Hum Ab Quettawal Nahi Rahe
ہم اب کوئٹہ وال نہیں رہے
رمضان میں ہم جیسے مسلمان رات ساری فلم یا reels دیکھتے ہیں سحری کرکے سوتے ہیں تو دو چیزیں سونے نہیں دیتیں، ایک تو واش روم کیونکہ ہم نے پیاس کے ڈر سے ایک ایک گھر نے اتنا پانی پیا ہوتا ہے۔ جتنا کہ کربلا میں امام کریم اور ان کے ساتھیوں کو اگر مل جاتا تو شاید 3 دن کے لئے کافی ہوتا۔۔ یہ تو ہمارا توکل ہوا۔ دوسرا وہ بچے جنہوں نے صبح 8 بجے اسکول جانا ہوتا ہے۔۔ لہذا پھر اس مبارک مہینے میں سو کر اٹھنے اور دفتر جانے میں پھر کہاں کام ہوتا ہے۔ اور نیند کی کمی اور سر درد کی وجہ سے پھر بات بات پر جھگڑے علیحدہ۔۔
پھر اب ایک طبقہ تو ایسا پیدا ہوگیا ہے جو کام میں جان بوجھ کر رخنہ ڈالتا ہے۔۔ انہیں معلوم بھی ہے کہ رمضان میں ہم کام کی عیدی لیتے ہیں۔ لیکن کیا مجال کہ رمضان میں عزت آبرو سے کام کرا لیں۔۔ کہتے ہیں روزے میں رشوت نہیں دیں گے۔۔ اس طبقہ کی وجہ سے سارا کام پورا مہینہ پڑا رہ جاتا ہے۔۔ افسوس کسی کو بھی ملک کی فکر نہیں۔ بس ہر شخص اپنی دھن میں مگن ہے۔۔ خیر میرا یہ مضمون نہیں اہلیان کوئٹہ کو ایک پیغور ہے۔۔ اہل پاکستان اگر پیغور کو نہ سمجھیں تو اسے طعنہ کہہ سکتے ہیں مگر جو سمجھتے ہیں یہ طعنہ سے کچھ زیادہ بلکہ بہت زیادہ ہے۔
ہوا یوں کہ روزہ رکھ کر لیٹا ہی تھا کہ بیٹی آگئی کہ بابا اسکول کو لیٹ ہو رہا ہے، مجھے چھوڑ ائیں۔۔ خیر نیم مدہوشی اور زہر آلود پیشانی کے ساتھ اسے چھوڑنے نکلا، کہ گھر کے قریب کوئلہ پھاٹک اور شہیدوں کے مزار کے درمیان ایک 30 یا 35 سال کے شخص کو روڈ کے کنارے گرا ہوا دیکھا۔۔ اس کا ہیلمٹ فٹ پاتھ پر پڑا تھا، سردی کی وجہ سے جو دستانے اس نے پہن رکھے ہوں گے وہ ادھر ادھر گرے پڑے تھے، موٹر سائیکل بغیر اسٹینڈ کے لیٹا ہوا تھا اور یہ شخص تقریبا بے جان حالت میں ہر گاڑی کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔ میرے منہ سے ایک بڑی گالی نکلی کہ یہ دیکھو اب بھیک کے طریقے نئے اور انداز نرالے ہو گئے ہیں۔ بچی کو دیر ہو رہی تھی ورنہ اس کی تو خوب کلاس لیتا۔۔ خیر مجھے اسکول جانے اور واپس اس جگہ تک پہنچنے میں 10 منٹ لگے ہوں گے۔ جب میں واپس اس جگہ پہنچا تو دیکھا کہ وہی شخص ابھی بھی وہیں پڑا ہے۔
اس کے اردگرد کوئی بھی گاڑی یا شخص نہی رک رہا۔۔ جبکہ وہ دونوں جانب سڑک کے ہر شخص کو التجائیہ نظروں سے دیکھ رہا ہے۔۔ مجھے کچھ شک گزرا تو میں روڈ پر واقع اور ہیڈ پل کے نیچے سے گاڑی موڑ کر اس کی طرف گیا۔ اب دل میں یہ سوچا کہ آج اس شخص کو پولیس کے حوالے کروں گا کہ اگر یہ ڈرامہ اس نے کمائی کے لئے رچایا ہے۔ میری نظر میں رشوت جائز ہے مگر بھیک مانگنا تو بہت بری بات ہے۔ یہ تو دھوکہ ہے کام چوری ہے۔ لیکن جوں ہی اس کے قریب پہنچا معاملے کی نزاکت محسوس ہونا شروع ہوئی۔۔ اس کی الٹیاں (قے) جا بجا پھیلی ہوئی تھی اور لگتا ہے کہ موٹر سائیکل پر ہی اس کو پہلی قے آئی جسے ہیلمٹ اور کپڑوں کو بچاتے ہوئے وہ موٹر سائیکل سے گر پڑا تھا اور بعد میں وہیں پڑا تھا۔ قے کرنے کے واسطے اس نے ہیلمٹ اتارا اور دستانے پھینکے۔ لیکن اب اس میں ہمت نہیں تھی۔
میں نے جب اس کے قریب گاڑی روکی اور اتر کر اس کے پاس گیا تو اس نے بے بسی سے مجھے یوں دیکھا جیسے چڑیا کا بچہ شدید گرمی میں منہ کھولے پانی مانگ رہا ہو۔ میں نے اس سے پوچھا کیا ہوا۔ تو وہ بات نہیں کر سکتا تھا۔ میں نے اس کے ہاتھ پاوں ملے۔ پاوں سیدھے کئے اسے بٹھایا تو وہ کچھ نارمل ہونے لگا۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا کیونکہ مجھے لگا اس کا سانس اب نکل جائے گا۔ اور زور سے پوچھنے لگا کہ تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو۔ کوئی نمبر یا پتہ بتاو۔ تو اس نے کانپتے ہاتھوں سے مجھے اپنا ٹوٹا ہوا فون نکال کر دیا اور بولا صاحب! یہ نمبر مجھ سے نہیں مل رہا۔ میرا سپر وایزر ہے۔ اس کو۔ اتنا کہہ کر پھر سے قے کرنے لگا۔ اب اس کے اندر شاید کچھ بھی نہیں رہا تھا لہذا صرف ابکائیاں تھیں۔ میں نے کہا اپنا نام بتاؤ۔ اس بندے کو کیا کہوں۔ وہ بولا صاحب! میرا نام سعید ہے میں CMH کوئٹہ میں مالی ہوں۔ یہ میرا سپروائزر ہے یہ ناراض ہوگا کہ اگر میں وقت پر نہ پہنچا۔ اب اس کی آواز میں کپکپی تھی مگر بولنا شروع ہوگیا۔
میں نے اس کے سر پر پیار کیا اور اسے کہا تم فکر مت کرو۔ تمہارے سپروائزر کی ماں کی آنکھ، چلو میں تمہیں CMH لے چلتا ہوں۔ تو مجھے خالی نظروں سے دیکھ کر بولا میرا موٹر سائیکل کوئی لے جائے گا۔ صاحب میں کچھ دیر میں ٹھیک ہو جاؤں گا آپ کا شکریہ کہ آپ رک گئے اور بات کر رہے ہیں۔ مجھے ہمت مل رہی ہے۔ میں نے اس کا منہ دونوں ہاتھوں سے تھاما اور اسے پیار کیا کہ تم فکر مت کرو۔ میں اس سے بات کرتا ہوں۔ اپنے نمبر سے ملایا تو وہ تو ہماری نسل کا سپروائزر تھا، فون اس کا آف تھا۔ شاید سحری کے بعد سویا ہو۔ اس بندے سے میں نے پوچھا۔ ایسا کیوں ہوا تمہارے ساتھ تو وہ بولا میرا علاج چل رہا ہے اور شدید سر درد ہوتا ہے پھر الٹیاں آتی ہیں بے جان ہو جاتا ہوں۔ کئی بار بے ہوش بھی ہو جاتا ہوں۔ لیکن پھر ٹھیک ہو جاتا ہوں آج روڈ پر ایسا ہوگیا۔ میں نے کہا تم اتنی دیر سے روڈ پر پڑے ہو کوئی بھی نہیں رکا۔ اس نے میری طرف مایوسی سے دیکھا۔ اگر اس میں پانی ہوتا تو شاید اس کے آنسو نکل آتے۔ لیکن اس میں صرف جو جان بچی تھی وہ بڑی طرح کانپ رہی تھی۔ مجھے جو دلاسہ تسلی آتا تھا اسے دینا شروع کیا۔ اس سے گھر کا پوچھا تو بولا۔ سر گھر مستونگ میں ہے۔ میں نے کہا کہ نمبر دو میں انہی بتا دوں۔ تو وہ بولا۔ نہی نہیں سر۔ وہ سب پریشان ہو جائیں گے۔ میں نے انہیں نہیں بتایا ہوا کہ میرے ساتھ ایسا ہوتا ہے۔
اتنی دیر میں مختلف موٹر سائیکل اور سائیکل سوار رکنا شروع ہوئے اور کچھ گاڑی والوں نے بریک لگانا شروع کئے۔۔ انہیں لگا کہ میں (گاڑی والے) نے موٹر سائیکل والے کو مار دیا ہے تو تماشہ لگانے رکنے لگے جنہیں میں نے ڈانٹ کر منتشر کر دیا۔۔ اس بندے (سعید) نے میرا ہاتھ پکڑا اور بولا سر آپ کا بہت شکریہ مجھے بہت تسلی ہوئی ہے۔۔ اب میں اچھا ہو رہا ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے فٹ پاتھ پر آٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی۔ پھر اپنا ہیلمٹ سنبھالنے لگا۔۔ میں نے الحمدللہ اس کا ساتھ دیا۔۔ اس نے مجھے کہا سر۔۔ ابھی میں بہتر ہوں آپ جائیں میں کچھ دیر بعد خود دفتر چلا جاؤں گا۔۔ میں اس دوران اس کے سپروائزر کو 14 کالیں کر چکا تھا۔۔ میں نے اسے کہا۔۔ اگر تمہارا سپروائزر کچھ کہے تو مجھ سے بات کرانا۔۔ CMH میں میری کافی واقفیت ہے اس کے چہرے پر سکون والی مسکراہٹ ابھری۔۔ اور ہنس کر کہنےلگا۔۔ بالکل سر۔۔ بہت شکریہ۔۔ میں نے پوچھا۔۔ اب میں جاوں یا بیٹھوں؟ تو وہ بولا سر آپ جائیں میں بہتر ہوں۔۔
میں واپس گاڑی میں بیٹھا۔۔ آگے سے گاڑی موڑی اس کی طرف دیکھا تو اس نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے شکریہ کہا۔۔
میں یہ سوچتا ہوا گھر روانہ ہوا کہ یہ کوئٹہ تو وہ کوئٹہ نہیں۔۔ کہ جب کوئی شخص تکلیف میں ہوتا تو راہ گیر اس کا ساتھ دیتے تھے۔۔ اگر کہیں فائیرنگ ہوتی تو اس کے مخالف سمت بھاگنے کی بجائے لوگ اس سمت دوڑ لگاتے کہ شاید کسی پر ظلم نہ ہو رہا ہو۔۔ جب تخریب کاری کا دور کوئٹہ میں آیا تو بم دھماکے کی جگہ بھاگ کر پہنچتے۔۔ ٹریفک حادثہ اگر ان کے سامنے ہوتا تو پھر کیا عزیز و اقارب۔ یہ رب تک ساتھ ہوتے جب تک زخمی کا خاندان نہ پہنچ جاتا۔۔ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ کوئٹہ میں اسٹریٹ کرائم میں لوگوں کے سامنے کوئی آج تک کسی کو لوٹ سکا ہے۔۔ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ کوئٹہ میں راہ چلتی لڑکی کو کسی نے چھیڑا ہو جب کہ وہاں کوئی ایک مرد بھی کھڑا ہوا تھا۔۔ وہ لڑکی ایسا محسوس کرتی کہ اس کا رشتہ دار کھڑا ہے۔
اس واقعہ نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ہے۔۔ آج مجھے لوگوں کی باتوں کا شدت سے احساس ہو رہا ہے۔ جس میں لوگ کہتے ہیں ابھی کوئٹہ وال میں وہ غیرت نہیں رہی جس میں اسے جان کی پرواہ بھی نہیں ہوتی تھی۔۔ آج مجھے احساس ہوا ہم اب کوئٹہ وال نہیں رہے۔۔ ہم ایندرائیڈ، اور آئی فون بن گئے ہیں۔۔ ہر فون کو اپنا آپ بچانا ہے شاید یہ کوئٹہ کا آرٹیفشل انٹیلیجنس کا آغاز ہے۔۔ کوئٹہ کا جو نوجوان اسے پڑھے یاد رکھے۔۔ یہ میری طرف سے اسے پیغور ہے۔۔ کہ "زوئے۔۔ ماں کا۔۔! یہ خر نازوانی ہے" اگر کسی کوئٹہ وال کی موجودگی میں کسی سے زبردستی کوئی موبائل چھین لے، کوئی سڑک پر چلتی خاتون کو کوئی لفنگا چھیڑ دے اور اپنی ٹانگوں پر واپس جائے یا کوئی مریض، ضرورت مند سڑک کے کنارے بے یار و مددگار پڑا ہو۔
کچھ تو غیرت کا تقاضے ہیں۔۔ موت تو ہر حالت میں آنی ہے۔۔
مگر یہ راز آخر کھُل گیا سارے زمانے پر
حِمیّت نام ہے جس کا، گئی تیمور کے گھر سے