Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Saleem Zaman/
  4. Nabi Kareem Ki Akhri Aulad Aur Hamari Maaen

Nabi Kareem Ki Akhri Aulad Aur Hamari Maaen

نبی کریمﷺ کی آخری اولاد اور ہماری جدید مائیں

جس طرح 8 ہجری کو ہونے والا غزوہ تبوک آپ کا آخری اور حکمت اور روحانیت سے بھرپور غزوہ تھا، جس طرح آپ نے فرضیت حج کے بعد حجتہ الوداع آخری ایک ہی حج فرمایا۔ اور جب طرح حضرت میمونہؑ آپ کی آخری زوجہ محترمہ ہیں اسی طرح سے اپ کے فرزند مبارک حضرت ابراہیم آپ کریمﷺکے آخری اولاد ہیں اور یہ پیدائش حکمتوں اور احکامات الہیہ کی بجاآوری کا عملی نمونہ ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ۔۔

"حضرت ابراہیمؑ حضور ﷺ کی آخری اولاد ہیں جو حضرت ماریہ قبطیہؑ کے بطن سے پیدا ہوئے۔ ابتدا میں حضرت ماریہ قبطیہؑ کو حضرت عائشہؑ کے پڑوس میں حضرت حارثہ بن نعمانؓ کے مکان میں ٹھہرایا گیا۔ اور کچھ عرصے بعد جب آپ حاملہ ہوگئیں تو آپؑ کو اطراف مدینہ میں"العالیہ" کے مقام پر ایک مکان تعمیر کرایا گیا جہاں آپ کو منتقل کردیا گیا۔ اس مکان کے گرد انگور کی بیلیں تھیں۔ اب حضور اکرم ﷺ وہاں تشریف لے جایا کرتے تھے۔ حالانکہ نبی کریمﷺ تمام ازواج مطہرات کو ایک برابر وقت عطا فرماتے لیکن شروع میں ایام حمل میں آپ کریمﷺ حضرت ماریہ قبطیہؑ کو زیادہ وقت عطا فرماتے اور بعد میں جب ان کی طبعیت مبارک سازگار ہوتی گئی تو آپ نے مدت میں کمی کر دی بلکہ نصف وقت کر دیا، تاکہ جو وقت پاک آپ نےزیادہ عطا کیا تھا، اب اسے دوسری ازواج مطہرات کے برابر کر دیا جائے۔ اور جن ازواج مطہرات کے وقت کو کم کیا تھا انہیں اب کچھ وقت زیادہ عطا فرمایا۔

وقت کا دھارا بڑی تیزی سے بہہ رہا تھا، رسول اللہ ﷺ اپنے منصب رسالت کے فرائض کی تکمیل کے سلسلہ میں شبانہ روز مصروف رہتے تھے۔ حضرت ماریہ قبطیہؑ کے امید سے ہونے پر حضور اکرم ﷺ بے حد مسرور و شاداں تھے۔ جب بچے کی ولادت کا وقت قریب آیا تو اس کی ذمہ داری اپنے غلام حضرت ابو رافعؓ کی زوجہ حضرت سلمیٰؓ کو سونپی، وہ دوران حمل و زچگی حضرت ماریہ قبطیہؑ کے ہاں اکثر آتی جاتی تھیں۔ اس دوران آقاﷺنے انہیں پر فضا مقام پر اپنے دیگر معامالت و مشقت طلب امور دینی و دنیاوی سے دور رکھا۔

یہ ذوالحجہ 8 ہجری کا زمانہ ہے، مدینہ پاک میں نبی کریمﷺ صحابہ کرام کے ہمراہ تشریف فرما ہیں کہ آپ کے آزاد کردہ غلام ابو رافعؓ دوڑے دوڑے آتے ہیں، لیکن چہرہ خوشی سے تمتما رہا ہے۔ یہ مدینہ پاک کے ایک مضافاتی علاقہ "عالیہ" سے دیوانہ وار دوڑے آ رہے ہیں تاکہ سب سے پہلے اپنے آقاﷺ کو خوشخبری دے سکیں۔ وہ ادب کے تقاضوں کو بجا لاتے ہوئے احترام سے نبی کریمﷺکے قریب ہوتے ہیں اور انہیں نبی کریمﷺ کے فرزند کی پیدائش کی خوشخبری سناتے ہیں۔ کریم نبی اپنے غلام کو اس خوشی میں ایک غلام تحفہ میں عطا فرماتے ہیں۔ سب سے زیادہ آج صحابہ خوش ہیں اور نعرہ تکبیر سے فضا گونج جاتی ہے۔ یہ اس خوشی کا اعلان ہے کہ ان کے آقاﷺ کو اللہ کریم نے اولاد نرینہ سے نوازا۔ جو اس عرب معاشرے کی ضرورت تھا۔

