Tuesday, 14 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Saleem Zaman/
  4. Kabootar Baz, Shahbaz, Oont Aur Bandar

Kabootar Baz, Shahbaz, Oont Aur Bandar

کبوترباز، شہباز، اونٹ اور بندر

کچھ دن قبل ابھی نیا پاکستان ہی تھا اور ہم نے واپس پرانے پاکستان میں لینڈ نہی کیا تھا۔۔ مجھے ایک بہت بڑے حکومتی ادارے سے انٹر ویو کے لئے شارٹ لسٹ کئے جانے کی ایک خفیہ سی کال آئی۔۔ حالانکہ کال تمام شارٹ لسٹ ہونے والے امیدواروں کو کی گئی تھی لیکن انداز ایسا تھا کہ جیسے موصوفہ کہہ رہی ہوں کہ۔۔ محترم آپ نے آنا ہے مگر کسی کو بتانا نہیں۔۔

اللہ کمی بیشی معاف فرمائیں کوئی 5 کالیں آئیں۔ آخری کال میں حکم تھا اپنا ای میل ایڈریس دیں۔۔ ڈرتے ڈرتے عرض کیا کہ وہ تو CV میں سب سے اوپر لکھا ہوا ہے۔۔ بہرکیف خاتون نے زیادہ فری نہیں ہونے دیا۔۔ اور مجھے مطلوبہ معلومات دینی پڑیں۔۔ پھر مجھے ای میل بھی آگئی۔۔ ای میل دیکھ کر میرے بھی ہوش اڑ گئے کہ صوبے کے سب بڑے انتظامی افسر کے دربار میں میری جانچ پڑتال ہو گی۔۔

چونکہ یہ ابھی تک نیا والا پاکستان تھا تو بے دھڑک صوبے کے سب سے بڑے انتظامی دفتر میں مطلوبہ وقت پر حاضر ہو گیا۔۔ یہ ایک علیحدہ واقعہ ہے کہ ان دروازوں اور راہداریوں سے کیسے گزر کر پہنچا مگر پہنچ گیا۔۔ چار بڑی انتظامی پوسٹوں پر کنٹریکٹ بنایا پر ایک ہی دن انٹرویو رکھے گئے۔۔ اور شائد 60 کے قریب وہ امیدوار تھے جن کا کم از ک۔ تجربہ 25 سے 30 سال ہو گا۔۔ کچھ ریٹائرڈ بڑے آفیسر بھی تھے۔ کچھ اپنی پروفیشنل زندگی کی آخری سیڑھیوں پر تھے۔۔ لیکن سب بڑے آفیسر کے کمرے کے باہر گیلیریوں میں ٹہل رہے تھے۔ جو ان کے پرائیوٹ سیکرٹری کے کمرے میں سما سکتے تھے وہ سب ماسک لگائے کولہے جوڑے بیٹھے تھے۔۔

تب کسی کو خیال آیا کہ یہ بھی تمام بڑے بوڑھے ہیں انہیں بھی بٹھایا جائے۔۔ تو ادھر ادھر کمروں میں ایڈجسٹمنٹ کی جانے لگی۔۔ میں جس شہر میں میں رہتا ہوں میری بدقسمتی کہ اس کا درجہ حرارت اپریل میں بھی دن میں مشکل سے 20 ہوتا ہے۔۔ لیکن جس کمرہ میں مجھے چند اور جہاندیدہ اور مشاق امیدواروں کے ساتھ بٹھایا گیا وہ ان سب سے بڑے انتظامی آفیسر کے بعد دوسرے درجے پر تھے۔ نہائت شاندار اور پرشکوہ دفتر تھا۔

صاب ابھی آئے نہیں تھے مگر 40 انچ کا ٹی وی زور وشور سے ملکی گرما گرمی پر بحث کر رہا تھا۔ چونکہ اب ایک پرانی ہڈی ہوں کمرے میں داخل ہوتے ہی مجھ پر کپکپی سے طاری ہو گئی۔۔ شروع میں تو مجھے لگا کہ شائد بڑے افسر کے کمرے کی ہیبت ہے۔۔ اور انٹرویو کا ڈر مگر جب سب ہی بوڑھی ہڈیوں نے چی میگوئیاں شروع کیں، تو احساس ہوا کہ بڑے صاحب کے کمرے کا اے سی صبح 9 بجے سے 19 ڈگری پر چل رہا تھا۔۔ اور ابھی صرف 11 بجے تھے۔۔

