Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Salman Aslam
  4. Islam Aur Isaiyat (3)

Islam Aur Isaiyat (3)

اسلام اور عیسائیت (3)

یہ سن 2016 کی بات ہے جب میں ابوظہبی میں ڈیوٹی کرتا تھا۔ ایک دن صبح ہماری شفٹ ختم ہو چکی تھی اور ہم اپنی گاڑی کے انتظار میں شاپنگ مال کی مین لابی میں بیٹھے تھے۔ میرے ساتھ والی کرسی پہ ایک نیپالی ہندو دوست بیٹھا تھا۔ کسی طرح سے مذہب اور خدا کی بات چل نکلی تو اس نے پوچھا اسلام میں کتنے گاڈ (یعنی خدا / اللہ) ہیں۔ میں نے کہا ہم ایک اللہ کا عقیدہ اور ایمان رکھتے ہیں۔ تو اس نے کہا واہ یہ کتنا آسان ہے۔ ہم تو (یعنی ہندو مذہب) 33 ملین خداؤں کا عقیدہ رکھتے ہیں اور ہم میں سے اکثر کو شائد یہ تعداد معلوم بھی نہیں ہوگی، تو یہ یاد رکھنا کہ کس کس چیز کا کونسا اور کتنے خدا ہیں وہ تو دور کی بات ہے۔

میری حیرت کی انتہا نہیں تھی جب مجھے معلوم ہوا کہ عیسائیت میں بھی بائبل مقدس کے ورژن کی بھر مار ہے۔ تو پھر نہ جانے عیسائی برادری ان سب کے نام اور کونسے ورژن کا بائبل سچا اور خدا کا کلام ہے کا تعین کیسے کرتے ہونگے؟ اتنے سارے خداوں، اتنے سارے مقدس کتابوں کا وجود اور عقیدہ بذآت خود اس بات کی دلالت ہے کہ جہاں مذہب کو چلانے اور ماننے کے لیے اتنے سارے خداوں کا سہارا لینا پڑجائے اور جس مذہب کے مقدس کتاب کو ہر کوئی اپنی من مانی سے اور مرضی سے لاتعداد ورژن میں لکھ کر اس کا اصل روپ ہی ختم ہوجائے، تو بصد احترام اور معذرت کے ساتھ ایسے میں وہ خدا اور ایسا مقدس کتاب کتنے کمزور ہونگے جو اپنی پہچان کو بھی نہ بچا سکے۔

بائبل مقدس کے اتنے ورژن ہونے کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ عیسائیت میں یا تو ہر بآثر شخص نے اپنی مرضی اور سمجھ بوجھ سے اپنی ہی بائبل لکھ ڈالی اور یا پھر گزرتے وقت کے ساتھ بدلتی ہوئی انسانی اور دنیاوی زندگی اور اس کے موافق یا برعکس پیش آنے والے حالا ت کو مدنظر رکھتے ہوئے، مختلف مواقعوں کی مناسبت سے جدید دور کے نئے تقاضوں یا لوگوں کے ذاتی پسند و نا پسند کے موافق بائبل تشکیل دی گئی یا لکھ دئی گئی ہے۔ تب اتنے سارے مقدس کتاب کے ورژن اور عقیدہ تثلیث کی موجودگی میں خود کو موحد کہنا بھی ایک سوالیہ نشان بن کر رہ جاتا ہے۔ کیونکہ موحد کی تعریف کسی ریاضی کے کلیے کی مانند نہیں کہ آپ 1 + 1 + 1 = 1 کے نہیں ہوتا، بلکہ1 + 1 + 1 = 3 ہی آئے گی۔

میں کل رات کسی ایونٹ سے گھر آرہا تھا۔ یہ رات کے 1 بجے کا وقت تھا میں نے اپنے عیسائی دوست کی بھیجی ہوئی گوگل ڈاکومینٹ کی وہ فائل اوپن کرکے اسکو ہسپانوی زبان سے چیٹ جی بی ٹی کی مدد سے وائس اوور میں سننا شروع کیا۔ میں نے اس ریکارڈنگ کو کوئی 3 بار سنا۔ ایک بات تو واضح ہوگئی کہ عیسائیت میں جو فرقے بنے ہیں وہ کسی بنیادی اختلاف کے بابت نہیں بنی۔ وہ بس وقت کے بڑوں کا ایک دوسرے سے کسی بھی اختلاف کے باعث اور یا پھر اپنی ذاتی پسند و ناپسند کی وجہ سے بائبل میں رد و بدل کی گئی باقی سب کا بنیادی عقید ایک ہی ہے، کہ "اللہ، عیسیٰؑ اللہ کا بیٹا (معاذ اللہ) اور القدس یعنی جبرائیلؑ" یہ تین نہیں ہیں بلکہ ایک ہی ہیں اور یہی عیسائی برادری میں خدا کا تصور ہے۔ جس کو عقیدہ تثلیث کہتے ہیں اور عیسائی برادری اسی تصور کے مآخذ خود کو موحد کہتے ہیں۔ اگر منطق اور لاجک کی بات کی جائے تو اللہ، عیسیٰ ابن اللہ (معاذ اللہ) اور القدس یہ تین الگ الگ ذآت ہیں اور منطقی اعتبار سے یہ تین بنتے ہیں نہ کہ ایک۔

