Mujhe Chancellor Ya Chief Justice Se Koi Umeed Nahi (2)
مجھے چانسلر یا چیف جسٹس سے کوئی امید نہیں (2)
اسے (بچی کی طرف اشارہ کر کے) کہا کہ اب مزید نہیں پڑھا سکتا تو یہ ضد کر رہی ہے کہ یہ اپنے طور پر MBA کر کے دکھائے گی۔ یونیورسٹی کے سمسٹر کی فیس بھی نہی پوری ہو رہی۔ لیکن یہ کہتی ہے اسی یونیورسٹی سے پڑھوں گی۔ یونیورسٹی کی اسکالر شپ اس لئے نہیں لے سکتی کہ اس کا نہ تو ٹیوشن ہے، نہ ہم کتاب خرید سکتے ہیں اور نہ ہی نیٹ کہ یہ تیاری کر سکے GPA کہاں سے اچھا آئے کہ اس کو کوئی سہولت ملے۔ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اسے کہا۔ آپ اس کی تعلیم سے بے فکر ہو جائیں۔
اس بچی کے والد میرا شکریہ ادا کر کے چلے گئے۔ میں نے اپنی receptionist کی ذمہ داری لگا دی کہ اس کی فیس وغیرہ ادا کر کے مجھے بتاؤ۔ درمیان میں ایک مرتبہ صرف MBA finance کے داخلہ فیس کے لئے وہ بچی آئی اور پھر ایک سال تک صرف اس کا میسج آتا اور ہم اس کی فیس ادا کر دیتے۔ ایک دن وہ بچی پھر آئی۔ پریشان تھی۔ میں نے پوچھا۔ بیٹا خیر ہے! تم تو اتنی بہادر ہو کیوں پریشان ہو؟
تو وہ بولی۔ سر! سال ڈیڑھ سے میں اپنے باقی خرچے ٹیوشن پڑھا کر پورا کر رہی تھی اور میرے نمبر بھی بہت اچھے آئے ہیں لیکن، اور پھر وہ رونا شروع ہو گئ۔ میری اسٹاف نے اسے دلاسہ دیا تو بولی۔ بابا نے تنگ آ کر لاہور جانے کا فیصلہ کر لیا ہے تمام خاندان وہاں شفٹ ہو رہا ہے۔ وہاں میرا کون ہو گا جو مجھے پڑھائے گا۔ میں نے بابا سے کہا میں نہیں جاوں گی۔ یہاں ہاسٹل میں رہوں گی۔
اب نہ میرے پاس اور نہ بابا کے پاس ہاسٹل کے پیسے ہیں اور وہاں اگر میں چلی بھی جاتی ہوں تو ٹیوشن نہی پڑھا سکوں گی۔ کیونکہ یونیورسٹی 9 سے 5 ہے اور باہر جاتے واپس آتے رات ہو جائے گی میرے پاس سواری بھی نہی۔ آپ میری ہاسٹل کی فیس بھی دیں گے؟ میں نے اسے خوش کرنے کو کہا۔ ایک شرط پر دوں گا کہ جیسے نوکری لگے گی میری تمام فیس اور ہاسٹل کے پیسے واپس کرو گی۔ وہ بچی مان گئ۔ میں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا جب بیٹی کہا ہے تو تم بے فکر ہو کر پڑھو بس۔
وہ چلی گئی۔ شائد دو سال بعد اس کی کال آئی سر آج رات ٹیلی ویژن پر میرا انٹرویو ہے ضرور دیکھنا۔ میں نے پوچھا۔ اب کیا کر دیا تم نے؟ تو بہت ہنسی اور بولی سر گولڈ میڈل ملا ہے مجھے۔ مجھے خوشی ہوئی میں نے مبارکباد دی تو اس کی آواز بھرا گئی بولی سر بس اب میں چلی جاؤں گی لاہور۔ تمام عمر آپ کی مشکور رہوں گی۔ میرا بھی دل بھر آیا میں نے کہا بیٹیاں تو جانے کے لئے ہی انسان پالتا ہے۔ بس جہاں رہو مجھے دعا میں یاد رکھنا۔
کچھ عرصہ قبل ایک نامعلوم نمبر سے مجھے کال آئی۔ جب اٹھائی تو وہی بچی تھی۔ بولی سر آپ کو پتہ ہے میری کل منگنی ہے اور لڑکا مرچنٹ نیوی میں ہے اور میری شادی کے بعد میں کراچی چلی جاؤں گی۔ مجھے واقعی خوشی ہوئی دعا دی اور فون بند کر دیا۔ یہ بچی کشمیری پنجابی فیملی سے تھی۔
