Screen Par Kampte Hath Aur Wo Beniaz Rab
سکرین پر کانپتے ہاتھ اور وہ بے نیاز رب

کل ٹی وی کی سکرین پر ایک عجیب منظر دیکھا جس نے روح تک کو لرزا دیا۔ ایک ایسا شخص جس کے ہاتھوں میں رعشہ تھا، جسمانی نقاہت کا یہ عالم کہ مائیک تھامنے کی بھی ڈھنگ سے سکت باقی نہ تھی، لیکن اس زوال پذیر جسم کے اندر چھپی انا کا یہ حال تھا کہ وہ اس قادرِ مطلق، طاقتور اور دائم رہنے والے رب کے خلاف لب کشا تھا جس نے اسے عدم سے وجود بخشا اور بولنے کی ہمت عطا کی۔ یہ منظر دیکھ کر میرا ذہن صدیوں پیچھے مکہ کی تپتی گلیوں میں جا نکلا، جہاں ایک اور صاحبِ ثروت اور الفاظ کا جادوگر اپنی عقل کے زعم میں حق سے ٹکرا رہا تھا۔
سچ تو یہ ہے کہ انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ ہدایت کا تعلق معلومات کی فراوانی یا زبان کی مہارت سے نہیں، بلکہ دل کی عاجزی سے ہے۔ کبھی کبھی انسان کی اپنی ذہانت اور اس کا اونچا سماجی وقار ہی اس کے لیے "حجابِ اکبر" بن جاتا ہے۔ جب علم انا کے حصار میں قید ہو جائے تو وہ سچائی کو پہچاننے کے بجائے اسے جھٹلانے کا ہتھیار بن جاتا ہے۔ تاریخ کے دو مختلف زمانوں کے دو کردار، ساتویں صدی کا قریشی سردار ولید بن مغیرہ اور اکیسویں صدی کا نامور شاعر جاوید اختر، اس فکری المیے کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں۔ ان کے درمیان صدیوں کا فاصلہ سہی، لیکن ان کی سماجی حیثیت، کلام پر دسترس اور انکارِ الہیات میں ایک ایسی مماثلت ہے جو حیران کر دیتی ہے۔
ولید بن مغیرہ اپنے دور کا "الوحید" (بے مثال) کہلاتا تھا۔ وہ مکہ کا وہ متمول سردار تھا جس کی سیاسی بصیرت کا پورا عرب معترف تھا۔ دوسری طرف جاوید اختر صاحب ہیں، جنہیں آج کی ادبی دنیا میں ایک بلند مقام حاصل ہے اور وہ رچرڈ ڈاکنز ایوارڈ پانے والے پہلے بھارتی بن کر اپنے ملحدانہ نظریات کی عالمی سند لیے بیٹھے ہیں۔ ان دونوں میں جو سب سے بڑی قدرِ مشترک ہے، وہ "الفاظ کا جادو" ہے۔ ولید فصاحت و بلاغت کا ماہر تھا۔ اس نے قرآن سنا تو تڑپ اٹھا، اعتراف بھی کیا کہ "اس کلام میں حلاوت ہے"، لیکن جب سرداری آڑے آئی تو اسی زبان سے اسے "جادو" کہہ دیا۔ جاوید اختر صاحب بھی الفاظ کے جادوگر ہیں، مگر وہ اس مہارت کو خدا کے وجود کو "غیر منطقی" ثابت کرنے کے لیے ضائع کر رہے ہیں۔ دونوں نے اپنی ذہانت کو حق کے سامنے جھکنے کے بجائے حق کی تضحیک کا ذریعہ بنایا۔
ولید بن مغیرہ کے اس غرور پر قرآن کا ردِعمل کتنا سخت تھا۔ جب اس نے کلامِ الٰہی کو "انسانی کلام" کہا، تو اللہ نے اس کی اس "اونچی ناک" کو نشانہ بنایا جس پر اسے ناز تھا۔ سورہ القلم میں اسے "زَنِيُمٍ" (بد اصل) کہا گیا اور سب سے سخت وعید اس کی ناک کے بارے میں تھی:
"عنقریب ہم اس کی سونڈ (ناک) پر داغ لگائیں گے"۔ (سورہ القلم: 16)
یہاں اللہ نے ولید کی ناک کے لیے "خرطوم" (ہاتھی کی سونڈ) کا لفظ استعمال کرکے اس کے تکبر کو خاک میں ملا دیا۔ آج جب ہم جدید "دانشوروں" کو دیکھتے ہیں جو اپنے ایوارڈز کے زعم میں رب کا تمسخر اڑاتے ہیں، تو ولید کا انجام ایک عبرت ناک سبق نظر آتا ہے۔
ان دونوں کے ہاں اولاد کا تضاد بھی کتنا عجیب ہے۔ ولید بن مغیرہ کا بیٹا حضرت خالد بن ولید جیسا عظیم جرنیل بنا، جس نے اپنے باپ کے کفر کے برعکس اسلام کے لیے اپنی تلوار وقف کر دی۔ دوسری طرف جاوید اختر صاحب نے اپنی اولاد کی پرورش شعوری طور پر ایسے ماحول میں کی جہاں مذہب کا گزر نہیں۔ یہ تضاد بتاتا ہے کہ ہدایت اللہ کا عطیہ ہے، موروثی جائیداد نہیں۔
قرآن صاف کہتا ہے کہ اختلاف علم کی کمی سے نہیں بلکہ ضد کی وجہ سے ہوتا ہے: "اور انہوں نے اختلاف نہیں کیا مگر اس کے بعد کہ ان کے پاس علم آ چکا تھا، محض ایک دوسرے پر زیادتی کی وجہ سے"۔ (سورہ الشوریٰ: 14)
کامیابی ان کے لیے ہے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، جیسا کہ ان آیات میں ہے:
"وہ لوگ جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔۔ " (سورہ البقرہ: 3)
"بے شک جو لوگ اپنے رب سے بن دیکھے ڈرتے ہیں، ان کے لیے بڑا اجر ہے"۔ (سورہ الملک: 12)
"جو رحمان سے بن دیکھے ڈرا اور رجوع کرنے والا دل لایا"۔ (سورہ ق: 33)
ولید 95 سال کی عمر میں اسی انکار پر مرا۔ جاوید اختر صاحب 80 سال کے ہو چکے ہیں۔ ابھی بھی وقت ہے کہ وہ پلٹ آئیں۔ تاریخ میں امیر حسن علائی سجزی (ابو علی سنجری) کی مثال موجود ہے، جنہوں نے 80 سال تک کی عمر شراب نوشی اور لعب و لہو میں گزاری تھی اور ان کی بھی علمیت کا چرچا اس دور کے علمی حلقوں میں عام تھا، بالآخر انہیں 83 سال کی عمر میں معرفت ملی اور انہوں نے "فوائد الفؤاد" (حضرت نظام الدین اولیاء کے اقوال) جیسی عظیم کتاب مرتب کی۔ وہ 89 سال کی عمر میں عشقِ الٰہی سے لبریز ہو کر رخصت ہوئے۔
اگر جاوید اختر صاحب بھی اپنی صلاحیتیں حق کے لیے وقف کر دیں، تو کیا بعید کہ اللہ انہیں بھی دین کی خدمت کے لیے چن لے۔ علم جب تک سجدہ نہ سکھائے، وہ صرف ایک بوجھ ہے، لیکن جب عاجزی مل جائے تو یہی علم ابدی زندگی کا راستہ بن جاتا ہے۔
اُنہیں جانا، اُنہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام
للہِ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا
آج لے اُن کی پناہ، آج مدد مانگ ان سے
پھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا

