Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sami Ullah Rafiq
  4. All The Shah’s Men

All The Shah’s Men

آل دا شاہز مین

اسٹیفن کنزر ایک مشہور امریکی صحافی اور مصنف ہیں۔ نیویارک ٹائمز میں بطور رپورٹر بھی کام کرتے رہے۔ اپنی کتب اور باریک بین تجزیوں پر بہت سے انعامات بھی حاصل کر چکے ہیں۔ بطور استاد بوسٹن یونیورسٹی میں آج کل صحافت اور بین الاقوامی تعلقات پڑھا رہے ہیں۔ کنزر کا شمار امریکی خارجہ پالیسی پر گہری نگاہ رکھنے والے تجزیہ کاروں میں ہوتا ہے۔ ان کی شہرہ آفاق کتاب "آل دا شاہز مین" بھی ان کی شہرت کی ایک بڑی وجہ ہے۔ دیگر کتب میں "اوور تھرو: امریکاز سینچری آف رجیم چینج فروم ہوائی ٹو عراق" اور "پائزنر ان چیف: ہٹلر ز سیکرٹ ویپنز"شامل ہیں۔ واٹسن انسٹیٹوٹ میں بطور سنیئر فیلو انٹرنیشنل ریلیشنزاور پبلک افیئرز تدریس کے فرائض بھی سر انجام دے رہے ہیں۔

بنیادی طور پر مذکورہ کتاب کا موضوع ایران میں 1953 کے امریکی حمایت یافتہ تختہ الٹنے کا تاریخی پس منظر اور اس کے اثرات ہے لیکن ایرانی قومیت، سیاسی نظام، بادشاہزت اور جمہوریت کا تفصیل سے تبصرہ بھی کتاب میں موجود ہے۔ سن انیس سو ترپن میں ایران کے عوامی حمایت یافتہ وزیر اعظم محمد مصدق کی حکومت کو امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اور برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس کے تعاون سے ختم کیا گیا۔ کنزر اس واقعے کو مشرق وسطیٰ اور دنیا کی سیاست پر دور رس اثرات ڈالنے والا واقعہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق ایران میں اس تبدیلی نے پورے خطے کی سیاست اور مرکز کو بدل کر رکھ دیا۔ کتاب ایران، امریکا اور برطانیہ کے درمیان تعلقات، مشرق وسطیٰ کی سیاست اور عالمی سطح پر سامراجیت کے اثرات کو سمجھنے میں مددگار ہے۔

1950کی دہائی میں ایران میں قومی جذبات ابھرنے اور جکڑ پکڑنے لگ چکےتھے۔ وزیر اعظم محمد مصدق نے ایران کی تیل کی صنعت کو قومیانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت تک سامراج برطانیہ کا ایرانی تیل تنصیبات پر مکمل قبضہ تھا۔ مصدق کے اس فیصلے سے برطانیہ اور امریکا میں بے چینی پیدا ہوئی جو آگے چل کر خارجہ محاذ میں مزید گھمبیر صورتحال میں بدل گئی۔ برطانوی حکومت کو خدشہ تھا کہ اگر ایران تیل کی صنعت کو قومی تحویل میں لے گا تو یہ دوسرے ممالک کے لیے بھی ایک مثال بن سکتا ہے۔ نیشنلائزیشن کے اس قدم سے برطانیہ کے سامراجی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

کنزر نے تفصیل سے بتایا ہے کہ کس طرح سی آئی اے کے افسر کرمٹ روزویلٹ نے ایران میں سازش کی بنیاد رکھی اور کس طرح مختلف دھڑوں کو متحد کرکے مصدق کی حکومت کو گرانے کی کوشش کی۔ کنزر کے مطابق اس عمل نے ایران کے اندرونی سیاسی حالات کو بری طرح متاثر کیا اور ایرانی عوام کے ذہنوں میں مغربی طاقتوں کے خلاف نفرت پیدا کی جو بعد میں 1979 کے اسلامی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ کتاب میں مصنف نے سامراجیت اور تیل کی سیاست کو بخوبی بیان کیا ہے۔ برطانوی تیل کمپنی نے ایران کے تیل کے ذخائر پر کئی دہائیوں تک قبضہ کیے رکھا اور جب مصدق نے تیل کو قومیانے کا فیصلہ کیا تو اس نے مغربی طاقتوں کی ناراضگی کو دعوت دی۔ مصدق کی یہ پالیسی مغربی طاقتوں خاص کر برطانیہ اور امریکہ کےلئے ایک بڑی رکاوٹ کا باعث تھا۔ دونوں طاقتوں کی معیشت کا انحصار تب تیل پر زیادہ تھا۔

