Tuesday, 14 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Saleem Zaman/
  4. Mujhe Chancellor Ya Chief Justice Se Koi Umeed Nahi (1)

Mujhe Chancellor Ya Chief Justice Se Koi Umeed Nahi (1)

مجھے چانسلر یا چیف جسٹس سے کوئی امید نہیں (1)

جی بالکل۔ مجھے بلوچستان میں موجود یونیورسٹیز کے چانسلر یعنی (گورنر بلوچستان) سے کوئی امید نہیں۔ مجھے چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ سے بھی کوئی امید نہیں۔ آج کا مقدمہ میں انہی اداروں میں پڑھنے والے اپنے نوجوان بچوں کی عدالت میں پیش کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے یہ مسائل، یہ نوجوان ضرور حل کر لیں گے۔ اس سے قبل کہ میں مسائل کی فہرست پیش کروں میں اپنے ساتھ گزرے چند واقعات بطور تمہید پیش کرنا چاہوں گا۔

1۔ کچھ عرصہ قبل مجھے دفتر جانا تھا اور گاڑی کا انتظام نہیں تھا، بھانجے نے "کریم کی ٹیکسی" بک کرا دی۔ وہ ایک نوجوان لڑکا تھا، بہت محبت اور اخلاق سے پیش آیا۔ میرا لیپ ٹاپ اس نے اٹھا لیا اور ہم چل پڑے میں نے محسوس کیا کہ لڑکا کچھ پریشان ہے خود کلامی کرتا ہے، اور کولڈ ڈرنک کی ایک پرانی بوتل میں پانی ہے جو ٹھنڈا بھی نہیں اس سے بار بار گھونٹ بھرتا ہے۔ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا۔ بیٹا! پریشان ہو؟ وہ بولا جی۔ بالکل۔

میں نے کہا اگر مجھ سے شئیر کرو تو وہ بولا سر، فائدہ نہیں۔ آپ نے نہیں دیکھا لوگ ہر بات سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں۔ مدد کے بہانے لوگ آ جاتے ہیں اور بندے کو رسوا کر جاتے ہیں۔ میں نے کہا نہیں۔ نہیں۔ میں ایک سنجیدہ اور معمر شخص ہوں مذاق نہی کر رہا۔ اگر تمہارے کام نہ آ سکا تو تمہاری پریشانی شئیر کرنے سے دل تو ہلکا ہو جائے گا۔ وہ شائد اپنا پیمانہ صبر لبریز کئے تھا۔ بولا۔ سر میں Bs computer کر رہا ہوں۔ دو سمسٹر کی فیس نہیں دے سکا۔ اب امتحان بھی نہیں دینے دے رہے۔

میں سمجھا کہ لڑکے ایسے ہی کماتے ہیں۔ تو میں نے کہا کہ یہ ٹیکسی تو اچھا خاصہ پیسا دے دیتی ہو گی اور یونیورسٹیوں میں تو ہونہار طالب علموں کو اچھے نمبر ملنے پر اسکالر شپ یا فیس معافی مل جاتے ہیں۔ وہ بولا۔ بالکل سر۔ لیکن میں اگر 100 % اسکالر شپ بھی لے لوں تو بھی میں یونیورستی 9 سے 5 بجے تک نہیں جا سکتا۔ کیونکہ میرا والد کینسر کا مریض ہے ڈاکٹروں نے کہا ہے اسے گھر لے جاؤ۔ گورنمنٹ ملازم تھا۔ دفتر والے نہ اس کو پنشن پر کر رہے ہیں نہ ہی اس کے علاج کے پیسے دے رہے ہیں۔

میری والدہ نے بہن کا جو جہیز بنایا تھا اس کے کپڑے اور سامان بیچ کر گھر اور والد کا خرچہ اٹھا رہی ہے۔ مجھے ابھی دو مہینے سے یہ ایک بندے کی گاڑی ملی ہے کیونکہ میرا لائسنس 18 سال کی عمر سے پہلے نہیں بن رہا تھا۔ ابھی 4 ہزار روپے دے کر بنوایا ہے تو یہ نوکری ملی ہے۔ اس میں بھی 15000 مجھے مہینے کے مالک دیتا ہے اور یقین کریں میں خود پر ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کرتا۔

کوئی ٹپ دے دے تو روٹی کھا لیتا ہوں ورنہ پانی پی کر سارا دن گزارتا ہوں، یہ کریم والے کہہ رہے ہیں کہ 4 ہزار رائیڈز پوری کر لوں تو وہ ایک لاکھ قرض دیں گے جس کے بعد اسی کریم سے گاڑی میرے نام فنانس ہو جائے گی۔ اسی لئے اپنی رائیڈز پوری کر رہا ہوں۔ میری طرح کے لڑکے 4 GPA کیسے لے سکتے ہیں؟ کالج بھی تباہ، گھر سے بھی بے عزتی سمجھ نہیں آتی کیا کروں؟ دل کرتا ہے خود کو مار لوں مگر ڈرتا ہوں ماں میرے کفن دفن کا انتظام کہاں سے کرے گی؟ یہ کہتے ہوئے اس کی آواز بھر آئی۔

