Rabi Ul Awwal Kaise Manaen?
ربیع الاول کیسے منائیں؟
پچھلے 28 سالوں سے میں ایک سلسلہ تصوف سے وابستہ رہا ہوں۔ ایک بار میں اپنے حضرت صاحب کے ساتھ بیٹھا تھا کہ کچھ لوگ آئے۔ لینڈ کروزر سے 4 انتہائی موٹے تازے افراد کلف لگے کاٹن کے سوٹوں میں نمودار ہوئے۔ مین سمجھا یہ کوئی منسٹر وغیرہ یا ایم پی اے ہیں، جب انہوں نے میرے حضرت صاحب سے گزارش کی کہ آج ان کے خاندان کے ایک بہت بڑے بزرگ کے مزار پر چادر کی تبدیلی کی تقریب ہے، لہذا حضرت صاحب اس تقریب کو رونق بخشیں۔ تو میرے حضرت صاحب جو کہ ان حضرت صاحب سے فیض یاب بھی تھے۔ چادر تبدیلی کی تقریب میں جانے سے معذرت فرما لی اور اپنے خلیفہ کو ارشاد فرمایا کہ آپ اور سلیم (یعنی میں) چلے جائیں۔
جب ہم وہاں گئے تو بہت بڑا اجتماع تھا۔ خیر چادر کی تبدیلی اور مزار کی دھلائی کی تقریب مکمل ہوئی مجھے رش کی وجہ سے مزار میں گھسنے کا بھی موقع نہ مل سکا۔ بعد میں ان سجادہ نشین صاحبان نے ہمارے اور چند اہم شخصیات کے لئے مریدین سے ہٹ کر A/c والے کمرہ میں پر شکوہ چائے کا اہتمام کیا۔ میرے دل میں ایک سوال آیا جو میں نے پوچھ لیا کہ اس مزار پر تو لوگ بہت نذرانے دیتے ہوں گے۔ تو وہ صاحب بولے ہمارے آدھے پیسے محکمہ اوقاف لے جاتا ہے۔ جبکہ باقی ہم خاندان کے ہر بھائی کو دو ڈھائی کروڑ سالانہ ملتا ہے۔ میرے ہوش اڑ گئے۔۔
2020 میں وہ خلیفہ صاحب بمع اپنے خلیفہ بیٹے بہو اور بچوں کے ساتھ ہمارے شہر کے ایک دوست کی زوجہ کی تعزیت کے لئے تشریف لائے۔ جب ایک دوست نے انہیں 500 روپے پیش کئے تو انہوں نے بھری محفل میں اسے شدید برا بھلا کہا اور بولے تمہیں معلوم نہیں کہ "میں اپنی بہو کے ساتھ آیا ہوں تمہیں اس کے لئے کپڑے اور بچوں کے لئے سوٹ لانا چاہئے تھا" وہ بندہ رو پڑا۔ میں نے اس بندے کو دلاسہ دیا تو وہ بولا تین دن سے میرے گھر میں فاقے ہیں۔ میں کسی سے ادھار لے کر ان کی خدمت میں یہ پیسے دینے آیا تھا۔ مجھے شدید غصہ آیا اور کہا اللہ کے بندے یہ 500 تم گھر کی روٹی پر خرچ کرتے تو وہ بولا مرشد پر خرچ کرنا مسائل کو حل کر دیتا ہے تو میں نے اسے کہا، آج آپ کے ساتھ ہم سب کے مسائل حل ہو گئے۔ آج کے بعد ہم کسی آستانے یا خلیفہ کے پاس نہیں جائیں گے۔
اس طرح کتاب زیست کا ایک باب ختم ہوا۔چونکہ میرا تعلق ایک پختون قبیلہ کے سربراہ خاندان سے ہے تو ہمارے گھروں میں علاقے کی لڑکیاں گھریلو کام کرنے آتی رہتی ہیں۔ ایام نوجوانی میں میرا دل ایک نوکرانی پر آگیا، میں نے بہت کوشش کی کہ وہ ہاتھ اجائے لیکن وہ اپنے پھٹے کپڑوں میں جس طرح مشکل سے بدن چھپا پاتی تھی اسی طرح میرے اندر چھپے نوابی بھیڑے سے خود کو بچاتی رہی۔ سور وہ کر نہیں سکتی تھی لہذا وہ پوری کوشش کرتی کہ میرے سامنے نہ آئے۔ ایک روز میں شام کو سویا ہوا تھا تو میرا دروازہ زور زور سے بجا۔ میں نے سخت ناگواری میں دروازہ کھولا تو سامنے وہی نوکرانی کھڑی رو رہی تھی۔