خیر ان کے سپورٹ اسٹاف کو ڈھونڈ کر عرض کی کہ بھائی یہ بند کر دو تو اس نے A/C مزید ٹھنڈا یعنی 16 ڈگری پر کر دیا۔۔ اور میری طرف بے بسی سے دیکھتے ہوئے بولا اس سے کم نہیں ہوتا۔۔ میری آنکھوں میں اترا تو خون مگر سردی کی وجہ سے آنسو بن گیا۔۔ میں نے کہا یار 26 پر کر دو۔۔ اسے یقین نہیں آیا۔۔ لیکن جب سے نے اصرار کیا تو بادل نخواستہ اس نے A/C 26 پر کر دیا۔۔

کچھ اوسان بحال ہونا شروع ہوئے۔۔ تو احساس ہوا کہ اتنے زیرک امیدوار وہ بھی 50 یا 60 تو گھر پر بتا دوں کہ رات کا کھانا کھا لیں مجھے دیر ہو جائے گی۔۔ کچھ ادنی افسران نے احتجاج کیا کہ ایک ہی دن میں یہ نبٹانا کیا ضروری تھا۔۔ تو جواب آیا کہ سیاسی پارہ بہت بلند ہے۔۔ اور بڑے صاب کو پھر اسمبلی کی کاروائی پر بھی جانا ہوتا ہے۔۔ تو ہم سب سہم گئے۔۔

خیر خدا خدا کر کے سوا گیارہ بجے انٹرویو شروع ہوئے۔۔ میرا نمبر شائد درمیان میں ہو گا۔۔ تو 12 بجے ہی مجھے بلایا گیا۔۔ اب آپ ضد کریں گے کہ یہ میرا انٹرویو کس پوزیشن کے لئے تھا۔۔ ویسے تو مجھے بتاتے ہوئے شرم آتی ہے لیکن چلیں اب آپ سے کیا پردہ۔۔

میں دراصل بچپن سے کبوتر بازی کا شوقین ہوں۔۔ آگے چل کر یہی پیشہ اپنایا۔۔ کبوتر پالنا، انہیں ہا ہا ہا کر کے سارا دن اڑانا، پھر شام کو ان کا رہ تکنا۔۔ لوگوں کے کبوتر چوری کرنا یہ سب میری زندگی کے تجربات ہیں۔۔ جب ماہر کبوتر باز کی پوسٹ اخبار میں دیکھی تو رہا نہیں گیا اور اپنی درخواست بھیج دی۔۔ مجھ سے غلطی یہ ہوئی کہ وہاں پر ایک اور پوسٹ لومڑیوں کے شکار اور ان کے گرد جال لگانے کی تھی۔۔ میں جال لگانے سے کبوتر پکڑنا سمجھا اور اس کے لئے بھی درخواست دے دی۔۔

جب دونوں پر شارٹ لسٹ ہو گیا تو مجھے اتنی شفافیت پر کچھ شک گزرا لیکن میں نے شک کو حسن اتفاق سمجھا۔۔ تو جیسے ہی کمرہ انٹرویو میں داخل ہوا۔۔ اور تین بڑے بلکہ بہت بڑے صاحبان کو اپنے سامنے یعنی ہاتھ کی دسترس سے بھی قریب پا کر میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ کر کمرے میں شور کرنے لگے۔۔ جنہیں چپڑاسی کی مدد سے کمرے سے باہر نکلوا دیا۔۔

اب سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو مجھے لگا کہ یہ لومڑیوں کے شکار کے متعلق سوال جواب ہیں۔ میں نے کم از کم 3 مرتبہ "صاحبان کن" یہ کن عربی والا ہے۔۔ بتایا کہ سر مجھ سے بھیانک غلطی ہو گئی مجھے پتہ نہیں تھا کہ آپ نےلومڑیوں کے شکاری مانگا تھا۔۔ میں تو کبوتر باز ہوں۔۔ ہمت نہی پڑی کہ پوچھتا کہ اسے بھی تو پوچھیں جس نے شارٹ لسٹ کیا ہے!

بس ماحول کی ہیبت سے چپ کر گیا۔۔ اچانک ایک بڑے صاب کو رحم آیا اور وہ بولے۔۔ تمہاری کبوتر بازی کے چرچے تمہاری درخواست سے واضح ہیں۔۔ تو چلو یہ بتاو۔ کہ۔۔ علامہ اقبال کا ایک شعر ہے۔۔

حمام و کبوتر کا بھُوکا نہیں مَیں

کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ

جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا

لہُو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ۔۔

اس شعر میں زاہدانہ زندگی کس کی ہے۔۔ اتنا آسان سوال تھا میں سمجھ گیا کہ میری سلیکشن کرنا چاہ رہے ہیں۔۔

میں نے پھر بھی کچھ توقف کر کے جواب دینا مناسب سمجھا کہ نادیدہ نہ لگوں۔۔ اور مسکراتے ہوئے بتایا کہ سر اس میں زاہدانہ زندگی "باز" کی ہے۔۔ چونکہ وہ سب بڑے افسران تھے اور مستقبل بین بھی لہذا۔۔ ایک صاب نے اعتراض اٹھایا کہ جناب آپ کو مخصوص نام لینا چاہئے تھا۔۔ باز تو عام ہیں۔۔ یہ تو علامہ صاحب نے "شہباز" کی تعریف کی تھی۔۔ خیر آپ کو جواب نہیں آیا۔۔ کوئی بات نہیں آپ جا سکتے ہیں۔۔

میں نے تھوڑی دیر غٹر غوں غٹر غوں کرنے کی کوشش کی کہ جناب میں تو کبوتر۔۔ بلکہ جیب سے ایک اعلی نسل کا کبوتر نکال کر دکھایا بھی۔۔ مگر انہوں نے شکریہ کے ساتھ مجھے باہر بھیج دیا۔۔ عمدہ بات یہ تھی کہ ایک گھنٹے کے اندر اندر ہم 30 کے قریب امیدوار نبٹا لئے گئے تھے۔۔ اورہم سمجھتے ہیں کہ بیوروکریسی کو کام نہیں آتا۔۔ کوئی بارہ بجے کے بعد ان راہداریوں میں گہماگہمی شروع ہوئی۔۔ میں نے اپنے ایک واقف سے پوچھا کہ یار یہ 12 بج رہے ہیں اور کمرے اب آباد ہو رہے ہیں۔ تو وہ بغیر حیرانگی بولا۔۔ ہاں یہ بلاک سب سے اہم ہے یہاں کام زیادہ ہوتا ہے تو یہاں افسران جلدی آجاتے ہیں۔۔

اوہ۔۔ اچھا۔۔ میرے منہ سے نکلا۔۔ باقی کب تک آتے ہیں؟ اس نے کہا یار تم کو کبوتر کا جواب نہیں آیا تھا نا۔۔ اور طوطے تمہارے انٹرویو سے قبل ہی کمرے سے نکال دئے تھے۔۔ اب برائے مہربانی گھر جاو۔۔ مجھے بیوروکریسی کی مستقبل بینی اور کشف کا یقین تب ہوا جب شہباز شریف دو دن بعد ہی وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔۔ میں سمجھ گیا کہ انہوں نے مجھ سے کیوں پوچھا تھا کہ بتاو؟ کس کی زندگی زاہدانہ ہے۔۔

شہباز شریف صاحب نے آتے ہی بیوروکریسی کی دوڑیں لگوا دی ہیں۔۔ اور ساتھ ہی ساتھ صبح 8 بجے سے تین بجے دفتر کے اوقات مقرر کر دئے ہیں اور ہفتے کی چھٹی بھی ختم فرما دی ہے۔۔ اب پاکستان دنیا سے 3 یا 4 گھنٹے زیادہ کام کرے گا۔۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے ہم چین کو پیچھے چھوڑ کر امریکہ کی خودمختاری کو للکارنے والے ہیں۔۔

کیونکہ پہلے ہم ہفتے کے 5 دن تمام A/C، TV لگا کر بجلیاں جلا کر دفتروں کو آباد کرنے کے بھی ساڑھے بارہ بجے آ کر ایک بجے نماز ظہر با جماعت کی تیاری اور پونے دو بجے دفتر کی مسجد سے واپسی کرتے ہوئے تین بجے تک گھر چلے جاتے تھے۔۔ اب ایک دن اور بڑھا دیا گیا ہے تو۔۔ اب 6 دن تمام ارسطو، بقراط اور سقراط ملکی حالات پر سیر حاصل بحث کر سکیں گے۔۔

واقعی ایک زاہد طبعیت (اس لئے کہ موصوف سب کچھ خدمت خلق کے جذبے سے کرتے ہیں پہلے خادم اعلی تھے اب پتہ نہی کون سا خطاب ملے گا بس یہی بتانا "مقصود" تھا۔۔ برائے مہربانی اب "مقصود" سے آپ چپڑاسی بالکل مت سمجھنا) وزیر اعظم ہی ان مسائل کو اچھے طریقے سے حل کر سکتا ہے۔۔ ویسا جتنا وقت اور اختیارات اس زاہدانہ طبعیت کے مالک وزیر اعظم کو پرانے سامان کے ساتھ دیا گیا ہے۔

