Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Salman Aslam
  4. Kya Hum Aik Qaum Hain?

Kya Hum Aik Qaum Hain?

کیا ہم اک قوم ہیں؟

ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں جہاں انسانی زندگی کی رسائی کائنات میں موجود قریبا ہر شے تک مکمن ہوگئی وہاں پہ انسانی تمدن کے بگاڑ کابھی سب بن چکی ہے۔ میڈیا انسانی معاشرتی تمدن کےلیےاک ایسی سنڈی بن چکی ہے۔ جس سے معاشرے میں موجود تہذیب و ثقافت کے فصل کوبآسانی راتوں و رات تباہ کیاجاسکتاہے اور کیا جا بھی رہا ہے۔ بیشتر اوقات ہم مشاہد کرتے ہیں اپنی روزمرہ زندگی میں سوشل میڈیا کے ذریعے ہر بات کافی عام طور پر مضحکہ خیز انداز میں پھیلائی جاتی ہے بغیر تحقیق کئے اور معاملے کی نوعیت کو سمجھے پرکے بغیر۔ یہ وباء اک ناسور جیسے ہمارے معاشرے میں اور وطن عزیز میں سرائیت کر چکی ہے۔ لیکن یہ آج سے نہیں شروع ہوئی، مشرف کے دور میں جب موبائل اور میسج پیکجزضروریات زندگی سے کہیں سستے اور آسانی سے میسر آنے لگے تب سے پشتون /پختون قوم کےبارے میں مذاق، لطائف اور تضحیک خیزرویے میں اضافہ ہونے لگا۔ اور آج نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اب پشتون /پختون اور پنجاب کے باسی اپنے ہی وطن کے سرزمین میں اک دوسرےسے دست و گریباں ہو رہے ہیں۔ اور با ت صرف پنجاب اور پختونوں کے دست و گریباں ہونے تک نہ رہی جبکہ یہ چنگاری اب سندھ اور بلوچستان میں برسوں سے موجود آتش گیر مادے کو سلگانے کے لیے ہوا کا کام دے رہی ہے اور دشمن اس کو آکسیجن جتنی اہمیت اور فوقیت دےرہا ہے۔ مگر ہم ہے کہ ہاتھی کے کان میں سوئے ہوئے جاگنے کا نام تک ہی نہیں لے رہے۔ میرا اکثر ایسے دوست واحباب سے نشست ہوتی رہتی ہے جس میں بیشتر اوقات قومیت کے موضوع پہ از راہ مذاق / لطائف کے تناظر میں بحث چڑھ جاتیہے جبکہ وہ پھر بھی تضحیک ہی ہوتی ہے چاہے وہ کسی بھی قوم کے بارے میں ہو اور کسی بھی اعتبارسےہو۔ لیکن دکھمجھے اس وقت ہوا جب میں بس میں بیٹھا ڈیوٹی پہ جا رہا تھا بس ابھی دوسرے لڑکوں کے آنے کا انتظار کر رہی تھی۔ توسامنے سےشے سے باہر دو ڈرایئور کھڑے گپیں ہانک رہے تھے اور اتفاق سے ماشاءاللہ دونوں پاکستانی تھے اک پاھرن اوردوسرا پنجاب کا تھا۔ تو اک نیپالی دوست نے مجھ سے حیرت سےپوچھاکیا پنجابی اور پھٹان میں دوستی ہوسکتی ہے؟ میں بولا ہاں ہو سکتی ہے کیوں؟ وہ مجھے بولا وہ دیکھو باہر پھٹان اور پنجابی ڈرایئور کھڑے گپیں لگارہے ہیں۔ تومیں نے اسکو سمجھایا کہ ہم پاکستانی پہلےہیں پٹھان اور پنجابی بعد میں وہ صرف ملک کے اندر پہچان کے لیےہے۔

