Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saleem Zaman
  4. Maut Ka Zaiqa Nafs Ko Chakhna Hai

Maut Ka Zaiqa Nafs Ko Chakhna Hai

موت کا ذائقہ نفس کو چکھنا ہے

قرآن مجید میں یہ آیت "كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِ" تین مختلف سورتوں میں بیان ہوئی ہے۔ اس آیت کا عام فہم معنی ہیں کہ ہر متنفس (جو چیز سانس لیتی ہے) کو مرنا ہے۔

اس آیت کو سمجھنے سے پہلے ان تینوں مقامات پر اس کی شان نزول جاننا ضروری ہے۔

پہلا مقام سورہ آل عمران میں آیت نمبر 185 ہے۔ جہاں اس آیت کے بعد کا مضمون بہت اہم ہے۔ جس میں""كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِ" فرما کر اس کے بعد ارشاد ہے کہ (اور تمہارے اجر پورے کے پورے تو قیامت کے دن ہی دئیے جائیں گے، پس جو کوئی دوزخ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہ واقعۃً کامیاب ہوگیا، اور دنیا کی زندگی دھوکے کے مال کے سوا کچھ بھی نہیں)۔

دوسرا مقام سورہ الانبیاء میں آیت نمبر 35 ہے کہ (ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور ہم تمہیں برائی اور بھلائی میں آزمائش کے لئے مبتلا کرتے ہیں، اور تم ہماری ہی طرف پلٹائے جاؤ گے)۔

اور تیسرا مقام سورہ عنکبوت آیت 57 میں ہے کہ (ہر متنفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے، پھر ہماری ہی طرف تم سب کو واپس لایا جائے گا)۔

اگر آپ مندرجہ بالا آیات کا تسلسل دیکھیں تو موت کے ساتھ دنیا اور اس کی آزمائش کا ذکر خاص طور پر ہے۔ یعنی ہر سانس لیتی چیز پر موت ہے۔ لیکن میرے نزدیک "کل نفس ذائقہ الموت" سے مراد سانس لینے والا نہیں بلکہ "نفس" ہے۔ تب اس کا مطلب ہوگا کہ ہر چیز کا نفس ہے جس کی وجہ سے وہ قائم ہے اور دنیا میں نفسانی خواہشات (سوری میں غلط کہہ گیا خواہشات کی بجائے ضرورت) کے ساتھ چیزوں کو ایک دوسرے کے ساتھ باندھ دیا گیا ہے۔ جیسے سورہ آل عمران آیت 3 میں ارشاد ہے "لوگوں کے لئے ان خواہشات کی محبت (خوب) آراستہ کر دی گئی ہے (جن میں) عورتیں اور اولاد اور سونے اور چاندی کے جمع کئے ہوئے خزانے اور نشان کئے ہوئے خوبصورت گھوڑے اور مویشی اور کھیتی (شامل ہیں)، یہ (سب) دنیوی زندگی کا سامان ہے، اور اللہ کے پاس بہتر ٹھکانا ہے"۔

اب یہاں نفس سے جڑنے والی چیزیں مرغوب ہیں تو اگر ان چیزوں کی موت ہوگی تو یہ ہمارے لئے آزمائش کا باعث ہو جائیں گی۔ جیسے کسی انسان سے محبت بڑھتی جائے اور وہ مر جائے تو یہ ایک آزمائش اور اس پر صبر کا اجر ہے۔ اسی طرح کائنات مکمل طور پر اور اس سے اگنے والی چیزیں تمام نفس کی پسندیدہ ہیں۔ اب سونا اگر ہمارے پاس ہے اور پھل پھول رہا ہے تو خوشی اور اگر چھینا گیا یا لٹ گیا یا بک گیا تو ہمارے پاس مر گیا آب ہمیں اس کا سوگ ہے۔ اسی طرح زمین سے جتنی معدنیات نکلتی ہیں، ان سے ہماری ضروریات بناتی ہیں ہم ان کی محبت میں گرفتار ہوتے ہیں اللہ کریم انہیں چھین کر ہمارے پاس ان کی موت کرکے ہمیں آزماتے ہیں۔

یہ نئے موبائل فون، گاڑیاں، زیور گھڑیاں، معدنیات کی کانیں، زرعی اور دیگر زمینیں۔ سب پہلے ہمارے پاس پیدا ہوتی ہیں پھر پروں چڑھتی ہیں۔ بالکل جیسے اولاد پالی جاتی ہے (اولاد بھی نفس کا ایک مرغوب حصہ ہے) اور قران نے اولاد کو فتنہ کہا ہے اور دنیاوی زینت کا سامان بھی۔ پھر ان اشیاء جو نفس ہیں ان کی موت ہوتی ہے اور ہم پر جدائی کا ماتم طاری ہو جاتا ہے۔ اور ہم اسی موت سے خود کو دیوانہ بنا دیتے ہیں ان کی جدائی کا سوچ کر ہر جرم کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔

چلیں آپ کہیں گے یہاں متنفس کی موت کا ذکر ہے۔ مطلب ہر وہ چیز جو سانس لے اور میں بات گھما رہا ہوں۔ لیکن قرآن میں تو سانس لینے کے عمل میں صبح کے وقت کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