ابھی صحابہ کرام نے ٹھیک سے مبارک بھی نہ دی تھی کہ جبرائیل امین بھی خوشی میں شرکت کے لئے تشریف لے آئے اور آتے ہی آپ ﷺکو "السلام علیکم یا اباابراہیم" کہہ کر عرض کی کہ رب کریم نے آپ کے فرزند ارجمند کا نام اقدس "ابراہیم" ارشاد فرمایا ہے۔۔ نبی کریم بہت خوش ہوئے اور ان کے عقیقہ میں دو مینڈھے آپ نے ذبح فرمائے اور ان کے سر کے بال کے وزن کے برابر چاندی خیرات فرمائی اور ان کے بالوں کو دفن کرا دیا اور "ابراہیم" نام رکھا، پھر ان کو دودھ پلانے کے لیے حضرت "ام سیفؓ" کے سپرد فرمایا۔ ان کے شوہر حضرت ابو سیفؓ کا پیشہ ور "لوہار" تھے۔ آپ ﷺ کو حضرت ابراہیمؓ سے بہت زیادہ محبت تھی اور کبھی کبھی آپ ان کو دیکھنے کے لیے مقام عالیہ تشریف لے جایا کرتے تھے۔ مقام عالیہ کا دوسرا نام "مشربۂ ابراہیم" بھی ہے۔

حضرت ان سے روایت ہے کہ "ابراہیمؑ کو مدینہ کے قریب آباد ایک بستی کی دایہ دودھ پلایا کرتی تھی۔ نبی ﷺ ابراہیم کی زیارت کے لیے وہاں جایا کرتے اور آپ ﷺ کے ساتھ آپ ﷺ کے کچھ صحابہ بھی ہوتے۔ آپ ﷺ گھر میں داخل ہوتے تو گھر دھویں سے بھرا ہوتا تھا کیونکہ دایہ کا شوہر لوہار تھا۔ نبی ﷺ ابراہیمؓ کو اٹھاتے، انہیں پیار کرتے اور واپس لوٹ آتے"۔ (مسلم)

حضرت ابراہیم جو کہ ابھی دودھ پیتے تھے اور ابھی صرف 17 یا 18 ماہ کی عمر پاک کے تھے، ان کی طبعیت اچانک بگڑ گئی گئی۔ حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حضرت ابوسیفؓ کے مکان پر گئے تو یہ وہ وقت تھا کہ حضرت ابراہیم جان کنی کے عالم میں تھے۔ یہ منظر دیکھ کر رحمتِ عالم ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ اس وقت عبدالرحمن بن عوفؓ نے عرض کیا کہ یاسول ﷲ! ﷺ کیا آپ بھی روتے ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اے عوف کے بیٹے!یہ میرا رونا ایک شفقت کا رونا ہے۔ اس کے بعد پھر دوبارہ جب چشمان مبارک سے آنسو بہے تو آپ کی زبان مبارک پریہ کلمات جاری ہوگئے کہ "آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل غمزدہ ہے مگر ہم وہی بات زبان سے نکالتے ہیں جس سے ہمارا رب خوش ہو جائے اور بلاشبہ اے ابراہیم! ہم تمہاری جدائی سے بہت زیادہ غمگین ہیں۔ "اور حضرت ابراہیم کا انتقال ہوگیا۔

حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ میرے فرزند ابراہیم نے دودھ پینے کی مدت پوری نہیں کی اور دنیا سے چلا گیا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے بہشت میں ایک دودھ پلانے والی کو مقرر فرما دیا ہے جو مدت رضاعت بھر اس کو دودھ پلاتی رہے گی"۔

حضرت ابراہیمؑ کی پیدائش میں امت کے لئے حکمتیں

1۔ آپ کریمﷺ کی تمام اولاد پاک حضرت خدیجہؑ سے ہوئیں، جن کے بعد آقاﷺنے گیارہ ازواج کو حق زوجیت عطا فرمایا، لیکن صرف حضرت ماریہ قبطیہؑ کے بطن مبارک سے اولاد پاک کا پیدا ہونا اس لئے ہوا کہ دین کی کاملیت میں عورت، حمل دوران زچگی اور رضاعت کا عملی نمونہ امت کو سکھایا جائے۔ کیونکہ جو اولاد پاک آپ کی اعلان نبوت سے قبل پیدا ہوئی ان حالات کا تذکرہ تو کیا جاسکتا تھا۔۔ عملی نمونہ جب دین کاملیت کی طرف جا رہا تھا تب ہی ممکن تھا۔۔ تاکہ لاکھوں صحابہ کرام کے لئے مثال قائم کی جا سکے۔

