا ہےکہ دونوں فریقین کو آپس میں مل بیٹھ کر، امن و آشتی کے ساتھ، باہمی تعاون کی مدد سے اپنے معاملات حل کرنے چاہیے۔

سلطنت عثمانیہ کے جنگ عظیم اول میں شکست اور خاتمے کے بعد برطانیہ نے فلسطین کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اس وقت تک عرب اور یہودیوں نے اس علاقے کو آباد کیا ہوا تھا۔ پہلی مرتبہ دونوں مذاہب کے لوگوں کے درمیان تنازعات میں شدت اس وقت آئی جب بین الاقوامی برادری نے انگلینڈ کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ یہودیوں کی آباد کاری کو سرز مین فلسطین میں لازمی بنائے۔ پھر 1920 سے 1940 کے درمیان یورپ سے بھاگنے کے بعد یہودیوں نے فلسطین کو اپنا مسکن بنا نا شروع کیا۔ جنگ عظیم دوئم اور ہولوکاسٹ میں ہٹلر نے یہودیوں کو جرمنی چھوڑنے پر مجبور کیا اور عبرتنا ک انجام سے دوچار کیاجس طرح آج فلسطینیوں کے ساتھ ہورہا ہے۔ اس سلسلے کی جھلک ہالی ووڈ کی ایک فلم "دی پیانسٹ" میں نظر آتی ہے جس میں یہودیوں کو بطور مظلوم ظاہر کیا گیاہے۔ غیر منصفانہ آباد کاری پر عرب اسرائیل جنگیں بھی ہوچکی ہیں جن کے نتیجے میں یہودی مسلسل فلسطینی علاقوں اور رہائشوں پر قبضہ کرتے چلے آرہے ہیں۔

فلسطین 6220 مربع کلومیٹر پر محیط خوبصور ت ملک ہے جو دریائے اردن اور میڈیٹرینین سی کے درمیان واقع ہے۔ یوں تو اقوام عالم کے 135 ممالک فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرتے ہیں اور ساتھ یہ بھی مانتے ہیں کہ اسرائیل فلسطین پر ناجائز اور غیر قانونی طور پر قابض ہے لیکن عالمی برادری فلسطین اور اسرائیل کے بارڈر بارے کوئی متفقہ رائے نہیں رکھتی۔

اقوام عالم اور اس جیسے دیگر کئی پلیٹ فارمز پر بے شمار قراردادیں منظور ہوچکی ہیں جن سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ مسائل جلد حل ہوجائیں گے لیکن اپنے آپ کو سپر پاور ماننے والا امریکہ اپنے ناجائز بچے اسرائیل کی ہر فورم پر پشت پناہی کرتا رہتا ہے۔ حالیہ اسرائیل فلسطین تنازعہ پر امریکہ کی طرف سے اسرائیلی جارحیت کو جارحیت تصور ہی نہیں کیاگیا۔ صحافی بار بار امریکی عہدیدار کی توجہ اس بحران کی جانب مبذول کرواتے رہے لیکن ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ شاید اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہو کہ امریکہ اس معاملے کو اپنے اوپر نہیں لینا چاہتا۔ کیونکہ امریکہ اسرائیل کےان غیر قانونی اقدام کے پیچھے اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھتا ہے۔

ایک طرف فلسطینیوں پر مظالم کی لہر لمبے عرصے سے جاری ہے تو دوسری طرف چند اسلامی ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے میں حکمت اور بہتری سمجھتے ہیں۔ سعود عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے والے نئے اسلامی ممالک کے پیچھے کھڑا ہے۔ یہ سب سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کی پالیسی کا حصہ ہےجو وہ گزشتہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ مل کر کرتے رہے۔ شہزادہ سلمان نے فلسطینی مسلمانوں کی پیٹھ پیچھے چھرا گونپ دیا اور یہ ثابت کردیا کہ ان کے اپنے مفادات ہیں جوان کومسلم امہ کے مقابلے میں عزیز ہیں۔ مسلم امہ کا ٹھیکیدار کہلانے والا سعودی عرب حالیہ اسرائیل فلسطینی کشیدگی پر آگے بڑھ کر کردار کیوں ادا نہیں کرتا؟ صرف ترکی اس معاملے میں 57 اسلامی ممالک سے سبق لے گیا اورترک صدر نے سب سے پہلے اسرائیل کے ان مظالم پر نہ صرف کھلے عام تنقید کی بلکہ امت مسلمہ کے ضمیر کو بھی جھنجھوڑنے کی کوشش بھی کی۔

پاکستان بطور ریاست اور پاکستانی کی تمام حکومتیں اسرائیل پر موقف سخت رکھتی ہیں کہ اسرائیل کوبطور ایک آزاد اور جائز ریاست تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ اسرائیل ایک اپارتھائیڈ ریاستہے۔ بین الاقوامی برادری مسلسل اپارتھائیڈ ریاست اور اس ضمن میں ہونے والی تمام کاروائیوں پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ سرزمین فلسطین پر پیدا ہونے والا ہر مسلمان بچہ اپنے بنیادی حقوق اور آزادی سے محروم ہے جس کی ذمہ داری ان ممالک کے کاندھوں پر ہے جواسرائیل کو معرض وجود لانے میں پیش پیش تھے۔ کیا اسرائیل کو تسلیم کرنے والےاسلامی ممالک کے بس میں اتنا بھی نہیں کہ وہ اسرائیل سے تعلقات منقطع کردیں؟ کیا مسلمان ہر اس یہودی پراڈکٹ کا بائیکاٹ کرکے اسرائیل کو معاشی طور پر کمزور نہیں کرسکتے؟ کیا ہم سوشل میڈیا پر ہولوکاسٹ کی تشہیر نہیں کرسکتے؟ ہمیں ان سوالوں کا جواب ضرور سوچنا ہوگا۔

About Sami Ullah Rafiq

The Author is a Lecturer of English Language and Literature in a private institute. He pens various historical and socio-political topics and global developments across the globe along with his own insight.

Check Also

26Wi Aeeni Tarmeem Ya Phir Siasi Tarmeem

By Fayaz Ul Hassan Chohan