Tuesday, 14 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Saleem Zaman/
  4. Jab Bisat Ulti To Jana Ke Thay Shatir Kitne

Jab Bisat Ulti To Jana Ke Thay Shatir Kitne

جب بساط الٹی تو جانا کہ تھے شاطر کتنے

شطرنج میں پیادے سے لے کر بادشاہ تک سارے کردار موجود ہوتے ہیں، لیکن جج کا کردار نہیں ہوتا۔ اسی لئے اسے بادشاہوں کا کھیل کہا جاتا ہے۔ بادشاہ خود ہی جرنیل، خود ہی حکمراں اور خود ہی منصف ہوا کرتے تھے۔۔ ایسے بادشاہ کو کسی زمانے مطلق العنان کہا کرتے تھے۔۔ بعد میں انہیں آمر کہا جانے لگا۔۔

شطرنج (chess)، دو کھلاڑیوں کے درمیان ایک مربع تختے پر کھیلے جانے والا کھیل ہے۔ یہ کھیل جنوبی ایشیا میں برصغیر ہند و پاک کے خِطّے میں ایجاد اور تخلیق کیا گیا تھا۔ 600ء میں یہ کھیل برصغیر میں متعارف ہوا۔ پھر یہ کھیل فارس میں کھیلا جانے لگا، یہ کھیل ذہنی حکمتِ عملی پر مبنی ہوتا ہے۔ اِس کا قدیم نام چَتُرنگ تھا۔ (جو سنسکرت کے الفاظ "چتو+رانگا" بہ معنی "چار+بازو" سے نکلا ہے) عربی میں کیونکہ چ، اور گ، کے حروفِ تہجی نہیں ہوتے اِس لیے اِسے عربی میں شطرنج کے نام سے پُکارا جانے لگا۔

شطرنج کھیل جیتنے کے لیے مخالف کھلاڑی کے بادشاہ کو شہ مات (یا مات) دینا ہوتی ہے۔ مخالف بادشاہ کو مات کرنا ہی کھیل کا ہدف ہوتا ہے۔ بادشاہ کو براہ راست مارا نہیں جاتا البتہ بادشاہ کو شہ دے کر اس کو چاروں طرف سے اس طرح گھیر لینا کہ بادشاہ کے شہ سے نکلنے والے ممکنہ اردگرد کے تمام قریبی خانے مخالف مہروں کی زد پہ ہوں اور کسی صورت بادشاہ کو شہ سے نکالنا ممکن نہ ہو تو بادشاہ مات یعنی شہ مات ہو جاتا ہے اور شہ مات کرنے والا کھلاڑی جیتنے والا قرار پاتا ہے۔ لیکن اگر بادشاہ کو گھیر لے مگر شہ نہ ہو اور کوئی مہرہ بھی حرکت نہ کر سکے تو پات ہو جائے گی۔ یعنی بغیر ہار جیت کے کھیل ختم ہو جاتا ہے۔

جن حکمرانوں نے یہ کھیل ایجاد کیا تھا ان کی سلطنت کی بنیاد کوٹلیہ چانکیہ کے شاطر دماغ نے رکھی تھی اور ہر حال میں فتح حاصل کرنے کے لئے کسی قسم کی بھی چالبازی سے دریغ نہیں کیا جاتا تھا، اسی نے جنگ اور محبت میں سب جائز ہے کا فارمولا نکالا تھا۔۔ صدیوں بعد اسی مملکت میں "سیسا" نامی ریاضی دان نے شطرنج بطور کھیل متعارف کرایا۔۔ جو بنیادی طور ہر ایک بادشاہ کو خوش کرنے کے لئے بنایا گیا۔۔

شطرنج کی ایجاد دراصل پراکسی وار proxy war کی باقاعدہ ابتداء ہے۔۔ جس میں دو دماغ کسی تیسرے میدان یا تختے پر اپنی مرضی کی بساط بچا کر پنجہ آزمائی کرتے ہیں۔۔ ان کے دماغ اور ہاتھ حرکت کرتے ہیں۔۔ جبکہ بساط پر دو بادشاہ اپنی وزراء اور فوج اور پیادوں کے ہمراہ نبرد آزما ہوتے ہیں۔۔ تختہ پر ہارنے والے یا جیتنے والے بادشاہ کو کوئی خوشی نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ جیت کا جشن منا سکتا ہے، کیونکہ وہ تو صرف مہرہ ہوتا ہے۔۔ جبکہ اصل جیت ان مہروں کو ہلانے اور استعمال کرنے والے ہاتھ اور دماغ کی ہوتی ہے۔۔ اور ظاہری طور پر یہ دو کھلاڑی دیکھنے میں دوست بھی ہوتے ہیں بعض اوقات کاروباری شراکت دار بھی، جبکہ بساط پر مد مقابل۔۔

