Sufiya Ki Chiryan
صوفیہ کی چڑیاں
کتابوں کی دکان میں میں اپنی ایک مطلوبہ کتاب ڈھونڈ رہا تھا کہ اوپر کی منزل کی سیڑھیوں سے اترتے ہوئی ایک خاتون پر میری نظر پڑھ گئی۔ نہایت واضع دار کاٹن کا ہلکا گلابی سوٹ، بڑی سے کاٹن کی چادر سر اور سینے کو چھپائے ہوئے متناسب و ستواں جسم۔ بالوں کی چند لٹیں اس دوپٹے سے چھلک کر چہرے سے الجھ رہی تھیں۔ ان الجھتی زلفوں کے درمیاں چہرہ کچھ شناسا سا لگا۔۔
کچھ دیر کو دل زور سے دھڑکا مگر پھر یہ سوچ کر خیال کو جھٹک دیا کہ یہ کوئی 30 یا 35 سالہ خاتون ہے جبکہ جس کے خیال نے میرے دل کی ڈھڑکن بڑھائی وہ تو ہماری ہمجولی تھی۔ اب تو پوتوں نواسوں والی ہو گی۔ اس خاتون کی نظر نے بھی میرا جائزہ لیا۔۔ میں پھر کتابوں کی تلاش میں مگن ہو گیا۔
ایکسکیوزمی، آپ سلیم ہی ہیں نا! اچانک مجھے پیچھے سے ایک مانوس سی آواز نے چونکا دیا۔۔
میں مڑا تو وہی خاتون مجھ سے مخاطب تھیں۔ میں نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے حیرانگی سے کہا۔۔ صوفیہ۔۔ یہ تم ہو۔۔!
وہ مسکرائی جی جناب۔۔ یہ صوفیہ ہی ہے۔۔
اوہ مائی گاڈ۔۔ جب تم سیڑھیوں سے اتر رہی تھیں تو ایک لمحے کو مجھے لگا کہ تم ہو۔۔ لیکن پھر یہ سوچ کر خیال جھٹک دیا کہ تم کہیں دور پوتوں نواسوں میں کھپ رہی ہو گی اور یہ تو کوئی نوجوان سی۔۔ میں نے دل کی بات چھپاتے ہوئے کہا۔۔
اس نے قہقہہ لگایا۔۔ وہ آج بھی بہت خوبصورت اور دل سے ہنستی ہے۔۔ میں اس کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا۔۔ بہت سال پہلے بھی میں صرف اس کی ہنسی کو ہی سنا کرتا تھا۔۔ یوں لگتا جیسے سب کچھ اردگرد زندہ ہو جاتا اور اس کو داد دیتا۔
بائے دا وئے۔۔ زمانے نے تم پر اپنے نقوش نہیں چھوڑے تم ویسی کی ویسی ہی ہو۔۔ وہ بولی۔۔ چھوڑو ان باتوں کو یہاں اسلام آباد کیسے آئے۔۔ کیا کرتے ہو۔۔
میں! میں خیالوں کے پردے کے پیچھے سے جھانکتے ہوئے بولا۔۔ میں! اب تو کچھ نہیں کرتا یہاں کنسلٹنسی کے لئے آیا تھا۔ ایک پراجیکٹ شروع کرنے والا ہوں۔ بس رئیل اسٹیٹ میں انوسٹ کیا ہے۔ اور صرف پڑھتا اور لکھتا ہوں۔۔ تم کیا کر رہی ہو۔۔
وہ بولی۔۔ میں ایک ملٹی نیشنل کی ریجنل ہیڈ ہوں۔ اسی لئے اب اسلام آباد میں مستقل رہائش رکھ لی ہے۔ اچھا یہ بتاو کب تک ہو اسلام آباد میں۔۔
میں دو دن ہوں یہاں۔۔ میں نے جواب دیا۔۔
تو کل ایسا کرتے ہیں شام کی چائے ساتھ پیتے ہیں۔ ابھی مجھے ایک میٹنگ میں جانا ہے۔۔ ٹھیک؟
میں نے اثبات میں سر ہلایا۔۔ ٹھیک ہے لیکن کہاں؟
وہ مسکرائی اوہ سوری۔۔ سوری۔۔ اپنا نمبر دو۔۔ نمبر سیف کرتے ہوئے بولی۔ اپنے گھر کی لوکیشن واٹس اپ کر دوں گی۔۔ آنا ضرور۔۔
