Pakistani Wali Traweeh
پاکستانی والی تراویح
برصفیر میں ہر کام متشدد کیا جاتا ہے۔ چاہے اظہار محبت ہو، نفرت ہو۔ حتکہ مذہب جو روحانیت اور جسمانیت کے اکھڑے سروں کو یکجا کرنے کا نام ہے تاکہ جسم اور روح تعاون کریں۔۔ ہم نے اسے سب سے زیادہ تشدد پسند بنا دیا ہے۔۔ جس دین کا نعرہ ہے کہ" دین میں کوئی زبردستی نہین" وہاں ہر بات بلکہ بات بات پر ہر انفرادی مسلک دوسروں کو اپنا آپ زبردستی منوانے پر تلا ہوا ہے اور حد یہ ہے کہ اس کے علاوہ خدا اور رسول پر کسی کا نہ تو حق ہے اور نہ ہی جنت کا حقدار۔۔
میں نے تراویح زمانہ جاہلیت میں بڑی شدت سے شروع کی اور پھر جب ایمان لایا یعنی قرآن کو سمجھ کر پڑھنا شروع کیا تو مسجد جا کر تراویح پڑھنا چھوڑ دی۔۔ کیونکہ مسجد میں تراویح کے نام پر جو ہو رہا تھا۔ کم از کم میں اسے ایک پر خلوص عبادت ماننے کو تیار نہیں تھا۔ نہ الفاظ سمجھ آتے نہ رکوع و سجود ٹھیک سے ہوتے۔۔ اور 21 رمضان تک کھڑے کھڑے چیخیں نکل جاتیں۔۔ 21,23,25 یا 27 تک قران ختم کرنا فرض نماز سے زیادہ اہم بن گیا۔ اور باقی روزے آخری 10 سورتوں کے ساتھ 11 منٹ میں 20 رکعت تراویح پڑھا کر مولوی صاحب کا فاتحانہ انداز میں مڑ کر دعا کرانا ہضم نہیں ہوا تو تراویح جو دو عبادات کا مجموعہ ہے یعنی نوافل اور اس میں ختم قرآن اگر آپ کو چند سورتیں یاد ہیں اور آپ گھر میں نماز تراویح پڑھتے ہیں تو سنت تراویح ادا ہوگئی۔۔ جس کی دوسری سنت یعنی ختم قران ادا نہ ہو سکا۔
لہذا میں نے ایک ہی سنت پر اکتفا کیا اور گھر پر پڑھنے لگا۔۔ پھر ایک روز مجھے کراچی کی ایک اعلی ہاؤسنگ سوسائیٹی کی مسجد میں تراویح پڑھنے کا موقع ملا۔۔ اس سرور و کیفیت کو میں کبھی نہ بھلا پایا حتکہ مقام ابراہیم کو مصلی بنانے کا موقع ملا۔۔ اس سوسائیٹی کے امام صاحب عجیب انسان تھے۔۔ ہر چار رکعت کے درمیان وقفہ پر مسجد میں ملٹی میڈیا آن ہو جاتا اور اسکرین پر اگلی 4 رکعت میں پڑھے جانے والے 4 رکوع کا ضروری تعارف اور موقع محل (زمانہ نزول اور اس متعلق کوئی خاص واقعہ) بیان کرکے جماعت کھڑی ہوتی۔۔ یقین کریں پہلی صف سے آخری صفحہ تک ایک پر کیف جماعت یا میں نے بیت اللہ میں دیکھی یا اس مسجد میں۔۔ لہذا مزید دل برداشتہ ہوگیا۔۔ حتکہ بالوں میں چاندی، پیٹ میں گیس اور پیشاب پر قابو کھوتا چلا گیا۔۔ لمبے رکوع پر ٹانگیں کانپنے لگی۔۔ اور سجدے پر وضو ٹوٹنے کا احتمال۔