3۔ ہمارے دفتر نے سوشل موبالئیزر کی پوسٹ کا اشتہار دیا۔ مطلوبہ تعلیمی قابلیت BA، BS تھی۔ انٹرویو میں بہت سے بچے آئے چونکہ پشتو زبان کی مہارت درکار تھی تو صرف ان بچوں کو شارٹ لسٹ کیا جو پشتون قبائل سے تھے۔ چونکہ یہ میری پوزیشن اور ٹریننگ کا حصہ ہے کہ میں انٹرویو میں آنے والے امیدوار کا کھڑے ہو کر استقبال کرتا ہوں اور سبز چائے ضرور پیش کرتا ہوں۔
اگر امیدوار زیادہ ہوں تو ریسیپشن پر چائے سے تواضع ضرور کرتا ہوں کیونکہ اپنی زندگی کے چند تلخ تجربات میں سے تمام دن بھوکا پیاسا انٹرویو کے لئے انتظار کرنا بھی ہے۔ اسی دوران ایک لمبا، دبلا پتلا لڑکا کمرے میں داخل ہوا۔ لمبے بال پیچھے کی طرف بنائے ہوئے تھے بلکہ چپکاے ہوئے تھے۔ ایک کان میں بالی تھی۔ بازو شائد زیادہ لمبے تھے کہ سفید قمیض کے cufflinks کھلے ہوئے تھے۔ مجھے ایک نظر نہ بھایا اور میں سمجھ گیا یہ ٹائم پاس ہے۔
خیر میں نے کھڑے ہو کر ہاتھ آگے کیا۔ جب اس نے مجھ سے ہاتھ ملایا تو اس کے ہاتھوں میں مجھے کپکپاہٹ محسوس ہوئی۔ بیٹھنے کا کہا اور اس کا ٹیسٹ دیکھا جو کہ ایک سادہ درخواست تھی انگریزی میں۔ کافی بہتر انگریزی میں لکھی تھی۔ میں نے اسے کہا یہ تم نے لکھی ہے۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا میں نے کہا کہ تمہیں چیک کروں ابھی لکھوا کر وہ بولا۔ بالکل سر۔ اتنے میں میرا سپورٹ اسٹاف چائے لے آیا اور میں اس سے ضروری معلومات پر انٹر ویو کرنے لگا۔
میں نے اس کی آنکھوں کی حرکت سے محسوس کیا کہ وہ بار بار چائے کی طرف غیر ارادی طور پر دیکھتا ہے۔ میں نے اسے کہا۔ سوری جنٹل مین میں نے آپ کو چائے پینے کا نہیں کہا۔ پلیز چائے پی لیں۔ اس نے جلدی سے چائے کی طرف ہاتھ بڑھایا اور کپ کو اٹھایا ہاتھ کی کپکپی کی وجہ سے کپ کی چائے اس کے کپڑوں پر گر گئی۔ وہ بوکھلاہٹ میں کھڑا ہوا اور اس نے اپنا سر پکڑ لیا جیسے اسے چکر آیا ہو۔ میں تیزی سے اٹھا اور اس کو پکڑا۔ بٹھایا اور کہا تم شاید نروس ہو رہے ہو۔ پریشاں مت ہو۔
اس نے میری طرف دیکھا اور التجائیہ انداز میں بولا سر مجھے نوکری کی بہت ضرورت ہے۔ پلیز مجھے یہ نوکری دے دو۔ میں نے اسے دلاسہ دیا اور کہا اچھا لیکن کیوں یہاں آنے والے سب ہی ضرورت مند ہیں۔ وہ بولا سر میرا باپ فلاں علاقے کا زمیندار ہے اس سال بارشوں کے نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے گھر میں روٹی کے پیسے نہیں۔ میں یہاں یونیورسٹی کے ہاسٹل میں چھپ کر رہتا ہوں۔ قسم کھاتا ہوں میں دو دن سے صرف پانی پی کر گزارہ کر رہا ہوں۔
کھانا تو دور کی بات یہ جو آپ چائے دے رہے تھے۔ دو دن میں یہ پہلا کپ تھا وہ بھی قسمت سے بہہ گیا۔ اس کی پٹھان موٹی موٹی آنکھوں میں نمی آ گئی۔ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا کہا۔ آرام سے بیٹھو!سنو! یہ نوکری تمہارے علاقے کے عوامی MPA کے بھتیجے کو دے دی گئی ہے ہم صرف فارمیلٹی پوری کر رہے ہیں۔ وہ بولا سر! جو طلبہ کے لئے زکواۃ آتی ہے، جو وظائف آتے ہیں یہ امیروں کے بچے لے جاتے ہیں پھر شام کو بیئر پارٹیاں کرتے ہیں۔