مجھے وہ بندر یاد آگیا جس نے شیر کو بہت تنگ کیا کہ مجھے بھی کبھی موقع دو اور جنگل کا بادشاہ بناو۔۔ شیر نے جنگل کے سب مکینوں کو جمع کیا اور کہا کہ اب جنگل کا بادشاہ بندر ہو گا۔۔ ایک آدھ جانور نے احتجاج کرنے کی کوشش کی تو شیر نے اپنے دانتوں میں خلال شروع کر دیا۔۔ سب خاموش ہو گئے اور بندر جنگل کا بادشاہ بن گیا۔۔ شیر کو بھوک لگی تو اس نے ایک بندر کھا لیا۔۔ شیر کچھ بھی کر سکتا ہے کیونکہ وہی اصل طاقت کا سر چشمہ ہے۔۔

سب بندروں نے احتجاج شروع کر دیا اور محل کا گھیرا تنگ کرنا شروع کر دیا۔۔ بندروں کے سردار نے بادشاہ بندر سے پوچھا کہ تم نے جنگل کو انصاف فراہم نہی کیا۔۔ اور جنگل کے مسائل گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں۔۔ تو بادشاہ بندر نے تیزی سے ایک درخت سے دوسرے پر چھلانگ لگائی پھر کبھی درخت کے اوپر کبھی نیچے کبھی دائیں کبھی بائیں بھاگنا شروع کر دیا۔۔ باقی بندر یہ تماشہ دیکھتے رہے۔۔ اور خاموش رہے مگر لومڑی نے پوچھ لیا کہ حضور! یہ کیا کر رہے ہیں۔۔ تو وہ بولا دیکھ نہی رہی ہو۔۔ انتہائی محنت اور لگن سے مسائل کے حل کے لئے بھاگ دوڑ کر رہا ہوں۔۔ اب اس سے زیادہ اور کیا کروں۔۔

گزشتہ شب دادا ابو حقہ گڑگڑا رہے تھے۔۔ ٹی وی پہ عمران خان کا جلسہ چل رہا تھا۔۔ شہباز شریف کے جوڑ توڑ اور زرداری کی عیاریاں۔۔ مجھے دیکھ کر بولے۔۔ بچہ اونٹ سے کسی نے پوچھا اونٹ رے اونٹ۔۔ چڑھائی اچھی ہے یا اترائی۔۔ تو اونٹ بولا تینوں پر خدا کی پھٹکار۔۔

میں نے دادا ابو سے کہا۔۔ دادا جی۔۔ دونوں پر۔۔ یہ تیسرا کہاں سے آگیا!

تو دادا مسکرایا اور بولا یہ آج کا پڑھا لکھا اونٹ ہے اس نے تیسرا"کیچڑ" کو کہا ہے۔۔ اور قہقہہ مار کر حقے کو ایک لمبی گڑگڑاہٹ پر مجبور کر دیا۔۔

ان حالات کو دیکھتے ہوئے میں نے تہیہ کر لیا ہے کہ اپنے فن کبوتر بازی پر توجہ دوں گا۔۔ اور آنے والے دنوں میں گاندھی جی کے بندر کی طرح نہ کچھ دیکھوں گا، نہ کچھ سنوں گا اور نہ ہی کچھ کہوں گا۔۔

کیونکہ نہ نئے پاکستان کے معمار نے حق ادا کیا اور نہ ہی پرانے پاکستان کے شہباز کے پاس نئے آلات جراحی ہیں۔۔ وہی پرانے اور کند آلات جراحی اب اس ملک کے پیٹ کو پھاڑ سکتے ہیں۔۔ علاج نہیں کر سکتے۔۔ اس جھوٹی انا اور نام کی خاطر اربوں روپے دن کا اس ملک کا نقصان ہو رہا ہے۔۔ آخر یہ اتنے بڑے بڑے جلسے مفت تو نہی ہو رہے۔۔

یہ سب افہام و تفہیم سے بھی حل ہو سکتا تھا۔۔ اس نئے اور پرانے پاکستان کے چکر میں۔۔ ہمارے بچوں سے اصل پاکستان گم ہو گیا ہے۔۔ گالم گلوچ، بدتمیزی بدتہذیبی ہمارے نوجوان کے ہتھیار بن گئے ہیں۔۔ نہ بڑا دیکھتے ہیں نہ چھوٹا۔۔ نہ عورت کومرد کا لحاظ نہ مرد کو عورت کی تقدیس۔۔ ایک ریوڑ عوام کے نام پر ہانکا جا رہا ہے اور منزل نامعلوم۔۔

برباد گلستاں کرنے کو، صرف ایک ہی الّو کافی تھا

ہر شاخ پہ الّو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہوگا

Check Also

Zindagi Mein Kuaa Ban-Na Hai Ya Shaheen?

By Azhar Hussain Azmi