میں کچھ دیر خاموش رہا، پھر میں نے اسے کہا کہ اگر میں تمہیں ایک لاکھ دوں تو تم میرا قرضہ کب تک اتار لو گے؟ اس کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ گاڑی روک کر بولا سر ایک سال کے اندر اندر۔ میرا آپ سے وعدہ ہے پھر اداس ہو گیا اور بولا، لیکن آپ مجھے کیوں پیسے دیں گے؟ آپ تو مجھے جانتے ہی نہیں۔

میں نے فیصلہ کن انداز سے کہا۔ خیر ہے نہیں جانتا۔ ابھی دوں گا۔ تم مجھے بس اپنا بنک اکاؤنٹ بھیجو۔ وہ بولا سر بنک اکاؤنٹ تو نہیں۔ دوست کا دے دوں؟

میں نے کہا دوست اگر بھروسے والا ہے تو دے دو۔ وہ بولا بہت اچھا بندہ ہے۔ میرا بہت خیال رکھتا ہے۔

میں نے کہا اچھا اب یہ بتاؤ کھانا کھایا ہے؟ وہ خاموش ہو گیا۔ میں سمجھ گیا۔ میں بھی خاموش ہو گیا۔ ایک بیکری کے پاس میں نے اسے کہا گاڑی روکو اور اس بیکری سے کچھ سامان خریدا اور اس نے مجھے دفتر ڈراپ کیا۔ ہم نے فون نمبرز کا تبادلہ کیا۔ وہ بیکری کے سامان کا تھیلا میں نے اسے دیا اور اس کی مطلوبہ رقم اسے دے دی۔ دفتر پہنچا تو اس کا میسیج آ چکا تھا جس میں اکاؤنٹ نمبر تھا۔ میں نے دوست کو کہا کہ اس کے اکاؤنٹ میں ایک لاکھ بھیج دو اور یہ تمہارا مجھ پر ادھار رہا تنخواہ آتے ہی دے دوں گا۔

خیر قصہ مختصر اس لڑکے نے کریم کمپنی سے گاڑی فنانس کرائی۔ دس ہزار روپے مہینہ مجھے بھیجتا رہا۔ پھر ایک دن اس نے مجھے بہت دکھی، بہت روتے ہوئے فون کیا کہ اس کے بابا اب دنیا میں نہیں رہے۔ تب تک اس کے میرے پاس 50 ہزار روپے آ چکے تھے جو میں نے اسے دوبارہ دے دئے اور بتایا کہ یہ پیسے میں تم سے لینا نہیں چاہتا تھا صرف تمہاری آزمائش کر رہا تھا۔ مجھے تم سے کچھ نہیں چاہئے، یہ ایک اہل تشیع لڑکا تھا۔

2۔ ایک دن میں دفتر میں بیٹھا تھا کہ گارڈ کا فون آیا کہ سر یہ کسی کالج کی لڑکی آئی ہے۔ کہتی ہے کسی سے بھی ملا دو مجھے کام ہے۔ کیا کروں؟ میں نے کہا واپس بھیج دو کہو سب مصروف ہیں۔ کچھ دیر بعد میری cctv کیمرہ اسکرین پر نظر پڑی تو وہ لڑکی گارڈ روم کے ساتھ نیچے بیٹھی ہوئی تھی۔ میں نے گارڈ کو فون کیا کہ یہ گئی کیوں نہیں؟ تو وہ بولا، سر! بہت شور کر رہی ہے کہ مل کر جاؤں گی ورنہ 5 بجے تک یہیں بیٹھوں گی۔

میں نے کہا اسے میرے کمرے میں لے آو۔ وہ لے آیا۔ کمرے میں داخل ہونے سے پہلے بچی نے اجازت طلب کی۔ تو میں احتراماََ کھڑا ہوا، اسے بیٹھنے کو کہا۔ اس پر ایک نظر ڈالی تو سفید یونیفارم میں تھی اور وہ یونیفارم بھی پرانا ہونے کی وجہ سے پیلاہٹ مائل تھا۔ جوتوں پر بہت مٹی تھی اور جوگر بھی شائد آخری مراحل میں تھے۔ دیکھنے سے لگتا تھا کہ بچی کافی پیدل چل کر آئی ہے۔ چہرے کی طرف دیکھا تو ہونٹ خشک اور ماتھے پر دوپٹے کے نیچے پسینے کے نشان شائد گرمی اور مٹی کی وجہ سے۔ بچی نہایت قبول صورت تھی۔

