Wednesday, 24 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saleem Zaman
  4. Jinsi Darindagi Aur Jadeed Jisni Rawaiye

Jinsi Darindagi Aur Jadeed Jisni Rawaiye

ڈیجیٹل درندگی اور جدید جنسی رویے

میں ایسے حساس موضوع پر کبھی بھی لکھنا نہیں چاہتا تھا جو بالغ امور اور نیم بالغ بے راہ روی پر مبنی بحث ہو، مگر گزشتہ دس سالوں سے ہونے والے جنسی تشدد کے لرزہ خیز واقعات نے میری روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ جب میں ان وحشیانہ واقعات کو دیکھتا ہوں جہاں انسانیت کی تمام حدود پامال کر دی گئیں، تو قلم کانپ اٹھتا ہے۔ اس سفاکی اور درندگی کے پیچھے چھپے اسباب کو سمجھنے کے لیے ہمیں ان مستند واقعات پر نظر ڈالنی ہوگی جنہوں نے ہماری معاشرتی اقدار کا جنازہ نکال دیا ہے:

نربھیا کیس (دہلی، 2012): ایک چلتی بس میں 23 سالہ طالبہ پر بدترین جنسی تشدد کیا گیا اور لوہے کی راڈ جیسے اوزار استعمال کیے گئے۔ اس درندگی کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ متاثرہ لڑکی کے اندرونی اعضاء کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا تھا۔ یہ واقعہ انسانیت کے ماتھے پر ایک کلنک ہے۔ (حوالہ: State vs. Mukesh & Others, 2013)

کولکتہ لیڈی ڈاکٹر کیس (2024): ہسپتال جیسے مقدس اور محفوظ مقام پر ڈیوٹی کے دوران ایک نوجوان لیڈی ڈاکٹر کو درجنوں افراد نے اجتماعی جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔ یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ درندگی اب کسی مقام یا وقت کی محتاج نہیں رہی۔ (حوالہ: Supreme Court of India, Suo Motu Case, 2024)

زینب انصاری کیس (قصور، 2018): 7 سالہ معصوم بچی زینب کی جب لاش ملی تو اس کی کوئی ہڈی سلامت نہیں تھی۔ اس معصوم کلی کو جس سفاکی سے روندا گیا، اس نے ثابت کیا کہ معاشرے میں ایسے درندے موجود ہیں جن کے دل پتھر سے بھی سخت ہیں۔ (حوالہ: Zainab Alert Act, Pakistan, 2020)

ٹرانس جینڈر الیشہ قتل کیس (پشاور، 2016): ٹرانس جینڈر الیشہ کو نہ صرف 8 گولیاں ماری گئیں بلکہ اس سے قبل اسے بدترین جنسی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ واقعہ اس نفرت اور درندگی کی بدترین مثال ہے جہاں ایک جیتے جاگتے انسان کو محض اس کی شناخت کی وجہ سے "ناقابلِ رحم" سمجھ کر قتل کر دیا گیا۔ ہسپتال کی انتظامیہ کا تذبذب کہ اسے مردانہ وارڈ میں رکھیں یا زنانہ، اس معاشرتی بے حسی پر مہرِ تصدیق تھا جس نے الیشہ کو دم توڑنے پر مجبور کر دیا۔ (حوالہ: Human Rights Watch Report, 2016)

قصور ویڈیو اسکینڈل (2015): 280 سے زائد کمسن لڑکوں کو نہ صرف جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا بلکہ ان کی اذیت ناک ویڈیوز بنائی گئیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ درندگی اب جنس (Gender) سے بالاتر ہو کر محض "پاور پلے" اور "ڈیجیٹل تسکین" کا ذریعہ بن چکی ہے۔ (حوالہ: Supreme Court of Pakistan, Suo Motu Proceedings)

یہ درندگی ثابت کرتی ہے کہ یہ مجرم اس تمام عمل کو کسی جاندار انسان کے ساتھ کیا جانے والا فعل نہیں، بلکہ کسی گڑیا یا روبوٹ کے ساتھ کی جانے والی چھیڑ چھاڑ سمجھتے ہیں۔ ہماری ایک ایسی نسل جوان ہو رہی ہے جس کی پرورش غیر انسانی فلموں اور ڈیجیٹل اسکرینوں کے سائے میں ہوئی ہے، جہاں مقصد جذبات نہیں بلکہ صرف "پرفارمنس" ہے۔

اہم نفسیاتی نقطہ: "ڈی سینسیٹائزیشن" (بے حسی کا عمل)

