Tuesday, 14 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Saleem Zaman/
  4. Robot Hamare Naye Hukumran, Sigmund Freud Ki Maa Aur Imam Bibi (2)

Robot Hamare Naye Hukumran, Sigmund Freud Ki Maa Aur Imam Bibi (2)

ربورٹ ہمارے نئے حکمراں، سگمنڈ فرائیڈ کی ماں اور امام بی بی(2)

دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ کے ساتھ ہی جو انڈسٹریل انقلاب آیا، اس نے انسانوں کو تجربہ گاہ بنایا اور اس میں مختلف جانوروں کی عادات کا نفوذ کیا۔ اس کے لئے اس نے میڈیا کا سہارا لیا۔ جانور کیونکہ صرف اپنی ہی بقا کا قائل ہے، بلکہ اس کی سرشت میں صرف اپنی خیر کا جذبہ ہے۔ لہٰذا اس عمل نے خاندان توڑنے میں مدد دی۔ پھر جنسیات میں جانوروں کے طور طریقوں کو رواج دیا گیا۔ جس کا مقصد صرف حصولِ تسکین تھا۔ نہ کہ حصول ِاولاد۔ یہ انسان کے پست ہونے کی ابتداء تھی۔

جب 80 کی دہائی میں آرٹیفشل انٹیلی جنس نے مارکیٹ میں قدم رکھا تو، تب تک یہ انسان جانور کی خوخصلت اختیار کر چکا تھا۔ اکیلے رہنا، بے فکری کی زندگی اور عیاشی اس کا مقصد بنتا جا رہا تھا۔ اس جانور کو تنہا کرنے کے بعد اس کا ساتھی آرٹیفشل انٹیلی جنس کو بنایا گیا تاکہ، اس کی تنہائی بھی ختم ہو جائے اور یہ ایک چلتا پھِرتا، سانس لیتا روبورٹ بن جائے۔ اس اعصابی مریض کو دنیا میں زومبی کے نام سے متعارف کرایا گیا۔ جنہیں نہیں معلوم وہ کہاں جا رہے ہیں۔ کیا کھا رہے ہیں۔ مرے ہوئے ہیں یا جی رہے ہیں؟

آج 2022 کے پہلے دن میں اگر مڑ کر دیکھوں، تو طالبان کی آمد پر بدحواس افغانیوں کا چلتے جہاز پر چمٹنا، کثرت سے جنسی درندگی، اجتماعی آبروریزی اور سیکڑوں لوگوں کا ایک نہتے غیر مسلم کو مذہب کے نام پر مارنا، میانمار میں بدھ امن پسندوں کا زندہ مسلمانوں کی کھال اتارنے کی ویڈیو بنانا، یہ کسی طرح بھی انسانی جذبات نہیں ہیں۔ یہ ایسے زومبی ہیں جو آرٹیفشل انٹیلی جنس کے سحر میں اس قدر جکڑے گئے ہیں، کہ ان کے نروس سسٹم نے کام چھوڑ دیا ہے، اور انہیں آپ جب بھی اس میٹھی نیند سے جگائیں گے، یہ جذباتی ہو جائیں گے، اور ان کی منزل ِمقصود خودکشی یا برانگیختگی ہو گی۔
حصرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ، رسول اللہﷺنے فرمایا: آدمی اسی کے ساتھ ہو گا، جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ صحابہ کرام نے اس حدیث کو سننے کے بعد عید کے دن کی طرح خوشی منائی تھی کہ، وہ آقا کریمﷺ سے ہی محبت کرتے تھے۔ پہلے جب ہم یہ حدیث پڑھتے تھے، تو صرف بُرے لوگوں یا اچھے لوگوں کی صُحبت اور ساتھ سمجھ آیا کرتا تھا۔ لیکن جب نبی کریمﷺکے معراج کے سفر اور مشاہدہ جہنم کا حال آنکھوں سے گزرا تو معلوم ہوا، قیامت کے دن جسموں کی ہیت بھی تبدیل کر دی جائے گی۔ اور جہنم میں کئی جانوروں کی صورت میں انسان کو رکھا جائے گا۔ تب احساس ہوا کہ آج ہم جس جانور کی خصلت سے محبت کر رہے ہیں، قیامت کے دن اسی کے روپ میں اٹھائے جائیں گے۔