2۔ چونکہ آپ کریمﷺ امور نبوت، دعوت و تبلیغ و تشکیل اسلامی معاشرہ، غزوات جن کا حصہ تھے میں اس قدر مشغول تھے کہ اگر حضرت ماریہ قبطیہؑ دوران حمل جب ایک خاتون بہت سے نفسیاتی معاملات سے دوچار ہوتی ہے۔ اور شروع کے ایام حمل میں خاتون کے مزاج کا اتار چڑھاو بہت زیادہ ہوتا ہے۔ لہذا اس وقت میں اسے ان معاملات سے علیحدہ پرسکون ماحول میں رکھنا کتنا ضروری ہے یہ حضرت ماریہ کے دوران حمل علیحدہ اور پر فضا مقام پر قیام اور سب سے بڑھ کر ایام حمل اور زچگی میں ان کی دل جوئی کے لئے خود وہاں جانا اور زیادہ وقت خلوت (تنہائی اور توجہ) میں عطا فرمانا امت کے لئے ایک بہت بڑی سنت ہے۔ یعنی پہلے تو امت اپنی بیویوں کو دوران حمل اپنے روز مرہ کے مسائل سے دور رکھیں، تاکہ وہ ایک مطمئن اور پرسکون اولاد پیدا کرنے کے قابل ہوں۔ اور اگر ایسا نہ کر سکیں تو ان کے ایام حمل میں انہیں خصوصی وقت اور ان کی دلجوئی کی جائے۔

3۔ آپ ﷺ نے جب ہجرت فرمائی تو ام معبد کے گھر ایک لاغر بکری پر ہاتھ پھیرا تو وہ دودھ والی ہوگئی اور اس سے تمام افراد نے پیٹ بھر دودھ پیا۔ مختلف مواقع پر آپ کریمﷺ کے دست مبارک کی برکت سے ایک پیالہ دودھ یا چند کھجوریں سیکڑوں صحابہ کرام کے لئے کافی ہوگئیں۔ تو ایسا کیوں ہوا کہ آپ کریمﷺ نے اپنے بیٹے پاک کو ایک لوہار صحابی کے گھر دودھ پلانے کو بھیج دیا۔ جن کے گھر جب آقاﷺ تشریف لے جاتے تو وہ دھوئیں سے بھرا ہوتا۔ اگر آپ کہیں کہ یہ رواج تھا تو میں کہوں گا اس کی حکمت کچھ رواج سے زیادہ تھی کیونکہ جو دین آپ کریمﷺ لے کر تشریف لائے اسے تا قیامت رہنا ہے۔ جس میں زمانوں کے تقاضے بہت مختلف ہوں گے۔ آج ہماری خواتین زیادہ تر پروفیشنل، یا کاروبار یا ملازمت سے وابستہ ہیں۔ اور ان کے پاس وہ توجہ اور اولاد کے لئے جسمانی ساخت کے لحاظ سے دودھ پلانا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ آپریشن سے اولاد کا پیدا کرنا ہے۔

دودھ پلانے جیسی ایک وقت لینے والی صبر آزما مشقت، ایک ایسی خاتون کے لئے جو صبح نوکری اور شام کو گھر داری میں مصروف ہو کے لئے اعصابی انتشار اور تناو کا سبب ہے۔ جس کا آسان حل کاروباری کمپنیوں کا ڈبہ کے دودھ اور فیڈر کو بنا کر بچوں کو متعدد بیماریوں کا آماجگاہ بنا دیا ہے۔ اب بچے فیڈر کے اضافی دودھ سے پیٹ، گلے اور سینے کے مختلف مسائل سے اپنی پیدائش کے دن سے ہی دوچار رہتے ہیں۔ جبکہ نبی کریمﷺ کا دایہ مقرر فرمانے کا اقدام اس طرف اشارہ ہے کہ آج ہم جو بچوں کو سنبھالنے کے لئے خواتین کو ملازم رکھتے ہیں اور اس پر دودھ اور ڈائیپر کے اخراجات کرتے ہیں۔

اس کے بجائے کسی بیوہ یا مطلقہ خاتون جو بچے کو دودھ پلا سکے اجرت پر رکھیں تو یہ اس سے کہیں کم خرچ اور جذباتی لگائی کا باعث ہوگا۔ جو معاملات ہم ایک خاتون بچے کی نگرانی کے لئے رکھ کر کرتے ہیں۔ اس طرح ایک بیوہ، یا طلا ق یافتہ خاتون کا گزر بسر بھی عزت سے ہوگا۔ اور بچے کو دودھ پلاتے ہوئے اس بچے سے ایک جذباتی لگاو کی سبب اس کا خیال بھی زیادہ رکھا جائے گا۔ اس طرح قرآن کی آیات پر عمل اور سنت نبوی کو پورا کرنے کا موقع بھی ملے گا اور معاشرتی بگاڑ کو کم سے کم کرنے اور بیوہ اور طلاقیں خواتین کو سماجی دھارے میں لانے میں مدد بھی مل سکے گی۔

4۔ برصغیر پاک و ہند سب سے زیادہ ذات پات اور نسلی تعصب کا شکار معاشرہ ہے اور یہ خاندانی برتری کا کینسر ہمارے معاشرے کو تباہ کر رہا ہے۔ اسی لئے آقاﷺ جو کائنات کی سب سے عظیم ترین ہستی ہیں۔ قبیلہ کے لحاظ سے معزز ترین، اور مقام نبوت کے لحاظ سے پاک ترین ہستی نے اپنے محبوب ترین بیٹے کی پرورش کے لئے ایک لوہار کا گھر منتخب کیا جو ہمارے لئے مشعل راہ ہے کہ کوئی بھی طبقہ حقیر نہیں۔ اگر کسی کو پھر بھی ذات پات، برادری کا سرطان لاحق ہو تو وہ اپنی برادری کی کوئی نادار عورت جو یہ فریضہ انجام دے سکے اسے اس کام پراجرت دے کر رکھ سکتا ہے۔ دو سال ایک گھر کی کفالت بھی ہوگی اور آپ کی بیوی کو سکھ اور سکون بھی ملے گا۔

قرآن مجید میں ارشاد ہے "جو باپ چاہتے ہوں کہ ان کی اولاد پوری مدت رضاعت تک دودھ پیے، تو مائیں اپنے بچوں کو کامل دو سال دودھ پلائیں اِس صورت میں بچے کے باپ کو معروف طریقے سے انہیں کھانا کپڑا دینا ہوگا مگر کسی پر اس کی وسعت سے بڑھ کر بار نہ ڈالنا چاہیے نہ تو ماں کو اِس وجہ سے تکلیف میں ڈالا جائے کہ بچہ اس کا ہے، اور نہ باپ ہی کو اس وجہ سے تنگ کیا جائے کہ بچہ اس کا ہے دودھ پلانے والی کا یہ حق جیسا بچے کے باپ پر ہے ویسا ہی اس کے وارث پر بھی ہے لیکن اگر فریقین باہمی رضامندی اور مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں، تو ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور اگر تمہارا خیال اپنی اولاد کو کسی غیر عورت سے دودھ پلوانے کا ہو، تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں بشر طیکہ اس کا جو کچھ معاوضہ طے کرو، وہ معروف طریقے پر ادا کر دو اللہ سے ڈرو اور جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو، سب اللہ کی نظر میں ہے"۔ (البقرہ 233)

صرف پانی بیٹھ کر سیدھے ہاتھ سے پینا، جوتا سیدھے پیر میں ڈالنا، اور راستے کانٹے ہٹانا لیکن گھر کو اور اپنی بیوی کی زندگی کو جہنم بنانا، یہ اسلام نہیں۔ اسلام یہ ہے کہ آپ کی زندگی اپنے علاوہ اپنے گھر اپنی بیوی اپنی اولاد کے لئے پر سکون اور شفقت کا باعث ہو یہ سنت اور جہاد اکبر ہے۔ آنے والا دور اب ایسے اداروں کے قیام کا ہونا چاہئے جہاں اس طرح کی خواتین کو employees رکھا جا سکے جو دودھ پلا سکتی ہوں اور ان کو وہ تمام مطلوبہ مہارت اور صفائی سکھائی جائے جو اس معاملے میں ایک خاندان کئی ڈیمانڈ ہو۔

زمانے کے انداز بدلے گئے

نیا راگ ہے، ساز بدلے گئے

Check Also

Feminism Aur Hamari Jameaat

By Asad Ur Rehman