Afghanistan Se Americi Inkhela
افغانستان سے امریکی انخلا
ان دنوں ایک انتہائی اہم گردشی سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ افغانستان سے جائے گا یا نہیں۔ کیا بائیڈن انتظامیہ ماضی کی امریکا طالبان ڈیل پر عمل کرے گی؟ تقریبا سبھی اس سوال کے جواب کے منتظر ہیں۔ جو بائیڈن نے حال ہی میں امریکی صدارتی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک بھاری اکثریت سے شکست دی اور دنیا کی سب سے بااثر صدارت کا چارج سنبھال لیا ہے۔ بائیڈن کے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ اور افغان طالبان نے 2020 کے آغاز میں قطرکے دارلحکومت دوحہ میں 18 سالہ طویل جنگ کے خاتمے کے معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے کے دستخطی شخصیا ت میں زلمے خلیل زاد اور ملا عبد الغنی برادر نے شرکت کی اور مائک پومپیو بطور گواہ نظر آئے۔ اس معاہدے کا ثالث پاکستان تھا۔ اس معاہدے کے مطابق پہلے 135 دن کی مدت میں امریکہ افغانستان میں اپنی افواج کو کم کرکے 8600 کر دے گا۔ اتحادیوں کے ساتھ بھی تناسب سے افواج میں کمی کی جائے گی اور ایک مقررہ مدت میں 5000 طالبان قیدی اور ایک ہزار افغان سیکیورٹی فورسز کے قیدیوں کا تبادلہ کیا جائے گا۔
امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے افغان حکومت سے بات چیت کی ہے اور کہا ہے کہ امریکی فوجی موجودہ پرتشدد واقعات کی وجہ سے افغانستان میں ٹھہر سکتے ہیں اور وہ مذکورہ معاہدے پرانکی نو منتخب حکومت نظرثانی کرکے فیصلہ کریں گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جوبائیڈن حکومت افغان حکومت کے تحفظات کے بارے میں علم رکھتی ہے۔ امریکی وزیر دفاع جنرل (ر) لائیڈ آسٹن بیانی ہے کہ اس امن عمل اور امریکہ کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری میں پاکستان کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کے حصہ اور کردار کو کسی کے ساتھ بدلہ بھی نہیں جاسکتا۔ اصل میں امریکی وزیر دفاع نے امن عمل میں ثالثی اور ضرورت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی موجودگی کو لازم و ملزوم کہا ہے۔ اس سلسلے میں امریکی صدر جو بائیڈن کے دو بیانات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بائیڈن کے مطابق افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد کم ہوجائے گی لیکن اچانک افغانستان سے امریکہ کا مکمل اخراج ناممکن ہے۔ ٹرمپ اور بائیڈن کے انتخابی مباحثوں کے دوران، اس مسئلے پر بائیڈن کا معنی خیز نظریہ تھا کہ انہیں افغانستان میں قیام کے دوران امریکی فوجیوں کی حفاظت کے لئے پاکستان کے فوجی اڈوں کو خاص طور پر فضائی اڈوں کی ضرورت ہے۔ اس سے امریکی افواج کے مکمل اخراج تک پاکستان پر امریکی انحصار بھی واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے۔
پاکستان اور امریکہ کے علاوہ افغانستان میں ہندوستان کے اثر و رسوخ کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت بھی افغانستان میں بطور ایک پر اثر اسٹیک ہولڈر ہونے کا دعوی کرتا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کی سرحد ڈیورنڈ لائن پر دہشت گرد حملے اور پاکستان میں شورش براسطہ افغانستان انڈیا کی موجودگی کا کھلا ثبوت ہے۔ ہمسایہ ملک ہندوستان براہ راست پاکستان پر حملہ نہیں کرسکتا لہذا اسے افغانستان کے راستے پراکسی وار لڑنی پڑتی ہے کیونکہ ہندوستانی سرکار کو جھوٹی سرجیکل اسٹرائیک پر منہ کی کھانی پڑتی ہے۔ یہ بلواسطہ دخل اندازی اور شورش مودی کے ہندوستان کے حق میں ہے جو اب قطی طور پر سیکولر ملک نہیں رہا۔ اس بات کا ثبوت بھارت میں جاری علیحدگی پسند تحاریک میں تیزی، مذہبی آڑ میں مسلمانوں سمیت باقی اقلیتوں پر تشددکے بے شمار واقعات اور بھارتیہ جنتا پارٹی میں موجود آر ایس ایس کے غلبے کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔ افغانستان میں اس پراکسی وار اور امن عمل کے بگاڑ کا فائدہ اٹھانے والا ہندوستانی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دول ہے۔ افغانستان میں امن پاکستان میں امن ہے۔ افغانستان کی سلامتی سے پاکستان میں استحکام اور خوشحالی کے امکانا ت بڑھ جاتے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ ملحقہ پاکستان کی مغربی سرحد بھی محفوظ ہو جاتی ہے۔ ہندوستان کےتشدد پسند مفاد اور کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائین لیے یہ سب اچھا نہیں ہے۔ اس سے افغانستان میں کی گئی بھاری سرمایہ کاری بھی رائیگا ں جاتی ہے جب ہندوستان کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے میں ناکام رہا ہے اور پاکستان میں بھارتی دہشت گردی کی سرمایہ کاری جب مکمل طور پرٹھس ہوچکی ہے تو وہ بین الافغان مذاکرات کو روکنے کے لئے افغانستان میں بھی یہی کام شروع کرتا ہے تاکہ امریکہ اس معاہدے سے واپس ہٹے، افغان طالبان کی مخلصانہ اور سنجیدہ کاوشوں پر شک کرے اور افغان طالبان کو خودکش حملوں، خفیہ ٹارگٹ کلنگ اور مذہبی مقامات کو دھماکے سے اڑانے کا الزام لگائے۔
موجودہ افغان حکومت ہندوستانی اثر و رسوخ کے مضبوط چنگل میں جھکڑی نظر آتی ہے اور اس سے جلد آزادی بھی ممکن نہیں۔ بھارت کی ملک بھر میں تعمیر نو کے دیگر منصوبوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ کابل میں پارلیمنٹ کی عمارت کی تعمیر، بجلی کی ٹرانسمیشن تاریں نصب کرنا، اندرا گاندھی انسٹی ٹیوٹ برائے چلڈرن ہیلتھ کی تعمیر، قندھار میں افغان نیشنل ایگریکلچر سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی میں مالی اعانت کی فراہم کی، کچھ صوبوں میں ٹیلیفون ایکسچینج کو اپ گریڈ کرنا، ہوائی اڈوں کے ہوائی جہازوں کو اس کی ایئر لائنز کے لئے مدد کی فراہمی، افغان سرکاری ملازمین کو تربیت دینا اور افغان نیشنل آرمی کو لاجسٹکس مدد کی فراہمی شامل ہیں۔
اس تناظر میں افغانستان سے امریکی انخلا کے نتیجے میں ہندوستان اور پاکستان کے مابین اپنا اثر و رسوخ بحال رکھنے کیلیے ایک اور محدود پیمانے پر شورش کا امکان موجود رہے گا۔ اس سے افغانستان کے خطے میں بے یقینی اور امن کو لاحق خطرات میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے اور طالبان ایک اور بدترین طویل مدتی جنگ لڑنے پرمشتعل ہو سکتے ہیں جو افغانستان کے لئے مزید گڑھے کھود نے کے مترادف ہے۔ تقریبا دو دہائیوں کی جنگ نے امریکہ کو افغانستان کے اندر پاکستان کا علاقائی اثر و رسوخ اور تعاون سمجھ میں آچکا ہے جس کا عکس نو منتخب امریکی صدر بائیڈن اور انکی انتظامیہ کے بیانات سے عیاں ہے۔ اگرچہ افغان حکام کا خیال ہے کہ امریکی فوجیوں میں کمی سے ملک خود اعتمادی، اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی صلاحیت اور آگے بڑھنے کی خواہش پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
بین االافغان مذاکرات پر عمل درآمد امریکہ اور پاکستان کو افغانستان کے استحکام اور صلاحیت کی یقین دہانی کراسکتا ہے بصورت دیگر امن و امان کا کوئی امکان نہیں ہے۔