اب آرٹیفشل انٹیلی جنس ہمارے اندر کون سا جانور پروان چڑھا رہی ہے، اس کا احتساب شائد کوئی صاحب ِنظر کر سکے، ورنہ ہم تو سوائے اپنے، باقی سبھی کو خطا وار جانتے ہیں۔ اس مضمون کی ابتداءمیں مجھ سے جو یوال نوح ہراری کی شان میں گستاخی ہوئی، مجھے اس پر کوئی شرمندگی نہیں ہے۔ بدمعاشوں کا اصول ہے، جب انہوں نے کہیں ہیبت قائم کرنی ہو تو، خود کو پہلے گالی دیتے ہیں یا اپنے ساتھ کسی ملازم کو ٹُھڈے لگاتے ہیں، تاکہ ان کی بات میں اثر پیدا ہو۔ مثلاََجگا بدمعاش بولا، اگر میں نے اس محلے کو آگ نہ لگائی، تو میں حلال کا نہیں۔ اپنے نوکر کرمو کو تھپڑ مار کر کہا، جا اوئے فلاں کے بچے۔ اس کو دو تھپڑ مار۔

اسی طرح یوال نوح ہراری اپنی یہودیت کو آڑے ہاتھوں لیتا ہے۔ تاکہ لِبرلز کو باور کراۓ، کہ وہ انتہائی لبرل ہے۔ اب اس کے پاس کسی بھی مذہب کو آڑے ہاتھوں لینے کا لائسینس مل گیا ہے۔ اسی طرح سے وہ ہم جنس پرست ہے۔ چونکہ یہودیت میں بھی قومِ لوط کا قصہ موجود ہے۔ لہٰذا یہودیت اسے اس کی اجازت نہیں دیتا، تو وہ لادین ہو گیا ہے۔ اپنی کتاب میں یہودیت کو سب مذاہب کی ماں قرار بھی دیتا ہے اور اسے گمنام بھی کر دیتا ہے۔

اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے وہ مشہورِ زمانہ مغربی فلسفی سگمنڈ فرائیڈ کی ماں کی مثال دیتا ہے۔ کہ جتنا مشہور سگمنڈ فرائیڈ ہے۔ اس کی مشہوری میں اس کی ماں کا صرف اتنا ہاتھ ہے، کہ اس نے اسےپیدا کیا۔ اسی طرح جیسے یہودیت نے اسلام اور عیسائیت کو جنم دیا۔ اس سوچ کے آدمی کی کوئی بھی غیرت مند مسیحی یا مسلمان، جو وحی پر یقین رکھتا ہے مذمت کرے گا۔ لیکن کیا ہو سکتا ہے۔ بقول شاعر

"کند ہم جنس باہم پرواز، کبوتر باکبوتر باز با باز"

یعنی ہم جنس ہم جنس کے ساتھ رہتا ہے۔ اور انسان اپنی کمپنی سے ہی پہچانا جاتا ہے۔ سگمنڈ فرائیڈ بھی یووال نوح ہراری کی طرح مصنف، فلسفی سائیکو لوجسٹ اور نجانے کیا کیا تھا۔ اس کے نظریات، علم ِنفسیات، مغرب کے ادب و فلسفہ اور سائیکالوجی کا حصہ ہیں۔ اور ہمارے ملک میں بھی ایک بڑا طبقہ اس کا دِلدادہ ہے۔ مگر کردار میں وہ بھی ہم جنس پرستی کا دلدادہ تھا، یا اس پر یہ اِلزام ہے۔ البتہ خواتین کا استحصال اس کا مشغلہ تھا۔

اگر سگمنڈ فرائیڈ کی ماں نے اسے بھی اپنی مذہبی اخلاقیات کا درس اسی طرح دیا ہوتا، جس طرح "امام بی بی"نے گُھٹی میں اِقبال کو قران اور محبت ِنبی کریمﷺ دی کہ اقبال جہاں بھی گیا، لوٹا تو واپس اپنی اقدار پر۔ اقبال خود فرماتے ہیں کہ یہ "سر" کا خِطاب مجھے میرے کام نے نہیں دیا، بلکہ مجھے یاد ہے کہ، میں نے ایک کروڑ مرتبہ درودِ پاک پڑھا جس کی عزت مجھے دُنیا دے رہی ہے۔ یوال نوح ہراری اپنی مشہورِ زمانہ کتاب "21ویں صدی کے 21 اسباق" میں اپنے قاری کو بالآخر مراقبہ، ذات پر غور فکر اور ایک لادین مذہبیت کی طرف راغب کرتا ہے، اور بتاتا ہے کہ جدت کو سمجھنے کے لئے اپنے اندر کی دنیا کو اُجاگر کرنا ہو گا۔