اسکی تسلی و تشفی ہوئی یا نہ ہوئی وہ بات اہم نہیں لیکن اسکے اس رویےنے بڑے گہرے اور انمٹ سوالات چھوڑ دیے۔ اسکے شائد چند دن بعد ہی ہمارے روم میں وہی پہلے جیسے تمسخر و طنز ومزاح کے مدنظر پاھئن برادری کی بات چھیڑدی گئی تو میں نے انتہائی سنجیدہ انداز میں بولا کہ ہم ننگا اپنے وجود وطن عزیز کو خود کر رہے ہیں۔ میں نے ان کےسامنے اسی ہی لڑکے کی وہ بات رکھ دی، کہ آج ہمارے بے جا اور بیہودہ طنز و مزاح اور اخلاقی اقدار سے نکلنے کی وجہسے ہی دوسرے اقوام کو اپنا جسم عریاں کرکے دکھا رہے ہیں کہ یہ ہے ہماری اصلیت۔ تب لوگ ننگوں کو ننگا نہ دیکھیں تو اور کیا دیکھیں۔ اگر ہم آپس کی ایسی بیہودہ رشتہ داری و برادری کا تعلق رکھ رہے ہیں تو پھر ہمیں تار تار کرنےکے لیے باہر سے دشمن کی کوئی ضرورت نہیں اس کام کے لیے پھر منافقت کے اعلی درجے کے یہ برادری اور رشتہداریاں کافی ہے۔ اور آج دیکھ لیں ہمیں باہر سے کوئی اپنے ہاتھوں سے تو تباہ و برباد نہیں کر رہا۔ بلکہ ہم خود ہی دوسروں کے ہاتھوں نیلام ہوکر اپنے ہی برادی و بھائی چارے کے آشیانے کو تار تار کر رہے ہیں۔ اپنے گندے سوچ، غلیظ فہم اوربیہودہطنز ومزاح کی وجہ سے ہی ماؤں کے گود اجاڑ چکے ہیں اور کر رہے ہیں۔ اور ہمارا دشمن باہر آرام سے بیٹھ کراس ننگے کھیل کا آستین چڑھا کےسیگار سلگا کر تماشہ دیکھ رہا ہے۔ اور ہم اب بھی نہیں سنبھل رہے۔ ہم بے حسی کے اسنہج پہ پہنچ چکے ہیں جہاں سے انسان شرف خلقت کا شرف کھو کر چوپایئوں کے صف میں شامل ہوجاتا ہے۔ اور چوپایئوں کو جتنی چاہیں لات مارو، بھار لادو انکو کچھ فرق نہیں پڑتا اور نہ پوچھنے کا حق واستطاعت رکھتے ہیں۔ بس خاموشیسے سر جھکائے حکم تعمیلی کا فرض نبھا رہے ہوتے ہیں چاہے حرام ہو یا حلال۔ ہم آج بھی اس طنز ومزاح کی قباحت میں غرق پڑے ہوئےہیں۔ اک دوسرے کو خود سے کم تر اور حقیر تر گردانتے ہیں اور اپنے آپ کو اعلی اور برتر۔ قرآن میں ارشاد ربانی ہے۔۔۔ "یٰآَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٍ عَسٰٓی اَیَّکُوْنُوْا خَیْرًامِّنْھُمْ" اے ایمان والو ٹھٹھا(تمسخر) نہ کریں ایک لوگ دوسروں سے شاید وہ بہتر ہوں ان سے"۔

ہم یہ بھی بھول گئے ہیں جب خطبہ حجتہ الوداع میں محبوب پاک علیہ الصلوات والسلام نے تین بار عہد لے کر فرمایا تھا کہ آج سے کوئی عربی عجمی، کوئی عجمی عربی پر، کوئی کالا گورے پر، کوئی کالے پر کوئی فوقیت نہیں رکھتا ماسواتقویٰ کے۔"اے مسلمانو! کیا میں نے تم تک اللہ کا پیغام پہنچا دیا؟ تین بار دوہرایا اور سب نے ملکر جواباً کہا تھا "ُنَعَمْ یَارَسُوْلَ اللَّہ" اور پھر اللہ جل شانہ کی طرگ رخِ زیبا اٹھا کر فرمایا اے مرے پروردگار! آپ گواہ رہنا میں نے اپنا پغامم پہنچا دیا۔ لیکن آج دیکھ لیں ہم پورے سینہ تان کے کھڑے ہیں اللہ اور اس کے حبیب کے فرمان کو ٹھکرائے ہوئے۔ کیا ایسے قوم پہ کبھی سکھ کے دن، خوشی کے لمحات، خوشحا لی کا وقت آسکتاہے؟ کیا ایسے قوم کے رزق میں، رشتوں، زندگیوں برکتپیدا ہوسکتی ہے؟ کیا ایسی قوم میں کبھی یگانگت، ملت وحدت، اتحاد کبھی آسکتی ہے؟ کبھی بھی نہیں، جو لوگ اللہ کےاحکامات کو ماننے کی بجائے چیلنج کرلیتے ہیں ان پہ صرف عذاب نازل ہوا کرتی ہیں۔"عذاب مھین کے جھٹکے تو بہت دےچکا اللہ تعالی ہمیں تا کہ ہم رجوع کر لیں مگر ہم ہر ویک اپ کال کےبعد اور سینہ اکڑ کر کھڑےہوجاتے ہیں۔

یاد رکھیں جو قومیں اللہ اور اسکے حبیب کی نافرمان بن جاتی ہیں ان کا انجام سوائے تباہی و بربادی کے کچھ اور نہیں ہوتا۔ سورہ ابراھیم کے اخری رکوع آیت نمبر ۲۵ میں رب کائینات فرماتا ہے " اور ہم نے تم سے پہلے بھی یہی قومیں آباد کی تھیں، جنہوں نے ظلم کیا تھا اپنی جانوں پر اورکھل چکا تم پہ کہ کیسا کیا ہم نے انکا انجام اور بتلائے ہم نے تمہیں ان سب کےقصے (انبیاء علیھماالسلام کے زبانی)۔" اب بھی وقت ہےدیر نہیں ہوئی اگر فلاح کے متمنی ہیں، امن و خوشخالی کی تمنا رکھتے ہیں، ملی وحدت اور یگانگت کے خوابوں کی تعبیر دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اللہ اور اسکے حبیب کی طرف رجوع کرنا ہوگا، یوں اک دوسرے کا مذاق اور ٹھٹا و تمسخر ہمیں چھوڑنا ہوگا ورنہ دوسری صورت میں ہم کبھی سکھ کا سانس نہ لے سکیں گے۔ اور ہمارے دلوں میں نفرت کی یہ چنگاری کسی دن آتش فشاں پہاڑ کے لاوے کہ مانند ابل کر باہر آجائے گا اور تب نہ ہمارا کوئی وجود باقیرہے گا اور نہ کوئی نام ونشان بس نصیحت کے لئے قصے بن جائینگے آنے والی نسلو ں کے لیے۔

Check Also

Ghair Yahudion Ko Jakarne Wale Israeli Qawaneen (1)

By Wusat Ullah Khan