اسی دوران میرے محلے کے برگیڈیر صاحب (خدا انہیں غریق رحمت فرمائیں ) نے مجھے تراویح پڑھنے کی دعوت دی تو میں نے ناگواری سے کہا کہ میں تراویح نہی پڑھ سکتا۔۔ وہ بولے کیوں تو میں نے کہا میرا مولوی صاحب سے اختلاف ہے۔۔ وہ خاموش ہو گئے۔۔ اس سال کہیں چند دوستوں نے مجبور کیا کہ آس مرتبہ تراویح پڑھنے ہی پڑھنی ہے چلو اور مجھے لینے اجاتے۔۔ میں مسجد گیا پہلی شب تراویح اور مولوی کی شان میں علامہ کا شعر دماغ میں اگیا۔۔
وہي ميري کم نصيبي، وہي تيري بے نيازي
ميرے کام کچھ نہ آيا يہ کمال نے نوازي
ميں کہاں ہوں تو کہاں ہے، يہ مکاں کہ لامکاں ہے؟
يہ جہاں مرا جہاں ہے کہ تري کرشمہ سازي
خیر شروع کی تراویح کی محافل میں کمر درد کی گولیاں کھاتا رہا۔۔ عبادت سے زیادہ مشقت تھی۔۔ جب کمر عادی ہونے لگی تو مولوی صاحب کی رفتار بڑھنے اور تراویح میں قرآن کی سورتیں مختصر ہونے لگیں۔۔ آخر ہم نے زور لگا کر 25 ویں روزے قرآن کو ختم کرکے قرض اتارا۔۔
ایک دن میں نے مولوی صاحب سے پوچھا حضور فرض نماز آپ نے مختصر فرما دی ہے اور نفلی طویل ایسا کیوں تو وہ بولے عبادت لمبی ہے تو اس لئے فرض مختصر کر دئے کہ لوگوں کو تکلیف نہ ہو صرف فرض مختصر ہی نہ ہوئے بلکہ رکوع و سجود بھی مختصر ترین ہوگیا۔۔ اصل ٹیسٹ تو میرا 25 ویں روزے کے بعد شروع ہوا جب مولوی صاحب نے مختصر تراویح ایک ہی سورہ کی 3,3 آیات کو دوہرا دوہرا کر 20 رکعت پڑھنی شروع کی۔۔ یہ مرحلہ بالکل چومکھی لڑائی کا تھا۔ یعنی تیزی سے رکوع میں کمر اور ہڈیاں سنبھالنا۔۔ گھٹنے اٹھنے بیٹھنے پر جواب دینا۔۔ پیشاب کے قطروں کو اس بھاگ دوڑ میں روکنا۔۔ گیس کا کنٹرول اور مختصر ترین سجدوں میں 3 تسبیحات مکمل کرنا۔۔ شاید مجھ جیسے بندے کے لئے عبادت سے زیادہ مشقت بن گیا۔۔ مولوی صاحب کوئی 23 یا 24 سالہ نوجوان تھے۔ اور پہلی تین صفوں میں بلترتیب 75,65 اور 55 سالہ افراد کے لئے یہ تجربات صرف نماز مکاو پروگرام تھا۔۔ روح نامی چیز اس مشقت میں نظر نہ ائی۔ انہیں ہماری مقامی زبان میں"الم تراکیف والی تراویح " کہتے ہیں یعنی آخری 10 سورتوں کو ہی پڑھا جاتا ہے۔۔
اسی سے یاد آیا کہ ایام جاہلیت کے اختتام پر میں کوشش کرتا کہ کوئی ایک سنت پر عمل کروں۔۔ تو ایک بار یہ پڑھا کہ نبی کریمﷺ جب عید کی قربانی فرما لیتے تو اسی کے گوشت کو بطور پہلی چیز تناول فرماتے۔۔ بیگم کو اعلان کر دیا۔۔ قصائی کو پیسے دے دئے کہ صبح سویرے آجائیں۔۔ وہ شامی قسمت دوپہر تک نہ آیا۔۔ بیگم نے منتیں کی کہ کچھ کھا لیں۔۔ شیطان عید کے دن منہ بند رکھتا ہے۔ میں نے انکار کر دیا کہ یہ لیٹ ہی شیطان کراتا ہے۔۔ کہ مجھے ازمائے۔۔ بیگم صاحبہ نے میرے استاد محترم کو فون کر دیا۔۔ کہ بالک پاگل ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا فون تھمانا ذرا بالک کو۔۔ پھر مجھ سے مخاطب ہوئے کہ بیٹا فجر کی نماز پڑھی تھی میں نے کہا۔۔ باباجی! وہ رات سوتے سوتے دیر ہوگئی تو فجر تو چھوٹی ہی عید کی نماز بھی رہ گئی۔۔
تو وہ بولے۔۔ بچہ! ہم عجیب قوم ہیں مستحب کو نوافل پر، نوافل کو سنتوں پر اور سنتوں کو فرائض پر ترجیح دیتے ہیں۔۔ سب سے اہم چیز خوبصورت بناکر فرائض کی ادائیگی ہے پھر سنتوں کی پھر جسے جتنی توفیق اللہ دے۔ چلو کھانا کھاو اور فرائض پر توجہ دو۔۔ یہی حال ہماری مساجد و مسالک کا ہے۔۔ ہم فرض نماز کو اس لئے جلد نبٹاتے ہیں کہ تراویح کی مشقت زیادہ ہے۔۔ بھئی جسے عبادت ہی کرنا ہے اسے فرق نہیں پڑتا۔۔ یہی وجہ ہے کہ آقاﷺ کے پاؤں مبارک پر قیام لیل کے باعث ورم(سوجن) اجاتا۔ اور یہی سنت صحابہ کی رہی اور یہی آج بھی عبادت کرنے والوں کی۔۔ ہم تو صرف فرائض اور نوافل کو گلے سے اتارتے ہیں۔۔ اگر تھوڑی سی تحقیق کی جائے تو یہ نظام تراویح بہت سائنٹفک انداز سے ترتیب دیا گیا ہے۔۔
قرآن میں کل 540 رکوع ہیں۔ جن میں الحمد یعنی سورہ فاتحہ ایک رکوع ہے اور سورہ الکوثر بھی ایک مکمل رکوع ہے۔۔ اسی طرح سے رمضان میں پڑھی جانے والی 20 رکعت تراویح اگر 29 روزے پڑھی جائے تو 580 رکعت بنتی ہے۔۔ یعنی اس کا مطلب ہوا کہ ایک رکوع اور کم وبیش 5 آیات ہر رکعات میں۔۔ نہ نمازیوں پر بوجھ نہ پڑھنے پڑھانے والوں پر سختی۔۔ اور سب سے بڑھ کر نماز کا پابند وہ معمر، ریٹائرڈ طبقہ جن کے لئے یہ اٹھک بیٹھک اور طویل قیام ان کی ہمت اور استطاعت سے بڑھ کر ازمائش بن جاتے ہین ان کا خیال کرنا اس سے بڑی عبادت ہے جس میں دل آزاری اور لوگوں کی بے پردگیاں ہوں۔۔
قرآن کو شب قدر میں ہی ختم کرنا ہے تو 29 ویں شب سب سے موزوں ہے۔ اگر مولوی حضرات اور دین کے ٹھیکیدار 27,25 یا 21 کو ختم قرآن کی رسم ایجاد کر لیں تو یہ بدعت نہیں۔۔ ختم قرآن کے بعد مٹھایاں، تقریر، تحفہ قبول کرنا مسکراتے ہوئے سوٹ اور پگڑی لینا یہ بدعت نہیں لیکن کوئی شخص کمزوری، یا بے علمی کے باعث کوئی عمل ادا کر دے تو ایک شور سا برپا پو جاتا ہے کہ یہ شرک و بدعت ہے۔۔
اللہ کریم ہمیں راہ راست کی طرف ہدائت فرمائیں۔۔ اور دین اسلام کو ہمارے سینوں میں راسخ فرما دیں۔۔