Tuesday, 14 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Saleem Zaman/
  4. Robot Hamare Naye Hukumran, Sigmund Freud Ki Maa Aur Imam Bibi (1)

Robot Hamare Naye Hukumran, Sigmund Freud Ki Maa Aur Imam Bibi (1)

ربورٹ ہمارے نئے حکمراں، سگمنڈ فرائیڈ کی ماں اور امام بی بی(1)

مشہور زمانہ، جدت کی حامل اور بیسٹ سیلر کتابیں جنہوں نے کروڑوں ذہنوں کو تبدیل کیا۔ sapiens(انسان کی مختصر تاریخ)، Homo Deus (انسانی خدا)، 21 Lessons for the 21st Century(اکیسیوئیں صدی کے اکیس اسباق)۔

کے بدنام زمانہ، بدطینت، بد مذہب اور بد خصلت مصنف یوال نوح ہراری نے اپنی ہر تحریر میں، مستقبل کے بارے میں الگورِتھم اور ربورٹس کو 2050 تک دنیا کا حکمران باور کرایا ہے۔ مجھے اس کی ذات، اس کی نسل اس کی کرتوت سے لاکھ اختلاف ہو۔ مگر میں اس کی اس بات سے 100 فیصد متفق ہوں کہ "مستقبل میں مشین(ربورٹ) ہم پر حکومت کریں گے"۔ جی بالکل، بات یہاں مکمل ہو گئی اور تحریر مکمل۔ اس سے آگے پڑھنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں۔ لیکن میں نے جو الزام تراشی اور دشنام طرازی مصنف کی ذات پر کی ہے، اس کی توجیہہ پیش کرنا اپنا اخلاقی فرض سمجھتا ہوں۔

اسٹیفن آر کووے امریکہ کے معروف بزنس مین، لکھاری اور موٹیویشنل سیپکر تھے۔ 1932ء میں امریکی ریاست یوٹا، میں پیدا ہونے والے مسٹر کووے ایک اتھلیٹ تھے، لیکن کولہے کی ہڈی میں آنے والے ایک نقص کی وجہ سے انہیں اپنی زندگی کارخ کھیل سے تعلیم کی طرف موڑنا پڑا۔ انہوں نے ہارورڈ سے اپنا ایم بی اے کیا، اور بعد میں مذہبی تعلیم میں پی ایچ ڈی کی۔ اس کے علاوہ انہیں اپنی زندگی میں ڈاکٹریٹ کی10 اعزازی ڈگریاں عطا کی گئیں۔ اپنی مشہورِ زمانہ کتاب، انتہائی پر اثر افراد کی سات عادات میں، کہتے ہیں کہ آج سے 200 سال قبل لکھا جانے والا ادب، کسی بھی بڑی شخصیت کے خدو خال، اس کی شخصیت میں کردار کے نمایاں اوصاف سے تخلیق کیا جاتا تھا۔

لیکن پہلی جنگ عظیم کے بعد چھپنے والا ادب، لوگوں کی ظاہری شخصیت اور کارناموں تک محدود رہا، اور ساٹھ کی دہائی سے صرف اسٹار ڈم رہ گیا۔ یعنی مشہور زمانہ سنگر مائیکل جیکسن، ایک بڑا فنکار ہے۔ ذاتی زندگی میں وہ چاہے کسی بھی اخلاقی یا غیر اخلاقی اقدار کا مالک ہو، فرق نہیں پڑتا۔ اسی طرح الزبتھ ٹیلر ایک مشہور فلم اسٹار تھیں، ذاتی زندگی میں کیا نقائص تھے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آج لیڈی گاگا اخلاقی طور پر کیا ہے؟ اس کی جستجو کسی کو نہیں، لیکن وہ کتنی مشہور ہے۔ اس کی دولت کتنی زیادہ ہے، یہ اکثریت کا محورِ گفتگو ہو سکتا ہے۔ بل گیٹس، مارک زگربرگ، یا ایلون مسک دنیا کے امیر ترین، پر اثر ترین لوگ ہیں، لیکن ان کی اخلاقی اقدار کیا ہیں؟ اس سے کسی کو فرق نہیں پڑتا اور وہ ظاہری اخلاقیات کے پیچھے کیا ایجنڈا لے کر چل رہے ہیں، ہماری بلا سے!