میں نے اٹھ کر اسے ایک گلاس پانی دیا۔ جو اس نے شکریہ سے لیا اور جلدی سے پی گئی۔

جی بیٹا! کیوں فساد کر رہی ہیں کیا بات ہو گئی؟ میں نے پوچھا۔

وہ بولی سر۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ NGOs بچوں کی تعلیم کے خرچ اٹھاتی ہیں۔ اس لئے آئی ہوں۔

میں نے کہا۔ ہر NGO نہیں مخصوص ادارے ایسا کام کرتے ہیں۔ لیکن کیوں؟

وہ بولی مجھے پڑھنا ہے اور میرے بابا کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ مجھے ہر حال میں اپنا BBA مکمل کرنا ہے اور MBA کرنا ہے۔ مجھے پیسے چاہئیں۔ مجھے اس NGO کا پتہ دیں جو پڑھائے اور فنڈ دے۔

ان دنوں بلوچستان ایجوکیشن انڈاومنٹ فنڈ BEEF کا قیام ہو چکا تھا اور اس کا سیکرٹری میرا ایک پرانا دوست تھا۔ لیکن مجھے نیچے کے اسٹاف کے حالات کا علم تھا تو میں نے اس بچی سے کہا کہ تم چائے پیو گی؟ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔ میں نے چائے منگوائی وہ چائے اور بسکٹوں پر ٹوٹ پڑی۔ میں نے اس سے پوچھا تمہارے بابا کیا کرتے ہیں؟ وہ بولی AG OFFICE میں ہوتے ہیں ابھی ریٹائرمنٹ لے لی ہے۔ کہتے ہیں میرے پاس جو تھا خرچ کر لیا اب بیٹیوں کو پڑھانے کے پیسے نہی۔

میں سوچ میں پڑ گیا کہ AG office کا بندہ اور ایسا کہے کوئی دو نمبری ہو گی اس بچی کی۔ ورنہ باپ ایسا کیوں کہے گا؟ دوسرا مجھے یہ سوچ آئی کہ یہ بچی جذباتی ہے شکر ہے یہاں آ گئی ہے کسی اور کے ہاتھ لگتی تو وہ شائد اسے آمدن کا کوئی اور ذریعہ سکھا دیتا۔ میں بہانہ بناتے ہوئے اٹھا کہ اپنے صاحب سے پوچھ کر آتا ہوں کہ ہم تمہاری کیا مدد کر سکتے ہیں؟ کچھ دیر بعد میں کمرے میں آیا اور اس بچی سے کہا کہ صاحب کہہ رہے ہیں کہ وہ BBA کی فیس مکمل کرا دیں گے۔

لیکن شرط یہ ہے کہ کل آپ کے ابو آئیں اور مجھ سے ملیں اور ساتھ ہی فریش فیس سلپ بھی لائیں۔ وہ تو خوشی سے کھڑی ہو گئی۔ ٹھیک ہے سر۔ میں نے اپنی Receptionist کو آواز دی کہ شاہدہ، یہ بچی کل آئے گی اس کو مجھ سے ضرور ملوا دینا۔ اس کا کنٹیکٹ لے لو۔ یہ ایک پیمانہ تھا کہ اگر کل اپنے باپ کو لے آتی ہے تو ٹھیک ورنہ جو دل میں آئے کرتی پھرے۔

دوسرے دن میں 11 بجے آفس آیا تو میری Receptionist نے بتایا کہ سر وہ بچی صبح دس بجے سے اپنے والد کے ہمراہ انتظار کر رہی ہے۔ میں نے کہا بلا لاؤ۔ اس کا والد ایک سلجھا ہوا پنجابی اسپیکنگ بندہ تھا۔ تعارف پر پتہ چلا کہ وہ ایک بہت چھوٹے عہدے پر AG آفس بلوچستان میں کام کر رہا تھا اور تعصب کا شکار افسران اسے ذلیل کرتے اور کئی اسے یہ دھمکی دیتے کہ اوئے پنجابی تمہاری لاش کا بھی پتہ نہیں چلے گا۔

لہٰذا اس نے ان حالات میں دنیا کمانے کی بجائے آخرت کو ترجیح دی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کئی مرتبہ وہ اور اس کا خاندان نان شبینہ کا بھی محتاج رہا۔ جلد ریٹائرمنٹ اس لئے بھی لی کہ بڑی بیٹی کی شادی کرنا تھی۔ بیٹے پڑھتے ہیں ایک MA کر کے، ایک ڈاکٹر کے کلینک پر مریضوں کو نمبر دیتا ہے مطلب چپڑاسی ہے جبکہ دوسرا BA کرنے کے بعد اب رکشہ چلا رہا ہے۔

Check Also

Zindagi Mein Kuaa Ban-Na Hai Ya Shaheen?

By Azhar Hussain Azmi