میرے بھیڑے نے اس کو اوپر سے نیچے تک دیکھا اور شام کا وقت وہ روتے ہوئے بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ آنسو صاف کرتے ہوئے بولی لالا جی گھر میں میرے بیٹے کی طبعیت بہت خراب ہے گھر سے اطلاع آئی ہے۔ میں گھر جانا چاہتی ہوں۔ میرے پاس پیسے نہیں ہیں, مجھے گھر پہنچا دیں۔ اس کے بدلے میں گھر میں آپ کہ خواہش پوری کر دوں گی۔ مجھے بہت لطف آیا کہ خود بخود کبوتری جال میں آگئی۔ گاڑی نکالی اس کا گاؤں ہمارے گھر سے کوئی 15 کلومیٹر دور ہوگا۔ ان پندرہ کلومیٹر نے میری زندگی بدل دی۔ جب ہم اس کے گھر پہنچے تو پہلے وہ مجھے کچھ کہے بغیر گھر بھاگی۔ پھر بچے کو اٹھا کر میری طرف آئی اور بولی لالا میرے خاوند گھر میں نہیں ہیں آپ اندر آجائیں۔
میں نے اس کے بیٹے کو ہاتھ لگایا تو وہ بخار سے تڑپ رہا تھا۔ میں نے اس لڑکی کے آگے ہاتھ جوڑ دیئے اور کہا کہ اگر تم چاہو تو اسے ڈاکٹر کے پاس لے جاؤں؟ وہ بولی نہیں اماں اسے ڈاکٹر سے لے آئی ہے نسخہ دیا ہے پیسے نہیں۔ میری جیب میں جتنے پیسے تھے اسے دے دئے۔ وہ روتے ہوئے بولی، لالا میرا صرف آج کا وعدہ ہے شاید میں آپ کا احسان دوبارہ نہ اتار سکوں۔ میں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور واپس گھر آگیا۔ اس کے بعد جب بھی وہ خاتون میرے سامنے آتی میں اپنی گھٹیا سوچ پر شرم سے پانی پانی ہو جاتا۔ آج ماشاءاللہ اس کا بیٹا جوان شادی شدہ اور ایک سرکاری محکمہ میں ڈرائیور ہے۔
ڈرائیور سے یاد ایا! کچھ عرصہ قبل میں اپنے ڈرائیور کے ساتھ دفتر سے گھر آ رہا تھا۔ مجھے بیگم نے کہا گوشت لیتے آئیے گا۔ تو میں نے اسے کہا کسی گوشت والے کے پاس روکو۔ وہاں سے میں نے گھر کے لئے تینوں اقسام (بڑا، چھوٹا اور مرغی) کا وافر گوشت لیا۔ اچانک مجھے گاڑی میں بیٹھا ڈرائیور یاد آیا تو میں نے اس کے لئے ایک کلو گوشت لے لیا۔ جب میں گاڑی سے اترنے لگا تو اسے کہا کہ یہ گوشت وہ گھر لے جائے۔
دوسرے روز دفتر میں میری آفس سیکریٹری نے کہا کہ "آپ سے فلاں ڈرائیور اکیلے ملنے کی اجازت چاہ رہا ہے" یہ وہی ڈرائیور تھا جسے کل میں نے گوشت لے کر دیا تھا۔ جب وہ اندر آیا تو بمشکل شکریہ بول پایا اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ میں نے آٹھ کر اسے دلاسہ دیا تو وہ بولا صاحب رات میں اور میری بیوی بہت روئے۔ ہمارے گھر میں 6 ماہ بعد گوشت کا سالن بنا اور ہمارے بچوں نے عید کی طرح خوشی منائی ہے۔ اللہ کریم آپ کا بھلا کرے۔