Ralph Waldo Emerson، کہتا ہے کہ۔

"Sow a thought and you reap an action"

"sow an act and you reap a habit"

"sow a habit and you reap a character"

"sow a character and you reap a destiny"

یعنی آپ ایک سوچ پیدا کریں، وہ ایک تحریک پیدا کرے گی۔

آپ ایک حرکت کریں، وہ ایک عادت بن جائے گی۔

آپ کی عادت، آپ کے کردار کا تعارف ہو گی۔

اور آپ کا یہ کردار، آپ کی منزل کا تعین کرے گا۔

یہی وجہ ہے کہ، یوال نوح ہراری اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ، 2050 تک نسل ِنوع انسانی پر روبورٹس کا قبضہ ہو جائے گا۔ آج سے لگ بھگ 2500 سال قبل، ایک غلام پیدا ہوا، جس کا نام ایسوسیپ یاAesop تھا، یہ بعد میں یونانی فلسفی اور کہانی گو مشہور ہوا، آج بھی ہمارے ادب میں بہت سی کہانیاں اس سے منسوب ہیں۔ اس کا ایک مشہور قول ہے۔

"A man is known by the company he keeps"

یعنی کسی بندے کی شناخت اس کی محفل سے ہوتی ہے۔

جب ہم بچے تھے تو سمجھتے تھےکہ انسان، گندے بندوں کے ساتھ بیٹھنے والے لوگ گندے، شرابیوں کے ساتھ شرابی، چوروں کے ساتھ چور بن جاتا ہے۔ اور اچھے لوگوں، بزرگوں اور اللہ والوں کے ساتھ رہ کر انسان ان کی عادات پا لیتا ہے۔ عمر بڑھتی گئی، تو زاویہ نظر بھی مختلف ہوتا گیا۔ ایک فلم دیکھی کہ ایک بچہ اپنے ماں باپ سے بچھڑ کر کسی جنگل میں رہ جاتا ہے، جہاں بھیڑے اسے پالتے ہیں، تو جب وہ نوجوان ہو جاتا ہے تو اس کی حرکات و سکنات بھیڑیوں جیسی ہو جاتی ہیں۔

اسی طرح علامہ اقبال نے کہا۔

وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں

اُسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسمِ شاہبازی

(یعنی اگر شاہین کے بچے کو گدھ پالیں تو وہ مردار خور بنے گا، شکاری نہیں۔)

آج کل ایک خبر عام سننے کو مل رہی ہے۔ کہ فلاں جگہ حادثہ ہوا، لوگ زخمیوں کی مدد کرنے کی بجائے ویڈیوز بناتے رہے۔ بدنام زمانہ سیالکوٹ کیس میں لوگ، اس سری لنکن پر تشدد کرتے رہے، اور لوگ ویڈیو بناتے رہے۔ کراچی میں سال کے آخری روز ٹارگٹ کلنگ ہوئی، اور دونوں زخمی سڑک پر پڑے امداد مانگتے رہے اور لوگ ویڈیو بناتے رہے۔ یعنی احساس اور مدد کے جذبہ کی جگہ لائیکس اور شئیر اور وائیرل ویڈیوز کے جنون نے لے لی ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ، پچھلے 25 سالوں سے دنیا میں پیدا ہونے والے بچوں کی کمپنی، ان کے ماں باپ، عزیز و اقرب نہیں، بلکہ ٹی وی، کمپیوٹر، موبائل فون اسکرین ہے۔ جہاں جذبات نہیں۔ جو انہیں فیڈ کر دیا جائے، وہی بچے کو دکھا دیا جاتا ہے۔ پچھلے بیس سال سے بچہ دودھ نہ پئیے، تو اسکرین پر کارٹون لگا کر دے دیا جاتا ہے۔ رو رہا ہو، تو فون ہاتھ میں دے دیا جاتا ہے۔ اب بچے کا، بچے کے باپ کا، اور اس کی ماں کا ساتھی، پیدائش سے ہی آرٹیفشل انٹیلی جنس یعنی سوشل میڈیا، اسکرین ہے۔