اب اس عقیدے کو جذباتیات کے تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر یہ تینوں واقعی میں ایک ہی ہیں تو پھر جو عیسائی برادری کا عقیدہ ہے، کہ عیسیٰؑ ہمارے ہی گناہوں کے کفارے کے لیے صلیب پہ چڑھ گئے تھے۔ تو پھر اس کا مطلب ہے کہ اللہ اور القدس بھی صلیب پہ چڑھ چکے ہیں (معاذاللہ) اور اب جیسے کہ عیسیٰؑ قیامت کے دن واپس آئیں گے تو پھر القدس اور اللہ بھی قیامت کے دن آئیں گے کیونکہ یہ تینوں تو عقیدہ تثلیث کی مناسبت سے ایک ہی ہیں۔۔ نہیں؟ یعنی پھر معاذاللہ یہ دنیا تب سے لے کر قیامت تک بغیر کسی خالق کے رہ رہی ہے اور رہے گی۔ توپھر یہ نظآم ہستی چلا کون رہا ہے؟ اگر نہیں اور بلا شک و شبہ کے عیسائی برادری کہے گی کہ نہیں یہ کیا بچگانہ اور فضول سی بات ہے اور ہے بھی، کہ اللہ اور القدس بھی صلیب چڑھ گئے۔ تو اگر ماننے کے لیے، عقیدہ رکھنے کے لیے عقیدہ تثلیث کی کوئی حیثیت ہو سکتی ہے تو پھر کسی ایک کے ساتھ کچھ بھی ہو وہ تینوں پہ لاگو کیونکر نہیں ہونا چاہئیے؟ کیا صرف ماننے کی حد تک اوربیان کرنے کی حد تک عقیدہ تثلیث قابل عمل ہے اور منطقی اور عقلی اعتبار سے اس کو جانچتے وقت عقیدہ تثلیث ناقابل عمل ہوجاتا ہے؟

چلیں ایک اور مثال سے سمجھتے ہیں، عقیدہ تثلیث سمجھ لو کہ ایک انسانی جسم کی مانند ہے۔ مان لیتے کہ ہاتھ پیر، کان ناک سر یعنی ہر عضو، ہے تو الگ، مگر یہ سب ملکر ایک جسم بناتے ہیں تو یہی عقید تثلیث ہے۔ جی ہاں یہ مثال منطق کی رو سے بہت زبردست ہے۔ مگر! میرا سوال وہی ہے کہ جب پورے جسم میں سے کوئی ایک عضو کٹ جائے تو اسکو مکمل جسم نہیں کہلاتے، بلکہ وہ کانا، گونگا، لولا یا لنگڑا جسم کہلاتا ہے۔ تو پھر اگر یہی قاعدہ و اصول عقیدہ تثلیث پہ اپلائی کریں اور ان تین میں سے ایک عیسیٰؑ صلیب چڑھ گئے تو پھر باقی تثلیث میں سے جو 2 رہ جاتے ہیں وہ کیا ہوئے؟ کیا اس صورت میں عقیدہ تثلیث ادھ ادھورا، لولا لنگڑآ یا کانا، گونگا نہیں ہوگا؟ تو جو عقیدہ فی نفسہ خود میں اتنی بنیادی کمیاں اور خامیاں لے کے چل رہا ہو، جو خود اپنی کمی کو پورا نہیں کر سکتا تو وہ دوسروں کی کیا رہنمائی یا داد رسی یا زخموں کی مرہم پٹی کر پائے گا؟

چلیں ایک اور عقلی قضیہ سامنے رکھتے ہیں۔ عقیدہ تثلیث کو سامنے رکھتے ہوئے، اللہ، عیسیٰ ابن اللہ (معاذاللہ) اور القدس تین نہیں مگر ایک ہیں۔ تو پھر عیسیٰؑ کی پیدائش معجزاتی پیدائش ہے جو بغیر مرد کی مداخلت کی صاف ستھری اور کنواری نیک صالحہ عورت عزت مآب مریم علیھما السلام کی کوکھ سے ہوئی۔ تو پھر اللہ اور القدس کہاں سے پیدا ہوئے؟ کیونکہ تینوں ایک ہیں تو کیا سب ایک ہی کوکھ سے بغیر مرد کے مداخلت سے (معاذاللہ) پیدا ہوئے؟ اور پھر اتنے اہم عقیدہ تثلیث میں اللہ کے بیٹے عیسیٰ ابن اللہ جس عورت کی کوکھ پیدا ہوئے تھے اس کی اہمیت کہاں گئی؟ کیوں وہ عقیدہ تثلیث میں شامل نہیں؟ جہاں پہ مرد کی مداخلت کی جگہ ہولی سپرٹ یعنی القدس کو ملی ہوئی ہے تو ہولی سپرٹ تو کہیں جاکر سمویا ہوگا اور پھر جا کر کسی عورت کی کوکھ سے عیسیٰ ابن اللہ (معاذاللہ) پیدا ہوئے تو اس بیٹے کی ماں کو اتنے اہم عقیدے میں شامل کیوں نہیں کیا جا رہا؟