گوشت کے سالن سے یاد آیا! اس سال جون کے مہینے سے ہم نے سیرت النبی کریم ﷺ کا اہتمام کیا جو کہ یکم ربی الاول میں مکمل ہوا۔ اس کو سننے والے آڈیوز اور محفل میں شرکت کرنے والوں سمیت کافی تعداد تھی، تو میرے دل میں یوں آیا کہ اس بڑے کام کی احسن تکمیل پر کوئی نیاز وغیرہ دی جائے۔ چونکہ سب ہی ایسے افراد شریک تھے جن کا خدا نے دینے والا ہاتھ رکھا ہے تو طے یہ پایا کہ ایک چاول کی دیگ باہمی شراکت سے کسی مدرسہ یا یتیم خانے میں دے دی جائے۔ معلوم ہوا کہ قریب ہی ایک مدرسہ ہے جو ایک جید عالم دین کا ہے اور اکثر اس میں بچے اردگرد کے علاقوں سے تعلیم کےلئے آتے ہیں۔ رہائشی بچے بھی ہیں۔ تو میں وہاں گیا اور مہتم مدرسہ سے اجازت مانگی کہ ایک دیگ چاول ہم کب پہنچا دیں تو اس نے کہا کہ مغرب کی نماز پر ختم پاک ہوتا ہے بچے کھانا کھاتے ہیں۔
جب ہم جانے لگے تو اس شخص نے پیچھے سے ایک ہلکی سی آواز دی جو ہمیں وہم کی طرح محسوس ہوئی۔ میں نے مڑ کر پوچھا مولوی صاحب آپ نے آواز دی۔ تو مولوی صاحب کا چہرہ شرم سے سرخ ہوگیا اور بمشکل بول سکا کہ "جی" تب ہم سب متوجہ ہوئے تو وہ بمشکل بول سکا کہ اگر آپ چاول کی بجائے سالن کر دیں اور روٹی تو مشکور ہوں گا۔ میں نے کہا ہمیں تو کوئی اعتراض نہیں، لیکن دونوں میں کیا فرق ہے۔ تو وہ بولا 66 بچے ہمارے مدرسے میں یتیم ہیں۔ جو گھر نہیں جاتے۔ انہوں نے گزشتہ ایک سال سے گوشت کا سالن نہیں کھایا۔ میں چاہتا ہوں کم از کم ایک دن ہی یہ گوشت کھالیں۔
ہم سب بہت بھاری دل سے باہر نکل آئے۔ میں نے آکر تمام آڈیوز اور شرکت کرنے والوں کے آگے بات رکھی تو اللہ نے کرم کر دیا۔ اتنا پیسہ جمع ہوا کہ دو عدد دیگیں ہم نے انہیں مدرسے میں بھیجیں۔ ان 66 بچوں کے لئے ایک ایک جوڑا کپڑے سردیوں کا بنوایا۔ اور ان سب کے لئے ایک ایک سوئیٹر اور چپل خرید کر دے دیے۔ باقی جو پیسے بچے ہمیں پتہ چلا کہ ایک دوست کے محلے میں دو گھر ایسے ہیں جہاں ایک گھر میں نوجوان لڑکیاں رہتی ہیں جبکہ دوسرا ایک نوجوان بیوہ کا ہے۔ جس کے دو چھوٹے بچے ہیں۔ مجھے وہ نوکرانی یاد آگئی۔ میری درخواست پر باقی پیسوں سے دوستوں نے دونوں گھروں میں ایک ماہ کا راشن ڈلوا دیا۔
مجھے علم نہیں کہ ان سب کا اگلے ماہ کیا ہوگا۔ مولوی صاحب نے بتایا کہ ایک بچے کی خوراک پر ایک دن کا 100 روپیہ خرچ ہوتا ہے۔ اور خدا جانے کیسے پورا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی بڑے بچے فاقہ کرتے ہیں کہ چھوٹے کھانا کھا لیں۔
