Roza, Sabr Aur Ajar
روزہ، صبر اور اجر
یہ شاید ایام نوجوانی کا واقعہ ہے۔۔ ان دنوں میں میری ملازمت ایک فارما سیوٹیکل(دوا ساز) کمپنی میں بطور میڈیکل ریپ تھی۔۔ اس سلسلے میں صوبے بھر میں دور دراز سفر رہتا تھا۔۔ یہ انتہائی بے فکری اور آوارگی کے دن تھے۔۔ موجود مستی اور شدید ورزش دو شوق تھے۔۔ یا کبھی کبھار VCR پر دوستوں کے ہمراہ فلم اور بہت زیادہ تو سینما میں فلم دیکھنا۔۔
ان دنوں ماہ رمضان اچھے خاصے گرم دنوں میں ہوا کرتا تھا۔۔ تو دوپہر میں روزہ فلم دیکھ کر گزرتا۔۔ والدہ خوب عزت افزائی کرتیں۔۔ ان سے منہ ماری بھی ہو جاتی۔۔ کہ امی ایک تو روزہ ہے اوپر سے آپ کا شور ساری فلم کا مزہ خراب کر دیا۔۔ آخر ہم دوستوں نے مل کر ایک دوست کی بیٹھک مقرر کر لی اور دوپہر کو کام کر کے وہاں اجاتے کچھ کھاتے پیتے جن کا روزہ ہوتا وہ فلم وغیرہ ہم سب مل کر خوب گپ شپ پھر عصر کی نماز پر گھر اور افطار کے بعد ہم دوست محلے کے تھڑے پر سحری تک بیٹھتے۔۔ چونکہ سب دوست اسپورٹس مین تھے اور روزے میں زیادہ بات برداشت نہ ہوتی تو اس لئے تقریبا رمضان کے پورے مہینے میں لوگوں سے جھگڑے ہوتے اور خوب مار کٹائی ہوتی۔۔
انہی دنوں مجھے کمپنی کے کام سے شہر سے باہر جانا پڑا۔۔ سحری کھا کر پہلی بس پکڑی اور 10 بجے تک مطلوبہ شہر پہنچ گیا۔۔ سارا دن ڈاکٹروں سے ملاقات اور میڈیکل استورز سے میٹنگز اور آرڈرز لئے اور عصر کی نماز اڈے کے قریب مسجد میں پڑھ کر بس میں واپسی کے لئے روانہ ہو گیا۔۔ شدید پیاس اور ناہموار راستے نے دماغ خراب کیا ہوا تھا۔۔
ابھی ہم کوئٹہ سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر تھے کہ روزہ افطار ہو گیا۔۔ منی بس والے نے ایک ایک کھجور ہم 12 مسافروں میں بانٹ دی تاکہ روزہ کھول لیں۔۔ اور ساتھ ہی بتایا کہ آگے ایک چھوٹی سی مسجد آئے کی نماز وہاں پڑھ کر کوئٹہ جلدی پہنچنے کی کوشش کریں گے۔۔ جس پر ہم سب مسافر مان گئے۔۔
ابھی ہم نماز پڑھ کر ویگن میں واپس سوار ہی ہوئے تھے کہ میرے پیچھے کی سیٹ پر ایک مسافر نے کوئی سستی سی سگریٹ لگا لی۔ شائد تمام دن کا ترسا ہوا تھا تو خوب گہرے کش لئے جس کی وجہ سے اس کا دھواں اور بدبو سیدھا مجھ پر آرہے تھے۔۔ کیونکہ ویگن میں مسافر بہت قریب قریب بیٹھے ہوتے ہیں۔۔ چونکہ ایک سخت دن کے بعد میری طبعیت پہلے ہی سے مائل بر فساد تھی۔۔
میں نے مڑ کر اسے کہا کہ "اوہ بھائی۔۔ بند کرو اپنا سگریٹ ایک تو پہلے سارے دن روزے نے دماغ خراب رکھا ہے۔ ابھی تم دماغ کو زیادہ خراب مت کرو۔۔ اس نے منہ ماری کی کوشش کی تو چند دوسرے مسافروں نے اس کو ڈانٹا تو اس نے سگریٹ باہر پھینک دی۔۔ ویگن کا ماحول کشیدہ ہو گیا۔۔ گہری خاموشی۔۔
چند لمحوں بعد میرے بالکل پیچھے اور اس سگریٹی کے ساتھ بیٹھے بابے نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا بیٹا۔۔ او بیٹا! ایک بات کہوں تمہیں برا تو نہیں لگے گا۔۔میں نے مڑ کر بابے کو دیکھا۔۔ تو وہ ایک پٹھان واضح دار بڈھا تھا۔۔ شائد اس وقت اس کی عمر اتنی ہو گی جتنی اب میری ہے۔۔