یہ وظائف دینے والے ملی بھگت سے اپنے چاہنے والوں یا کمیشن دینے والوں کو یہ پیسے نکلوا دیتے ہیں اور ہم لوگ بھوک سے مرتے ہیں یا پھر وہ چند بچے حاصل کر لیتے ہیں جو extraordinary پڑھنے والے ہوتے ہیں۔ ہم جیسے لوگ جو اچھی تعلیم کے لئے گھروں سے نکلتے ہیں نہ واپس گھر منہ دکھانے کے لائق ہوتے ہیں اور نہ دنیا کو۔ میں کیا کروں اس نے سر پکڑ لیا۔ میں نے اسے کہا تم باہر بیٹھو چائے پیو۔ دوپہر کو ہم ساتھ کھانا کھائیں گے۔
میرا ایک سپورٹ اسٹاف(peon) اصغر اسی لڑکے کے علاقے کا تھا۔ اس سے میں نے اس کے خاندان کی معلومات لیں تو پتہ چلا کہ ایک عزت دار گھر کا لڑکا ہے۔ خیر جب میں نے اسی سپورٹ اسٹاف کو کہا کہ اسے بلا کر لاؤ تو وہ ہنس کے کہنے لگا۔ سر! یہ جن ہے دو کپ چائے اور ایک پلیٹ بسکٹ کھا گیا ہے۔ ابھی آپ اسے کھانے پر بلا رہے ہیں۔ خیر ہم نے کھانا ساتھ کھایا۔ اس لڑکے کو میں نے کہا تم MS کرو۔ تعلیمی اخراجات اور گھر کو 10000 ہر ماہ بھیجنا میرے ذمہ۔
جب تمہاری نوکری لگے تو مجھے پیسے دے دینا۔ اس نے بہت شکریہ ادا کیا۔ اس کے بنیادی لوازمات پورے کئے گئے۔ سال کے بعد وہ میرے پاس آیا بہت مشکور تھا۔ بتا رہا تھا کہ اس کی آسٹریلین فل برائٹ اسکالر شپ ہو گئی ہے۔ اب وہ باہر جا رہا ہے اور آئندہ کے لئے مجھے کسی بھی قسم کی خدمت کے لئے منع کر دیا، اور بولا کہ آپ کا احسان مجھے یاد رہے گا۔ یہ لڑکا صوبہ بلوچستان کا پٹھان تھا۔
4۔ میں کسی دفتر میں لیڈرشپ اور مستعد دفتری معاملات پر ٹریننگ کرا رہا تھا۔ جب میں نے سب کو ایک تخیلاتی ماحول بنانےکو کہا تاکہ وہاں خود کو محسوس کریں، تو ان کی کیا خواہش ہو گی؟ تو اس اسٹاف میں ایک خاتوں پہلے تو بولنا نہی چاہتی تھیں۔ بمشکل بولی تو صرف اتنا بولی میں چاہتی ہوں کہ ایک خاموش جگہ ہو کوئی فکر نہ ہو، نہ کھانے پینے کی نہ کوئی پریشانی ہو اور میرے بابا میرے ساتھ ہوں۔ ہم دونوں بس سکون سے رہیں۔
یہ خاتون MSc agriculture تھی۔ لیکن ریسپشنسٹ کی پوزیشن پر کچھ دن پہلے جوائن کیا تھا۔ میں نے HR آفیسر سے کہا میری ایک میٹنگ اس ٹریننگ کے بعد اگر اس خاتون سے ہو سکے تو بہتر ہو گا۔ جب میں اس خاتون سے ملا تو وہ پہلے اکیلے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھی۔ میں نے اسے مطمئن کیا اور اس کے اس جواب کا مطلب پوچھا کہ ایسا جواب آپ نے میٹنگ میں کیوں دیا؟ تو وہ کچھ دیر سوچنے کے بعد بولی۔ سر! میرے بابا رکشہ چلاتے ہیں ہم 7 بہن بھائی ہیں۔
بابا نے ہم سب کو پڑھایا ہے۔ میرے بھائی کچھ بھی نہیں کرتے ایم اےکرنے کے بعد نوکری نہ ملنے پر وہ نشہ کرتے ہیں۔ چھوٹی بہنیں پڑھ رہی ہیں۔ میں نے رو دھو کر MSc کیا ہے اور MSc کے لئے مجھے بلوچستان کی فلاں یونیورسٹی کے ہاسٹل میں رہنا پڑتا تھا۔ ہاسٹل کا ماحول اور اس زمانے میں بلوچستان یونیورسٹی میں جنسی زیادتی کے اسکینڈلز نے مجھے بہت ڈرا دیا تھا۔ میں صرف اپنے کام سے کام رکھتی تھی۔ ہاسٹل میں جانے کے بعد میں بس کمرے میں ہی رہتی۔