ریسرچ کے نقطہ نظر سے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ ایسی درندگی ان افراد میں زیادہ پائی جاتی ہے جو "ڈی سینسیٹائزیشن" (Desensitization) کا شکار ہوتے ہیں۔ مسلسل ورچوئل تشدد اور فحش مواد دیکھنے کی وجہ سے ان کے اندر سے کسی انسان کی تکلیف محسوس کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ وہ انسان کو ایک "گوشت کا لوتھڑا" سمجھ کر ویسا ہی سلوک کرتے ہیں جیسا انہوں نے اسکرین پر دیکھا ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک تکلیف محض ایک "اسپیشل ایفیکٹ" بن کر رہ جاتی ہے۔

رپورٹ 2025: درندگی کی بڑھتی ہوئی سطح

ایسٹیز (Ersties) کی حالیہ رپورٹ اس درندگی کی جڑوں کو بے نقاب کرتی ہے، جو ہمارے والدین کے لیے ایک "الارم" ہے:

تشدد کی عادی نسل: رپورٹ کے مطابق 77 فیصد نوجوان (Gen Z) پورن دیکھنے کا اعتراف کرتے ہیں، لیکن خوفناک انکشاف یہ ہے کہ ان میں سے ہر 4 میں سے 1 نوجوان (25%) محسوس کرتا ہے کہ اسے تسکین کے لیے مزید "شدید" (Extreme) اور غیر انسانی مواد کی ضرورت ہے۔ یہ وہی مرحلہ ہے جہاں انسانی ہمدردی ختم ہو جاتی ہے اور درندگی جنم لیتی ہے۔

گیم شو کا تصور: نوجوان نسل "ٹنڈر ان ریئل لائف" جیسے فارمیٹس کو "Reality TV" کی طرح دیکھ رہی ہے۔ یعنی ان کے نزدیک کسی انسان کا انتخاب کرنا یا اسے جنسی استعمال کے بعد مسترد کر دینا محض ایک کھیل ہے۔ اس میں "انسان" کا وجود ختم ہو کر ایک "آبجیکٹ" (Object) کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔

پرتشدد زمروں کی مقبولیت: رپورٹ میں اینل (Anal)، سکوئرٹ (Squirt) اور تھری سم (Threesome) جیسے زمروں کی سرچ میں اضافہ ظاہر کرتا ہے کہ اب لوگ فطرت کے خلاف مناظر تلاش کرتے ہیں۔ یہی وہ سوچ ہے جو بسوں اور ہسپتالوں میں "اوزاروں" کے استعمال کی شکل میں سامنے آتی ہے۔

دم گھونٹنے کا رجحان: برطانیہ میں پورن گرافی میں "گلا گھونٹنے" (Strangulation) اور "دم گھونٹنے" (Choking) جیسے افعال پر پابندی کی مہم چل رہی ہے، کیونکہ نوجوان انہیں ایک عام عمل سمجھ کر حقیقی زندگی میں آزمانے لگے ہیں، جو اکثر معذوری یا موت پر ختم ہوتا ہے۔

ہماری ذمہ داری اور بچاؤ کا راستہ

والدین کی بیداری: والدین کو سمجھنا ہوگا کہ اولاد کو جدید گیجٹس کے حوالے کرنا انہیں ایک ایسے "ورچوئل ذبح خانے" میں بھیجنے کے مترادف ہے جہاں ان کی انسانیت کا قتل ہوتا ہے۔

تعلیمی اصلاحات: نصاب میں ایسی اخلاقی تربیت شامل کی جائے جو بچوں میں احترامِ آدمیت پیدا کرے۔

ریاستی قوانین: حکومتوں کو مصنوعی ذہانت (AI) کے ذریعے ایسے فلٹرز لگانے ہوں گے جو پرتشدد اور غیر انسانی مواد کو سرے سے آپ لوڈ ہی نہ ہونے دیں۔

اگر ہم نے آج اپنی نسل کی اس "ڈیجیٹل پرورش" کو نہ روکا، تو زینب، نربھیا، الیشہ اور معصوم ڈاکٹروں جیسی بیٹیاں اور بیٹے اسی وحشت کا نشانہ بنتی رہیں گے۔ ہمیں اپنی اولاد کو آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے شکنجے سے نکال کر دوبارہ سے "انسان" بنانا ہوگا۔ یہ وقت خوابِ خرگوش سے جاگنے کا ہے، اس سے پہلے کہ درندگی کا یہ سیلاب ہر گھر کی دہلیز تک پہنچ جائے۔

Check Also

China, Khatra Ya Moqa?

By Asif Masood