یہ روبورٹس جذبات سے عاری ہیں۔ ان کے ساتھ پلنے اور کھیلنے والے بچوں کو صرف یہی معلوم ہے کہ، کس طرح اس ورچول دنیا کا حصہ بننا ہے۔ کس طرح اس سوشل میڈیا اور اس کے مختلف مراحل کا حصہ بن کر دنیا میں نام کمانا ہے۔ ان کے نزدیک ایک اچھی نصیحت یا حکایت فارورڈ کرنے کی چیز ہے، عمل کرنے کی نہیں۔ لیکن کپڑے اتار کر، جسم پر مختلف علامات بنا کر، جنسی علامات کا اظہار کر کے، اگر کامیابی ملتی ہے تو اس میں کوئی بری بات نہیں ہے۔ یہ وہ کمپنی ہے، جو انسان کو رفتہ رفتہ جذبات سے عاری کرتی جا رہی ہے۔

اب انسان، جس طرح موبائل چارج ہوتا ہے، یا گاڑی ایک کیمیکل(پٹرول) ڈالنے سے چلتی ہے۔ یا اس کی الیکٹرک گاڑی کی بیٹریوں کو چارج کرنے کے لئے کسی بھی میکدونلڈ، برگر کنگ، کے ایف سی کے باہر فلنگ اسٹیشن ہے، اسی طرح اس کے لئے کیمیکل سے بھرپور غذا، ان فِلنگ اسٹیشنز سے ملحقہ فوڈ کورٹس میں موجود ہے۔ بالکل پٹرول اور بجلی کی طرح کی کیمیکل انرجی، آج کا نوجوان junk food سے حاصل کر رہا ہے۔ اگر آپ کو یقین نہ آئے، تو کسی بھی ڈبہ میں بند جوس یا مشہور زمانہ "فنٹا" کے اورنج ٹیسٹ والے ٹن پر، اس کے ingredients کو پڑھ کر دیکھ لیں۔

اور ان تمام پروسیسڈ فوڈز، جنہیں گرم کر کے آپ کے زبان کی لذت کا خیال رکھتے ہوئے برگر یا چکن بنایا جاتا ہے، اس کے اجزائے ترکیبی پڑھ لیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ، ہم صرف جذبات سے ہی عاری نہیں بلکہ خوارک سے بھی عاری ہو چکے ہیں۔ جو پانی آپ مِنرل واٹر کے نام سے پڑھتے ہیں، اس پر لکھی expiry dateاور اس میں موجود کیمیکل، جہنیں مِنرلز کا نام دیا گیا ہے، کبھی آپ کو متنبہ نہیں کرتا کہ کیا وجہ ہے، گھر کا پانی تین دن پڑا رہے تو بُو چھوڑ دیتا ہے یا بد مزہ ہو جاتا ہے، یہ پانی نما کیمیکل کیوں خراب نہیں ہوتا؟

سورہ التین میں اللہ کریم، انبیاء کے کردار کی اور ان کی جائے پیدائش کی قسم کھا کر فرماتے ہیں کہ، یہ اعلیٰ کردار کے افراد قابلِ تقلید ہے، مگر انسان نے پست سے پست ترین ہونے کو ترجیح دی۔

ترجمہ: قسم ہے انجیر کی! اور زیتون کی! اور طور ِسینین کی! اور اس امن والے شہر کی! بلاشبہ یقینا ََہم نے انسان کو سب سے اچھی بناوٹ میں پیدا کیا ہے۔ پھر ہم نے اسے لوٹا کر نیچوں سے سب سے نیچا کر دیا۔

Check Also

Khaala

By Mubashir Aziz