جس کے لئے دھیان، گیان اور مراقبہ بہت ضروری ہے۔ اگر یہی کچھ کرنا ہے، تو پھر مذہب سے پھرنے کا کیا مطلب۔ اگر مشینی قوتوں سے لڑنے میں من کی دنیا ایک لازمی جز ہے، تو پھر اپنا ٹوٹا پھوٹا ایمان ہی کافی ہے، کیوں نہ اس کی تجدید کی جائے۔ (واضح رہے کہ نوح ہراری نے یہودیت چھوڑ کر Vipassana movementکا حصہ بن چکا ہے)۔ اور ہم جنس پرست ہے۔ مرد ہوتے ہوئے اس نے جس مرد سے شادی کی ہے، وہاں اس نے اپنا اسٹیٹس "بیوی" کے طور پر لکھوایا ہے۔

آج کی دنیا، 2022 کی دنیا میں ہم کسی بھی ہم جنس پرست کے علم سے متاثر ہو کر اسے بیسٹ سیلر بناتے ہیں۔ کسی ٹِک ٹاکر کی کامیابی سے اسے قابلِ تقلید سمجھتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ، اس کی زندگی کِن راہوں سے گزر رہی ہے۔ ایک فلم اسٹار کی محبت میں، ایک گلوکار کی محبت میں ہر حد پھلانگ جاتے ہیں، جبکہ انہیں شائد اندازہ ہی نہ ہو کہ پاکستان کی ایک معمولی گلی میں اس کا ایک چاہنے والا اس پر اس قدر عاشق ہے کہ، اس کے عشق کا چرچا سُن کر اس نے خود کشی کر لی۔ یہ روبوٹس کی فتح ہے یہ آنے والا مشینی دور ہے، جس میں ہم اَن دیکھی زنجیروں میں جکڑے، کسی ایک انسانی خدا بل گیٹس، مارک زگربرگ یا الون مسک، رنبیر کپور، یا دیپیکا کے پیچھے دیوانہ وار دوڑے جا رہے ہوں گے۔

یہ بھول کر کہ، ایک ہستی ایسی آج بھی ہمارا انتظار کرتی ہے۔ ہمیں سنتی ہے، آج بھی اس کا ساتھ مل جائے، تو زمین وآسمان کی علم و بادشاہی ہمارامقدر ہو گی۔ بدکردار کہتے ہیں کہ 2050 انسانوں کے لئے المیہ ہے، اور ہم مشینوں کے غلام ہو جائیں گے۔ ہم ڈر بھی جاتے ہیں اور طرح طرح کے اندیشوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مفلسی اور بے توکلی کے خوف سے خودکشیاں کرتے ہیں۔ اور وہ جنہیں اللہ کی مخلوق صادق اور امین کے نام سے جانتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں، "مجھ پر درود پڑھو، وہ مجھ تک فرشتے تمہارے ماں باپ کے نام کے ساتھ پہنچاتے ہیں "تو ہم شک میں پڑھ جاتے ہیں۔ سوال وجواب میں الجھ جاتے ہیں "۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، جو شخص بھی مجھ پر سلام بھیجتا ہے، تو اللہ تعالیٰ میری روح مجھ میں لوٹا دیتے ہیں، حتٰی کہ میں اسکے سلام کا جواب دیتا ہوں۔

اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا۔

حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، بے شک زمین میں اﷲ تعالیٰ کی جانب سے ایسے ملائکہ مقرر ہیں، جو مجھے میری اُمت کا سلام پہنچاتے ہیں۔

فیصلہ اب آپ نے کرنا ہے کہ، قیامت کے روز آپ نے کس کے ساتھ اُٹھنا ہے۔ آج آپ جس کا طرز ِعمل اختیار کریں گے۔ جس کی شخصیت میں خود کو ڈھالیں گے، اسی کے ساتھ آپ ابدی زندگی گزاریں گے۔ الحمُد للہ، مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ، میں ایک بنیاد پرست مسلمان ہوں اور میرے اسلام کی بنیاد نبی کریمﷺ سے محبت ہے۔

آج لے اُن کی پناہ، آج مدد مانگ ان سے
پھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا

اُف رے منکر یہ بڑھا جوشِ تعصب آخر
بِھیڑ میں ہاتھ سے کم بخت کے ایمان گیا

Check Also

Post Doctorate On Find Your Why (2)

By Muhammad Saqib