میں مسکرایا، ضرور آؤں گا۔
جاتے ہوئے مڑ کر بولی۔۔ انتظار مت کرانا۔۔ میری شام کے لمحے بہت قیمتی ہوتے ہیں۔۔ مدتوں بعد ان لمحوں میں تمہیں شامل کرنا چاہتی ہوں۔۔ آنا کافی پلاوں گی۔۔ پھر ہنسی اور بولی تمہاری عادت ہے انتظار کراتے ہو۔۔ اور پھر بھول بھی جاتے ہو۔۔
میں کھسیانی سے ہنسی کے ساتھ اردگرد دیکھنے لگا کیونکہ چند لوگ ہماری طرف متوجہ ہو رہے تھے۔۔ دو نوجوان بچیاں زیر لب مسکرا پڑیں۔۔ اور میں کتابوں کی طرف دوبارہ متوجہ ہو گیا۔
ہوٹل تک تمام راستے ماضی کی یادوں، باتوں، مسکراہٹوں اور غصے میں کھویا رہا۔۔
اپنے کمرے میں آگیا۔۔ مگر دل اداس اور بے چین ہو گیا۔ واقعی میں نے ہی اسے کہا تھا۔۔ میرا انتظار کرنا۔۔ اور پھر میں ہی نہیں پلٹ سکا۔۔ باہر تعلیم حاصل کرتے میں اکیلے پن کا شکار ہوتا گیا اور پھر"موگرا" میری زندگی میں آئی۔۔ اور پھر بس اسی کا ہو کر رہ گیا۔ وہ بالکل موگرہ کے پھولوں جیسی ہے اس کی خوشبو نے میرے آنگن کو اتنا مہکا دیا کہ سب کچھ حتکہ یادیں بھی بھلا دیں۔۔
آج بیس سال بعد اچانک یہ سب کیوں؟ اور کیسے؟ اسی سوچ میں الجھا رہا۔۔ ڈنر کو بھی نہ جاسکا۔۔ بس آنکھ لگ گئی۔۔ صبح جلدی تیار ہوا۔۔ آج نجانے دھونے شیو میں شائد کچھ زیادہ وقت لگا۔۔ حالانکہ ابھی صبح تھی اور مجھے شام کو اس کے پاس جانا تھا۔۔ لیکن شائد اب میں دیر کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔۔ جیسے تیسے دن گزارا اور دوپہر سے ہی ہوٹل میں اس کا انتظار کرنے لگا۔۔ اس نے 4 بجے کے قریب اپنی لوکیشن بھیجی اور ساتھ ہی کہا 6 بجےتک پہنچ جانا۔۔
جگہ کچھ زیادہ دور نہیں تھی تو پیدل ہی چل پڑا۔۔ ایک خوبصورت چھوٹی سی کوٹھی۔۔ جب گھنٹی بجائی تو کام والی خاتون نے دروازہ کھولا۔۔ اور بولی آئیں صاحب بی بی جی اوپر کمرے میں آپ کا انتظار کر رہی ہیں۔ اندر چھوٹا سا لان اور پورچ تھی اوپر ٹیرس۔۔ لیکن جو عجیب بات تھی وہ یہ کہ چھت اور لان چڑیوں اور بھانت بھانت کے پرندوں سے بھرا ہوا تھا۔۔ ان کے دانہ اور پانی کا انتظام تھا۔۔ اسی لئے کھڑکیوں، صحن میں ان کی "بیٹ" غلاظت کے آثار نمایاں تھے۔۔
میں اوپر گیا تو وہ بولی میں معذرت خواہ ہوں کہ نیچے ڈرائنگ روم میں تمہیں نہیں بٹھایا۔۔ دراصل یہ وقت میرا میرے کمرے میں باہر یہ نظارہ دیکھنے میں گزرتا ہے تو سوچا تمہارے ساتھ دیکھوں۔۔ اچھا لگے گا۔۔ مدت ہوئی ہے کسی اپنے کے ساتھ یہ لمحے شئیر کئے۔۔
میں نے اس کے کمرے کی بڑی سی شفاف کھڑکی کے باہر نظر دوڑائی تو پورے ٹیرس پر چڑیاں، بلبلیں، فاختائیں دانہ چگتی۔ چہچہاتی نظر آئین۔ اس نے مجھے کھڑکی کے سامنے دو کرسیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔ بیٹھو۔۔ جیسے ہی ہم کھڑکیوں کے قریب ہوئے۔ سب پرندے ایکدم سے آڑے اور ان کے پروں کی آواز نے ایک عجیب سا ارتعاش پیدا کر دیا۔