ترجمہ: اور صبح کی جب وہ سانس لے (التکویر 18)

اب صبح کا عمل تو کہیں سے ایسا نہیں لگتا ہے وہ سانس لیتا ہوگا۔ پھر جہنم کا ذکر ہے کہ وہ سانس لیتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایسی چیزیں جو دیکھنے میں بے جان لگتی ہیں وہ سانس بھی لیتی ہیں اور ان کی زندگی کا عمل ان کا قائم رہنا یا دوام ہے۔ یعنی

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشاں ہونا

اب اس بات سے یہ ثابت ہوا کہ ہر چیز جو بکھر جائے۔ ٹوٹ جائے، گل سڑ جائے۔ وہ سب نفس ہیں اور ایک وقت مخصوص پر پیدا ہوئے اور وقت مخصوص پر فنا ہو جائیں گے۔ لہذا صبح بھی فنا ہو جائے گی۔

جب ہم خاتمہ بالخیر یا عزت کی موت مانگتے ہیں باوجود اس کے کہ ہم نے ہر طرح کی خباثت کی ہو تو موت کا تعین نفس کے اعمال جیسا ہوگا۔ روح کے ساتھ نہیں۔ نفس جن چیزوں کے ساتھ زندگی گزارے گا اس کا خاتمہ اسی طرز کا ہوگا۔ کیونکہ دنیا میں عارضی چیز نفس ہے۔ اب چاہے وہ جانوروں کا، انسانوں کا ہو، جنوں کا یا فرشتوں کا سب کو موت آئے گی۔ روح واپس اصل کی طرف چلی جائے گی۔ لیکن نفس کا بوجھ اسے جہنم یا جنت میں لے کر جائے گا۔

نفس روح کا لباس ہے۔ جیسے لباس پھٹ جاتے ہیں تبدیل کرنے پڑتے ہیں لہذا روح نفس کو استعمال کرتی ہے اسے بوسیدہ کرتی ہے اس پر پیوند لگاتی ہے۔ اسی طرح کائنات میں صرف میاں کا بیوی کا اور بیوی کو میاں کا لباس کہا ہے یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح ایک طاقتور، کامیاب خوبصورت وفادار ہو ہی نہیں سکتا جب تک دوسرا اسے سجا سنوار کر نہ پہنے۔ اگر یہاں تک آپ متفق ہیں تو۔

صبح کی طرح رشتے بھی نفس ہیں۔ جنہیں ہم صلہ رحمی، محبت، خلوص سے جوڑتے ہیں اور ان کی موت ضد، انا، لالچ، بہتان، تہمتوں سے ہوتی ہے۔

چاہے ہم محبت کریں، دوستی کریں، یا کسی رشتے میں بندھیں۔ شروع میں یہ پیدا ہوتے ہیں پھر پروان چڑھائے جاتے ہیں جیسے اولاد کو بڑا کیا جاتا ہے پھر آہستہ آہستہ انہیں بھی بیماریاں لگنا شروع ہو جاتی ہیں۔ منافقت کی، لالچ کی، ضد کی انا کی۔ پھر یہ گلنا سڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔ پھر بدبودار اتنے کہ ساتھ رہنا بھی گوارہ نہ ہو اور پھر ان رشتوں، محبتوں اور دوستیوں کی بھی موت ہو جاتی ہے۔ لیکن جب ہم رشتے بناتے ہیں تو یہ نہیں مانتے کہ یہ رشتے بھی مر جائیں گے۔ یہ نفس کے تعلق ہیں اس لئے "کل نفس ذائقہ الموت" ہوگا۔ بالکل اسی طرح جیسے ہمیں اپنے مرنے کا یقین نہیں۔ کاش ہم جس طرح سمجھدار ہوتے جاتے ہیں تو اپنے موت خیر وبرکت کی مانگتے ہیں حالانکہ موت ہماری زندگی کا عکس ہے۔ اگر اللہ کریم کا کرم نہ ہو تو ہم سے ہر ایک کی موت نفس کی کسی خواہش کی پیروی میں ہی ہو جائے۔ یہی سورہ تکاثر کی پہلی آیت کا مفہوم ہے۔ "کہ تمہیں کثرت (کی ہوس) نے غافل کر رکھا ہے"۔

تو جس طرح ہم ہر خرابی کے بعد بھی خاتمہ بالایمان اور خاتمہ بالخیر کی شدید خواہش رکھتے ہیں کاش ہم ہر رشتے کو بھی خاتمہ بالخیر کی طرف لے کر جائیں۔ کیونکہ باقی تو صرف خدا کی ذات نے رہنا ہے۔ اس کے علاوہ ہر چیز کو فنا ہونا ہے۔ چاہے اعمال ہوں، دولت ہو، اولاد ہو، جائیداد ہو یا جذبات۔ کامیاب وہ شخص ہے جو اپنی موت سے قبل ہر فنا کو خاتمہ بالخیر کی طرف لے جائے۔ تب مالک اسے بھی خاتمہ بالخیر کی توفیق نصیب فرمائیں گے۔

Check Also

Netherlands

By Zaigham Qadeer