آج کے اس دور میں فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ ایسے آستانوں اور اپنے گھروں کے ساتھ ایسے ہمسایوں کو خیراتیں بھیجنی ہیں جو دوسرے روز آپ کے بھیجے چاول ڈسٹ بن میں ڈال دیں گے اور آپ دیگ محلے میں بانٹ کر خوش ہوں گے کہ ربیع الاول، محرم، 27ویں یا 11ویں کا حق ادا ہوگیا۔ یا آج کمانے والا ہر مرد و عورت حضرت ابوبکر صدیق کی طرح کسی بوڑھی کے گھر کی صفائی اور اس کے مرض کا علاج، حضرت عمر کی طرح کسی غریب کے گھر راشن یا حضرت عثمان کے کنویں کی طرح کسی علاقے میں پانی کا نلکا لگوا کر یا حضرت علی اور ان کے گھرانے کی طرح اپنا کھانا، یتیم مسکین اور قیدی کو کھانے کی سنت پوری کرے گا۔ جن کا نبی کریمﷺکے احکام کی بجا آوری میں ہر دن عید اور ہر رات شب برات ہوتی۔
آج پاکستان اس دور سے گزر رہا ہے جس میں انصار اور مہاجرین کے ایثار کا تعلق دوبارہ زندہ کرنا پڑے گا۔ جس میں ہر انصاری نے اپنے منہ کا نوالا اپنے مستحق بھائی اور خاندان تک پہنچایا اور اپنے گھر کے سالن میں پانی کا اضافہ کرکے ہمسائے کو بھی سالن کھلایا۔
اتنے شدید تنگی کے حالات ہیں اس ملک کے کہ عورتیں اپنی بیمار اولاد اور روٹی پوری کرنے کے لئے عزتوں کے سودے کرنے کو تیار ہیں کیونکہ ان کے مرد مزید برداشت نہیں کر سکتے اگر یہ اپنے شوہر کو مزید گلہ کرتی ہے تو ڈرتی ہے کہ وہ خودکشی نہ کر لے۔
بیمار باپ ماں بچوں کی روٹی کی خاطر دوائی نہیں کھا رہے۔۔ یقین کریں کئی سفید پوش گھر ایسے ہیں جہاں کئی دن سے چولہا نہیں جلا اور وہ شرم سے گھر سے نہیں نکل سکتے۔
میری آپ تمام پڑھنے والوں سے دست بستہ عرض ہے کہ اپنے محلے کے تندور پر ایک ایثار کی ٹوکری رکھ دیں اور ایک روٹی اس میں ان کے لئے خرید کر ڈال دیں جو اب روٹی نہیں خرید سکتے۔ ایک دیگ آج کل 15 سے 25 ہزار میں بنتی ہے۔ جو ایک وقت کا کھانا بھی ایک مستحق تک پہنچانے سے قاصر ہے۔ اس کی جگہ اگر کسی دو یا تین خاندان کو ایک ماہ کی مدد کر دی جائے تو یقین کریں، قرب نبی کریمﷺ بھی حاصل ہوگا اور دنیا بھی کشادہ ہوجائے گی۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ لگی بندھی خیراتوں اور آستانہ نشینوں کو نئی گاڑیاں خرید کر دینے کی بجائے نبی کریمﷺکی امت کے لئے تھوڑی سی بھاگ دوڑ کر لیں۔ خدا کی قسم دونوں جہاں میں عزت ہمارے قدم چومے گی۔
نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا
ساتھ ہی منشیء رحمت کا قلمدان گیا
لے خبر جلد کہ اوروں کی طرف دھیان گیا
میرے مولیٰ مِرے آقا ترے قربان گیا
دل ہے وہ دل جو تِری یاد سے معمور رہا
سر ہے وہ سر جو ترے قدموں پہ قربان گیا
اُنہیں جانا، اُنہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام
للہِ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا