Is Hashar Mein Nadeem Ko Darkar Aap Hain
اس حشر میں ندیم کو درکار آپ ہیں
اس دفتر میں مجھے کام کرتے 40 سال ہو چکے ہیں۔ نوجوان لڑکا آیا تھا اب تو ہمت جواب دے گئی ہے۔۔ گھٹنے جواب دیتے جا رہے ہیں۔۔ اگلے سال میری ریٹائرمنٹ ہے۔۔ ہمارے دفتر میں ہر سال حج اور عمرہ کے لئے قرعہ اندازی ہوتی ہے۔۔ اس سال قدرت نے مجھے خوش نصیب بنا دیا اور میرا نام حج پر جانے کے لئے نکل آیا۔۔
میں خوشی خوشی مٹھائی لے کر گھر گیا۔۔ سب بہت خوش ہوئے کیونکہ ہم جیسے لوگ تنخواہوں پر تو تمام عمر حج نہیں کر سکتے۔۔ دوسرے روز سب محلے والے دوست احباب مبارک دینے آنے لگے۔۔ دن کم تھے تو جلدی جلدی تیاری پاسپورٹ وغیرہ بنوایا۔۔
بیوی کچھ اداس اداس سی تھی۔۔ تو اسے کہا دعا کرو کہ پنشن مل جائے تو تمہیں بھی حج کراوں گا۔۔ ورنہ میری خواہش تو یہ ہے کہ مدینہ پاک میں مجھے موت آجائے۔۔ اور تم مجھے ملنے وہاں جنت البقیع میں آو۔۔ سنا ہے وہاں قبر کا نام ونشان بھی نہیں چھوڑا جاتا۔۔ مین تمہیں دیکھ دیکھ کر مسکراوں گا۔۔۔ وہ اپنی عینک کے پیچھے موٹی موٹی آنکھوں میں آنسو بھر کر بولی۔۔
تم مسکراو گے کیوں!!!
ہاہاہا۔۔ تمہیں میری قبر جو نہیں ملے گی۔۔ اور تم پریشانی میں تھک ہار کر سب پر فاتحہ پڑھاو گی۔۔
وہ مسکرا پڑی۔۔ بولی پھر میں کیوں واپس آوں گی۔۔ بس ہم دونوں وہیں رہ جائیں گے۔۔ اس مبارک فضا میں۔۔ نبی کریمﷺ پر درود وسلام پڑھیں گے۔۔
میں نے اسے گلے سے لگا لیا۔۔ ہم دونوں نے آمین کہا۔۔ اور دل ہلکا پھلکا سا ہو گیا۔۔ بچھڑنے کا غم رومانس بن گیا۔۔
سب محلہ مجھ سے ملنے آیا اور دعا کرنے کا کہا سوائے ندیم کے۔۔
مجھے حیرت ہوئی۔۔ میں نے سوچا لاابالی سا آدمی ہے۔۔ شائد کسی نے بتایا ہی نہ ہو۔۔ تو چلو میں خود مل آتا ہوں۔۔
پرسوں میری کراچی کے لئے فلائیٹ ہے پھر موقع ملے یا نہ ملے۔۔ شائد کبھی اس کی دلآزاری ہوئی ہو تو معافی تلافی کر لوں۔۔
ہمیشہ ندیم مجھے محلے کے کسی تھڑے پر مل جاتا۔۔ لیکن آج کہیں نظر نہ آیا۔۔
گلی میں کھیلتے بچوں سے پوچھا تو کہنے لگے۔۔۔ چاچا پاگل۔۔۔ تو آج صبح سے قبرستان میں بیٹھا ہے۔۔ کسی سے بات نہیں کر رہا۔۔ بس صبح سے وہیں بیٹھا ہے۔۔
میں حیرانگی کے عالم میں اسے ڈھونڈتا ہوا قبرستان پہنچا تو وہ قبرستان کے اس کونے میں بیٹھا تھا جہاں ہیروئین اور چرس پینے والے جمع رہتے ہیں۔۔ جگہ جگہ آگ جلائے رکھتے ہیں۔۔ گندگی کی بدبو سے کھڑا نہیں ہوا جاتا۔۔ دل کڑا کر کے میں نے اسے سلام کیا۔۔
مجھے دیکھتے ہی مسکرایا اور بولا یار سنا ہے تم مکہ مدینہ جا رہے ہو۔۔ جی۔۔ میں الحمدللہ حج پر جا رہا ہوں۔۔ تمہیں خدا حافظ کرنے آیا ہوں۔۔ اگر مجھ سے کبھی کوئی غلطی ہوئی ہو یا تمہارا دل میرے مذاق سے دکھا ہو تو مجھے معاف کر نا۔۔ یار۔۔
وہ بہت ہنسا۔۔ اور اٹھ کر میرے گلے لگ گیا اور بولا۔۔ نہیں نہیں۔۔ تو میرا بھائی ہے مجھے وہاں دعاؤں میں یاد رکھنا۔۔ ضرور۔۔
بالکل ندیم یار تو فکر نہ کر۔۔ میں مسکرایا۔۔ اور اسے کہا۔ یار ندیم تو۔۔ میرے لئے دعا کرنا۔۔ مدینے موت آجائے دوبارہ اس گند میں نہ آوں۔۔
اس نے چونک کر میری طرف دیکھا۔۔ اور سر جھکا لیا۔۔ پھر سر اٹھا کر بولا۔۔ جھلا ہے تو۔۔ اللہ کریم تیرا سینہ مدینہ کر دے۔۔
ہائیں۔۔ !!! تو آمین کی بجائے یہ کیا کہہ رہا ہے۔۔
ہاں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔۔ دیکھ جھلے۔۔ اگر مالک نے تیرے سینے کو مدینہ بنا دیا۔۔ تو آقاﷺ تیرے دل میں رہیں گے نا!!
جب وہ ہر لمحہ تیرے دل میں ہوں گے۔۔ تو جہاں جائے گا۔۔ وہ جگہ مدینہ ہو جائے گی۔۔ پگلے۔ جب تو مر کے اس قبرستان میں دفن ہو گا نا۔ تو ان سب قبروں کو جنت البقیع بنا دے گا۔۔ کئی ایسے لوگ ہیں جنہیں موت تو مدینہ ہوتی ہے لیکن انہیں فرشتے جنت البقیع سے نکال کر دور دراز پھینک آتے ہین اور دور دراز کئی ایسی قبریں ہیں جن کے دروازے مدینہ میں کھلتے ہیں۔۔ ان کی راحتوں سے وہ قبرستان بھی جنت البقیع بن گئے ہیں۔۔ جا!!! مالک تیرا سینہ مدینہ بنا دے۔۔ رب راکھا۔۔
اور منہ موڑ کر واپس اپنی جگہ پر جا بیٹھا۔۔
میں واپسی کے لئے مڑا لب پر دعا تھی "مالک میرا سینہ مدینہ بنا دے" اور آنکھوں میں موتیوں کی لڑی۔۔ ایک خیال آیا اور اچانک میں رکا۔۔ مڑا اور ندیم کو آواز دی۔۔
یار ندیم۔۔ اوئے ندیم۔۔ تو آج یہاں کیوں بیٹھا ہے؟
اس نے دیکھے بغیر کہا۔۔ جب سینہ مدینہ بن جاتا ہے۔۔ تو پھر فرض ہو جاتا ہے کہ وہ جگہیں جہاں آقاﷺ کے غلام تکلیف میں ہوں۔۔ کچھ دیر اس زمین کو مدینہ کی خوشبو بنا دیا جائے۔۔ بس یہی تو غلامی ہے نا۔۔۔
میں طواف کعبہ کر رہا تھا۔ سب مناجات کر چکا تو اچانک ندیم کی خوشبو محسوس ہوئی۔ اور لبوں پر خودبخود دعا جاری ہو گئی۔۔
مالک میرے سینے کو مدینہ بنا دے۔۔ اس میں مدینہ کی خوشبو بسا دے۔۔
اور آذان شروع ہو گئی۔۔
لوگ کہتے ہیں سایہ تیرے پیکر کا نہ تھا
میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ھے سایہ تیرا
صلو علیہ وسلمو تسلیما