یہ تو چلے گئے!۔۔ میں نے اس کی طرف دیکھا۔۔ وہ کالے ململ کے کرتے میں اب بھی بہت حسین دکھ رہی تھی۔
دوبارہ آجائیں گے۔۔ بیٹھو۔۔ اور تھوڑا انتظار کرو۔۔ پھر وہ اپنی نوکرانی کی طرف مڑی اور بولی۔۔ اماں۔۔ اچھی سے کافی بنا لا۔۔
بہت سال ہو گئے نا۔۔ میں نے گفتگو شروع کی۔۔
ہممم۔۔ وہ بولی
کتنے سال؟
یاد نہیں چھوڑو۔۔ تم سناو کیسی گزر رہی ہے۔۔ بچے ہیں وہ مسکراتے ہوئے بولی۔۔
ہمم۔۔ دو بیٹے اور ایک بیٹی۔۔ سب یونیورسٹی میں پڑھانے رہے ہیں۔
اور تم نے شادی وغیرہ کی یا نہیں۔ میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کی۔۔
اس نے مجھے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔ نہیں شادی کا وقت نہیں ملا۔۔ یا کیرئیر بناتی یا گھر۔۔ تو کیرئیر بنایا۔۔ ہم جیسی لڑکیاں جنہیں زندگی اسکریچ سے شروع کرنی ہو ایک وقت میں ایک عیاشی کر سکتی ہیں۔۔
سسسسا۔۔ شادی کر کر لیتیں تو اچھا تھا۔ میں ہکلایا۔۔
اس نے پھر سے اپنا مخصوص قہقہہ لگایا۔۔ مگر چڑیوں نے اس کی پرواہ نہیں کی اور دانہ دنکتی رہیں۔۔
وہ بولی۔۔ جب تم نے مجھے انتظار کا کہا تھا نا۔۔ تو ایک سال ہاں پورا ایک سال صرف تمہیں سوچتی اور راہ تکتی رہی۔۔ اماں چڑیوں کو دانہ ڈالتی تھیں نا تو چھت پر آکر انہیں دیکھتی رہتی۔ دل بہلتا رہتا تھا۔۔ آنسو بہتے رہتے تھے۔۔ تم کہہ گئے تھے کہ تم خود کانٹیکٹ کرو گے تو بس انتظار کرتی رہی۔۔
اماں بیمار ہو گئیں۔۔ دس پندرہ دن وہ چڑیوں کو دانہ نہ ڈال سکیں۔۔ جو دانہ پڑا تھا چڑیاں کچھ دن تو کھاتی رہیں۔ پھر آہستہ آہستہ ان کی تعداد کم ہونے لگی۔ پھر اکا دکا چڑیا راستہ بھول کر آجاتی وہ بھی ادھر ادھر پھدک کر اڑ جاتی۔۔ پھر کوئی چڑیا نہ آتی۔ میری چھت ویران ہوتی گئی۔ ماں سے پوچھا تو کہنے لگی پگلی! چڑیاں بھی کسی کی سانجھی ہوتی ہیں جب تک دانہ پانی ہے یہ تیرے چھت کی رونق ورنہ انہیں پر دئیے ہی اس لئے کہ اڑ جائیں۔۔ ان کی پریت تو خوراک سے ہے تجھ سے کہاں۔۔
بس۔۔ مجھے بات سمجھ آگئی۔۔ کہ دنیا اور چڑیاں ہم مزاج ہیں۔ جس تک مفاد کا دانہ پانی ہے۔۔ یہ آپ کے چھت کی رونق ہیں۔ ورنہ آپ کے نصیب میں ان کا کچرہ، غلاظت اور خالی برتن۔۔
میں اسے غور سے دیکھنے لگا۔۔ سوچ رہا تھا کیا یہ وہی لاابالی سی صوفیہ ہے یا کوئی صوفی؟