یہی شطرنج کا کھیل، آج کے دور میں ففتھ جنریش وار فئیر کہلاتا ہے۔۔ بس فرق اتنا ہے کہ پیادے، آج کسی حکومت کے ارکان اسمبلی، یا اپوزیشن ممبران ہو سکتے ہیں۔ فیلہ یا ہاتھی، ملک میں چلنے والی ملٹی نیشنل فرنچائیز، گھوڑے، میڈیا کی تمام اقسام اور رخ معاشی نگران (یا قاتل) کہلائے جا سکتے ہیں۔۔ اور وزیر لازمی بات ہے آرمی چیف اور بادشاہ آج کا وزیر اعظم کہلایا جاتا سکتا ہے۔۔ بعض اوقات کھیل کھیل میں دونوں کھلاڑی تختہ یا شطرنج کی بساط پر لڑتے لڑتے سنجیدہ ہو جاتے ہیں اور خود بھی اس جنگ کا حصہ بن جاتے ہیں پھر آپس کی دھینگا مشتی بساط تو الٹ دیتی ہے۔ اور فریقین دست وگریباں ہو جاتے ہیں۔۔ اسی کیفیت کو آپ پہلی، دوسری جنگ عظیم کہہ سکتے ہیں۔۔

ہم پچھلی صدی کی وہ نسل ہیں، جنہوں نے سرد جنگ (جو پراکسی وار کا شہکار تھی) کے آخری عشرے کا مشاہدہ کیا۔۔ اور روس کو ٹوٹتے اور امریکہ کو جشن مناتے دیکھا۔۔ یہی وہ وقت تھا جب دو ہاتھی یعنی روس اور امریکہ افغانستان میں آستین چڑھا کر خود دو دو ہاتھ کر رہے تھے۔۔ جبکہ ایک تیسرا فریق "چین" خاموشی سے اپنی استعداد بڑھا رہا تھا۔۔ اور پھر امریکہ کو احساس ہوا کہ اس نے کیا کھویا اور کیا پایا۔۔ لہذا نیو ورلڈ آرڈر کے باوجود عالمی افق پر امریکہ اکیلی سپر پاور کا لطف زیادہ نہیں اٹھا سکا۔۔ اور چین کا اژدھا شاہراہ ریشم پر بل کھاتا دنیا کی دوسری طاقت بنتا چلا گیا۔ وہ تمام جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ستائے ہوئے تھے۔۔ انہوں نے ہاتھی کے پاوں میں سب کا پاوں کے مصدق چین کے ساتھ مل کر ایک نئے بلاک کی تشکیل شروع کر دی۔

اب دنیا ایک بار پھر دو واضح بلاکس میں بٹ چکی ہے۔۔ ایک جانب یورپ اور امریکہ اسرائیل اور دوسری جانب چین، روس اور سنٹرل ایشیائی ممالک ہیں۔ اور گزشتہ 20 سال سے ایک نئی سرد جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔۔ حالیہ کرونا وبائی جنگ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو معاشی اور اسٹراٹجیک خفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جبکہ یوکرین دوسرا محاذ ہے۔ پاکستان تیسرا اور اس ریجن کا سب سے اہم محاذ۔۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت پاکستان میں جاری حکومتی اور اپوزیشن محاذ دراصل شطرنج کی وہ بساط ہے جس میں اہم حکومتی ادارے اور وزیر اعظم کا دفتر چین اور روس کے مہرے ہیں۔۔ جبکہ اپوزیشن، میڈیا اور سوشل میڈیا امریکہ اور یورپ کے دسترس میں ہیں یا قبضہ میں۔۔ سابق صدر زرداری کے قدیم ذاتی مراسم امریکی صدر سے کوئی ڈھکے چھپے نہیں۔ اور یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ نواز شریف پر انڈیا اپنی انوسٹمنٹ کا دعویدار ہے۔۔ اور عمران خان لازمی طور پر دوسرے اہم بلاک کا نمائیدہ۔۔

اگر عمران خان کو مات ہوتی ہے تو یہ اژدھا کو ایک گہرا زخم ہو گا جس سے سرخ خون بہے گا، اور اژدھا کی عالمی منڈیوں میں رسائی کچھ مدت کے لئے محدود ہو جائے گی۔۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ شطرنج کا "وزیر" بادشاہ کے ساتھ ہے یا خود بادشاہ ہے۔۔ خود منصف ہے اور خود ہی جرنیل۔۔

اگر عمران خان مدمقابل کو شہہ مات دینے میں کامیاب ہو گیا تو پھر آئندہ آنے والے 10 سالوں میں بل کھاتا اژدھا اپنے دروازے سے نکل کر مد مخالف کی بلوں میں جا گھسے گا۔۔ اور دنیا کو اپنے شکنجے میں کس لے گا اور اس کا یہ دروازہ ہو گا۔۔ پاکستان۔۔ اب پاکستان میں جاری شطرنج کے اس کھیل میں پات نہیں۔۔ صرف شہہ مات ہے۔۔ آئندہ آنے والے 10 دنوں میں اژدھا کے مستقبل کا فیصلہ ہو گا۔۔

اللہ کریم پاکستان کی حفاظت فرمائیں۔۔

Check Also

Bilawal Bhutto Ki Baaten To Durust Hain Magar?

By Haider Javed Syed