کتاب میں 1953 کے حکومتی تختہ الٹنے کو امریکی خارجہ پالیسی میں ایک موڑ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اس واقعے نے امریکی پالیسی سازوں کو یہ سبق دیا کہ کسی بھی ملک میں اپنی مرضی کے مطابق حکومتیں تبدیل کرنا ممکن ہے۔ ایران میں تبدیلی امریکہ کا پہلا تجربہ تھا۔ اس کے بعد امریکی خارجہ پالیسی کے لیے دوسرے ممالک کے سیاسی نظام میں مداخلت ایک معمول بن گیا تھا۔ اس نظریے کے تحت بعد میں دیگر ممالک میں بھی امریکی حمایت سے حکومتوں کو تبدیل کیا گیا۔ کنزر نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح اس واقعے نے ایرانی معاشرے میں مغربی مداخلت کے خلاف نفرت پیدا کی اور ایران میں جمہوریت کے فروغ کو نقصان پہنچایا۔ اس واقعے کے بعد ایران میں شاہز کی آمریت مضبوط ہوئی اور ایرانی عوام کے لیے اپنی آزادی اور خودمختاری کی جدوجہد مزید پیچیدہ ہوگئی۔

اس امریکی مداخلت پر دوسروں کی کیا رائے ہے۔ اس پر راقم نے مختلف مصنفین اور ماہرین کی رائے کا حوالہ لکھا ہے تاکہ ایک تقابلی جائزہ سامنے آسکے۔ مشہور مصنف اور تجزیہ کار رابرٹ ڈی کپلن کا کہنا ہے کنزر نے ایران اور امریکا کے تعلقات کے پیچیدہ پہلوؤں کو انتہائی تفصیل سے پیش کیا ہے اور اس واقعے کو سمجھنے کے لیے اہم معلومات فراہم کی ہیں۔ ان کے مطابق اس کتاب کے ذریعے قاری کو یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ امریکا کی خارجہ پالیسی میں انٹیلیجنس آپریشنز کس طرح کا کردار ادا کرتے ہیں۔

معروف امریکی ماہر لسانیات اور تجزیہ کار نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ یہ کتاب امریکی سامراجیت پر ایک گہری تنقید ہے اور اس نے مشرق وسطیٰ میں امریکی کردار پر کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ چومسکی کے نزدیک کنزر نے امریکا کی خارجہ پالیسی کی خامیوں کو نہایت سلیقے سے پیش کیا ہے۔ اس سے یہ تاثر مضبوط ہوتا ہے کہ امریکہ جو جمہوریت اور انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار بننے کا دعویٰ کرتا ہے وہ کس قدر جھوٹا اور مفاد پرست ہے۔

امریکی تاریخ دان جان سیل کی اپنی ایک خاص رائے ہے۔ ان کے مطابق کنزر کی کتاب ایران کے اس اہم موڑ کو درست تاریخی پس منظر میں بیان کرتی ہے اور یہ ایک ضروری مطالعہ ہے۔ خصوصاً ان لوگوں کے لیے جو مشرق وسطیٰ کی سیاست کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ آپ کے نزدیک یہ کتاب امریکی قارئین کے لیے ان کی حکومت کی خارجہ پالیسی کے مضمرات کو سمجھنے کے لیے اہم ہے۔

صحافی اور مشرق وسطیٰ کے تجزیہ کار مارک گاس کا کہنا ہے کہ آل دا شاہز ز مین ایک ایسی کتاب ہے جس نے ایران میں 1953 کے انقلاب کو درست سیاق و سباق میں بیان کیا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ یہ کتاب دنیا بھر میں امریکی مداخلت اور سامراجی طاقتوں کے اثرات کے حوالے سے ایک سبق ہے۔

کنزر کی تحریر نے ایران میں بڑی حکومتی تبدیلی کے اثرات کو نہایت عمیق انداز میں بیان کیا ہے اور امریکا کی خارجہ پالیسی پر سوالات اٹھائے ہیں۔ اس کتاب کے ذریعے قارئین کو اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ ایران اور مغربی دنیا کے تعلقات میں اس واقعے نے کس طرح پیچیدگی پیدا کی۔ یہ کتاب آج کے دور میں بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور عالمی سیاست کو سمجھنے کے لیے بہترین ہے۔

About Sami Ullah Rafiq

The Author is a Lecturer of English Language and Literature in a private institute. He pens various historical and socio-political topics and global developments across the globe along with his own insight.

Check Also

Dil e Nadan Tujhe Hua Kya Hai

By Shair Khan