ایسے میں عقیدہ تثلیث کی اصلیت کیا رہ جاتی ہے اور اسکی منطق و لاجک کیا بنتی ہے؟

یہاں پہ ایک اور بنیادی اور اہم تصور سامنے رکھتا چلوں؟ اسلام کے بغیر باقی ساری مذاہب اور دنیا میں بچے کہ پہچان اس کی ماں کے نام سے کی جاتی ہے جب اسلام اور مسلم دنیا میں بچے کی پہچان باپ کے نام سے ہوتی ہے۔ کبھی سوچا ہے کہ کیوں؟ کیوں کہ اسلام کے بغیر باقی مذاہب اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ عورت جدھر چاہے جب چاہے جس کے ساتھ چاہے رہ سکتی ہے اور بچے بھی جہاں سے بھی پیدا ہوئے اسکی پہچان ماں سے ہوگی کیونکہ باپ تو بدلتے رہتے ہیں مگر ماں ایک رہتی ہے اور اسی لیے جدید دور کے بائبل میں مریم علیھما السلام کو نازیبا الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے اور اس وجہ سے عقیدہ تثلیث میں مریم علیھما السلام کی کوئی جگہ نہیں، عقیدہ تثلیث ہی کیا بلکہ پورے عیسائیت میں مریم علیھما السلام کی کوئی اہمیت نہیں۔ اس کی تفصیل اسلام والے سکیشن میں تفصیل سے ذکر کرونگا۔ یہی وہ ناسور ہے جس نے مغربی دنیا میں فیملی سسٹم کو دیمک کی طرح چاٹ دیا اور یہ معاشرے باہر سے اس دیمک زدہ چوکھٹ اور لکڑی کی طرح مکمل نظر آرہی ہیں مگر ہاتھ لگانے پہ یہ دھڑام سے زمین پہ ریزہ ریزہ ہوکر جانے والی ہیں۔

عقیدہ تثلیث کو اور عام زبان اور معمولاتی زندگی سے جوڑتے ہیں۔ مانتے ہیں کہ تین جڑواں بھائی ہیں، ایک ہی باپ اور ایک ہی ماں کی کوکھ سے پیدا ہوئے ہیں۔ تو عقیدہ تثلیث کو مانتے ہوئے کیا میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ ہیں تو تین مگر ایک ہیں کیونکہ ایک ہی ماں باپ کے بیٹے ہیں؟ اور اگر ہاں عقیدہ تثلیث کی رو سے یہ تین نہیں ایک ہیں تو پھر ایک کو جو سزا ہوگی وہ تینوں کو ہوگی کیونکہ وہ تین نہیں ایک ہیں۔ تو کیا یہ بات کسی بھی زاویے سے عقل کے موافق درست بیٹھتی ہے؟ کہ گناہ اور جرم ایک کرے اور پھانسی ایک کو ملے اور باقی دو کو نہیں، کیوں؟ اگر یہ بات عقلی پیرائے سے درست نہیں بیٹھ رہی تو پھر سوچیں ذرا! جب عیسیٰ ابن اللہ (معاذاللہ) ہمارے ہی گناہوں کی کفارے کے لیے صلیب چڑھ گئے تو پھر باقی دو باپ اور القدس کیوں صلیب پہ نہیں چڑھے؟ کیا یہ تینوں ایک نہیں؟

چلو جذباتی طور پہ یہ مان بھی لوں کہ عقیدہ تثلیث درست ہے اور عیسیٰؑ (معاذاللہ) اللہ کے بیٹے ہیں تو، ایک باپ اپنی اولاد کے لیے ایک بہترین ہیرو، ایک رول ماڈل ہوتا ہے اور وہ اپنے باپ کو دنیا کا طاقتور انسان سمجھتا ہے اور یہ فطرت رب کائنات نے ہر ذی روح میں رکھی ہوئی ہے حتی کہ جانور بھی اپنے بچے پہ اپنی جان نچاور کرتے ہیں مگر اس پہ آنچ آنے نہیں دیتے۔ تو پھر (معاذاللہ) اللہ کیسا باپ ہے جو اپنے بیٹے کی حفاظت نہیں کرسکا اور ان کو صلیب پہ چڑھنے سے نہ بچا سکا؟ تو ایسے کمزور خدا کا میں کیا کروں پھر؟

جاری ہے۔۔

Check Also

Likhari

By Muhammad Umair Haidry