وہ بولی۔۔ میں نےبھی دنیا کے ساتھ ویسی ہی ریاکاری کرلی جیسی چڑیوں سے ہم کرتے ہیں۔۔ چڑیوں کو دانہ جس ہم ثواب کی نیت سے ڈالتے ہیں نا۔۔ یہ بات انہیں بھی معلوم ہے۔ یہ بدلے میں نجاست، کر کے، نئے نئے ڈالے بیج گملوں سے نکال کر کھا جاتی ہیں۔۔ دیواریں۔۔ سیڑھیاں، کھڑکیاں سب گندہ کرتی جاتی ہیں۔۔ کیونکہ یہ جانتی ہیں کہ آپ انہیں کسی کی محبت میں کچھ بھی نہیں کہیں گے۔ اور واقعی ان کی غلاظت اور گند کو آپ اس حاصل ہونے والے ثواب میں نظر انداز کر دیتے ہو۔۔
وہ بولی تمہیں معلوم ہے۔ ایک مرتبہ تم ان پر باہر نکل کر چیخ دو یا اڑا دو یہ دوبارہ نہیں آئیں گی۔۔ تمہیں انہیں کھلانا پلانا ہے تو انہیں سہنا ہوگا۔
بالکل اسی طرح دنیا اور دنیا کےرشتے ہیں۔ جب تک دانہ پانی یعنی مطلب میسر ہے تو آپ کا آنگن چہچہائے گا۔ آباد ہوگا۔ پھر بس۔۔
اس کی آنکھوں سے ایک موٹا سا آنسو اس کے گال پر بہہ نکلا۔۔ اسے اسی معصومیت سے پونچھتے ہوئے بولی۔۔ جانتے ہو۔۔ میں نے یہ چڑیاں خدا واسطے نہیں پالیں۔۔ انہیں دانہ میں ثواب کی نیت سے نہیں دیتی۔۔ جب میرا دنیا سے دل لگنے لگتا ہے نا۔۔ میں دس پندرہ دن ان کا دانہ بند کر دیتی ہوں۔۔ یہ نہیں آتیں۔ مجھے یاد دھانی ہو جاتی ہے کہ دنیا چڑیوں جیسی ہے۔۔ اپنے دانے کی متلاشی۔۔ اور اپنا دانہ لیتے ہوئے بھی آپ کے دامن میں "نجاست" ڈال کر جائے گی۔۔ آپ کے من کی دیواروں کو خراب کر کے جائے گی۔ اپنے چھوٹے سے مفاد کی خاطر آپ کے منصوبوں کے بیج ضائع کر جائے گی۔۔
تب سے میں نے دنیا سے چڑیوں کی طرح محبت شروع کر دی۔۔ جس میں بےلوث انہیں کھلانا ان کی نگہداشت کرنا ہے۔ جو بدلہ یہ چڑیاں میرے گھر کو دیتی ہیں۔۔ اپنے آنگن کی صفائی کو میں نے نوکر رکھ لئے ہیں۔۔ یہ میری گاڑی تک گندی کر جاتی ہیں۔۔ تب مجھے حضرت علی کا قول یاد آتا ہے۔ کہ "جس سے اچھائی کرو اس کے شر سے بچو"۔۔
اب چونکہ میں دنیا کو دنیا بنانے والے کی محبت کی خاطر دانہ ڈالتی ہوں تو اس کے بدلے ان کی غلاظت مجھے تکلیف نہیں دیتی۔۔ میں کسی کی محبت میں کسی سے پیار کرتی ہوں۔۔ اور اس کےبدلے غلاظت تہمت نفرت، حسد کی صفائی کے لئے میں نے دل میں نوکر رکھ لئے ہیں۔۔
مجھے دیکھ کر مسکرائی۔۔ بولی ساری عمر منہ کھول کر مجھے صرف دیکھتے ہی رہنا۔۔ چلو کافی پیو۔۔
میں نے کافی کا گھونٹ بھرا تو اس نے آٹھ کر ٹیبل لمپ جلایا، شام شروع ہو چکی تھی چڑیاں جا چکی تھیں۔۔ اس مدہم روشنی میں اس کا چہرہ چاندنی کی طرح روشن دکھ رہا تھا اس نے کافی کا ایک گھونٹ بھرا اور بھگت کبیر کے اشعار گنگانے شروع کر دئے۔۔
پریتم ایسی پریت نا کریو جیسی کرے کھجور
دھوپ لگے تو سایہ نا ہی بھوک لگے پھل دور
پریت کبیرا! ایسی کریو جیسی کرے کپاس
جیو تو تن کو ڈھانکے مرو، نہ چھوڑے ساتھ
پریت نہ کیجیٔو پنچھی جیسی جَل سوکھے اُڑ جائے
پریت تو کیجیٔو مچھلی جیسی جَل سوکھے مر جائے