میں نے کہا حکم بابا۔۔ بولو۔۔ اس نے کہا بیٹا! میرا دل آج بہت دکھا ہے۔۔ اور یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھ سے آنسو چھلک پڑا۔۔ میں گھبرا گیا اور پوچھا! خیر ہے بابا کیا ہوا۔۔ وہ بولا بیٹا! ایسا مت کہا کرو۔۔ کہ ایک تو روزے نے دماغ خراب کیا ہوا ہے اوپر سے تم تنگ بھی کرتے ہو۔۔ اور اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔۔
میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا بابا یہ تو عام بات ہے۔۔ یہ جملہ تو روزوں میں اکثر سننے کو ملتا ہے۔۔ وہ بولا اسی لئے تو کہہ رہا ہوں۔۔ تم جانتے ہو عربی زبان میں رمضان کا مادہ رَمَضٌ ہے، جس کا معنی سخت گرمی اور تپش ہے۔۔ بچے روایت ہے کہ رمضان میں فرشتے اللہ سے پوچھتے ہیں کہ مالک ہم روزے کا کیا اجر لکھیں۔۔ تو اللہ فرماتے ہیں کہ روزے کا اجر تم لوگ مت لکھو باقی ہر چیز کا اجر 10 گنا سے بڑھا کر سو گنا لکھو مگر روزے میرے لئے چھوڑ دو کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: انسان کا ہر عمل اس کے لیے ہے، سوائے روزے کے کہ وہ صرف میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا یہ میرے اور بندے کے درمیان ایک راز ہے۔ وہ میرے لئے اپنی خواہشیں چھوڑتا ہے۔۔ میں جانوں اور میرا بندہ اس احسان کا بدلہ مجھ پر ہے۔۔
بیٹا! جب کوئی لوگوں پر روزہ رکھ کر احسان جتاتا ہو گا۔ کہ ایک تو روزے نے دماغ خراب کیا ہوا ہے؟ تو سوچو اللہ کریم کو کتنا دکھ ہوتا ہو گا۔۔ اور فرشتوں کے سامنے اسے کیسا محسوس ہوتا ہوگا۔۔ انسان کا یہی واحد عمل ہے جو ریاکاری سے پاک اللہ کے لئے خالص ہے۔۔ اور جب وہ لوگوں پر اس عمل کا رعب ڈالتا ہے۔۔ تو جس چیز کو اللہ اپنے اوپر احسان لے رہا ہے۔۔ اسے کیسا محسوس ہوتا ہو گا۔۔ اور بابا پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔۔
مجھے شدید شرمندگی کا احساس ہونے لگا۔۔ اردگرد بندوں نے بابے کا ہاتھ پکڑ کر اسے دلاسہ دیا۔۔ کہ بابا نوجوان لڑکا ہے خیر ہے۔۔ آئندہ نہی کرے گا۔۔ وہ بولا مجھے رونا اس لئے آیا ہے کہ اگر فرشتوں نے سوالیہ نظروں سے اللہ کے عرش کے طرف صرف دیکھ لیا کہ آپ اس پر ناز کر رہے ہیں۔۔ تو سوچو نا یار۔۔ کتنی سخت شرمندگی ہو گی ہم مسلمانوں کی۔۔ اپنے رب کے سامنے۔۔ اسکی عزت میں تو کوئی کمی نہیں آتی۔۔ بے عزت تو ہم ہوجاتے ہیں نا۔۔
میں نے بابے کا ہاتھ پکڑ کر ان سے وعدہ کیا کہ اگر کوئی مجھے آگ بھی لگا دے۔۔ میں پوری کوشش کروں گا کہ یہ نہ کہوں کہ "یار ایک تو روزے نے دماغ خراب کیا ہوا ہے اوپر سے تم۔۔ "
کنڈیکٹر نے نسوار کی چٹکی رکھتے ہوئے کہا چلو یار بابا انشاءاللہ ہم لوگ ابھی نہی بولیں گے۔۔ تم کو لتے "لتا منگیشکر" کا گانا سناتا ہوں۔۔ استاذ گانا لگاو۔۔ ڈرائیور نے کیسٹ کو ٹیپ میں ڈالا۔۔
تو لتا کی آواز گونجی۔۔
دیپک کی چمک میں آگ بھی ہے
دنیا نے کہا پروانوں سے
پروانے یہ سن کر کہنے لگے
دیوانے تو جل کر دیکھیں گے
تیری یاد میں جل کر دیکھ لیا
اب آگ میں جل کر دیکھیں گے