Faraz Tujh Ko Na Aayein Mohabbatein Karni
فرازؔ تجھ کو نہ آئیں محبتیں کرنی

یہ مضمون اس سائنسی تحقیق کا جائزہ لیتا ہے کہ اپنے جسم سے نرمی اور پیار سے بات کرنے کا عمل (تعمیری خود کلامی) کس طرح جسمانی شفایابی اور صحت کو فوری طور پر فروغ دیتا ہے۔ مزید برآں، یہ مطالعہ اسلامی تعلیمات سے اس تصور کو جوڑتا ہے، جہاں اپنی ذات کا خیال رکھنا (Self-care)، احتساب، مثبت نیت اور اپنی ذات پر خرچ کرنے کو صدقہ اور امانت کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔
تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ اپنے جسم سے نرمی اور پیار سے بات کرنے سے شفایابی کے عمل میں واقعی تیزی آتی ہے اور سائنس کے مطابق اس کے اثرات فوری طور پر ظاہر ہوتے ہیں۔ اگرچہ اپنے جسم سے باتیں کرنا سننے میں شاید کچھ عجیب یا غیر روایتی لگے لیکن جدید سائنس تیزی سے اس بات کی تصدیق کر رہی ہے کہ یہ طریقہ واقعی کارگر ہے۔ جب ہم پرسکون انداز میں خود کلامی کرتے ہیں، جان بوجھ کر گہرا سانس لیتے ہیں اور اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں تو ہمارا پیراسیمپتھیٹک اعصابی نظام متحرک ہو جاتا ہے جو جسم کو آرام دینے، اس کی مرمت کرنے اور شفایابی کا ذمہ دار ہے۔ نفسیاتی عصبی قوت مدافعت (Psychoneuroimmunology) کے میدان میں ہونے والی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ خود سے کی گئی مثبت اور حوصلہ افزا گفتگو ذہنی دباؤ پیدا کرنے والے ہارمون یعنی کورٹیسول کی سطح کو کم کرتی ہے، قوت مدافعت کو بہتر بناتی ہے اور جسمانی سوزش میں کمی لاتی ہے۔
ان اثرات کا تعلق صرف ہماری نفسیات سے نہیں ہے بلکہ یہ واضح جسمانی نتائج پیدا کرتے ہیں، جیسے کہ دل کی دھڑکن کا معمول پر آنا، پٹھوں کے کھنچاؤ میں کمی اور یہاں تک کہ درد کے احساس کا کم ہونا۔ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ یہ تبدیلیاں کتنی تیزی سے رونما ہوتی ہیں۔ ادویات یا سپلیمنٹس کے برعکس جنہیں ہضم ہو کر خون میں شامل ہونے میں وقت لگتا ہے، ہمارا جسم ذہنی اشاروں پر تقریباً فوراً اور اکثر چند سیکنڈوں میں ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ ہارورڈ میڈیکل اسکول جیسے اداروں کی تحقیق بتاتی ہے کہ جسم پر ذہن کا اثر نہ صرف حقیقی ہے بلکہ انتہائی طاقتور اور تیز رفتار بھی ہے۔ بس خود پر تھوڑی توجہ دے کر اور اپنے آپ سے مہربانی سے بات کرکے ہم ذہنی دباؤ کو قابو میں رکھ سکتے ہیں، شفایابی کے عمل میں مدد کر سکتے ہیں اور اپنی مجموعی صحت کو بہتر بنا سکتے ہیں، جو کہ جدید دور میں اپنی دیکھ بھال کا ایک حیران کن حد تک موثر ذریعہ ہے۔
اسلامی تعلیمات میں بھی تعمیری خود کلامی اور اپنی ذات کی دیکھ بھال کی جڑیں موجود ہیں۔ اپنی ذات سے بھلائی کرنا (Self-Care) اور نفس کا محاسبہ کرنا اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہیں۔
الف) اپنی ذات سے بھلائی اور جسم کا حق: اسلام میں جسمانی اور ذہنی صحت کا تحفظ ایک امانت کے طور پر لازم ہے۔ نبی کریم ﷺ نے واضح فرمایا کہ ہمارا جسم ہم پر حق رکھتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اسے آرام، مناسب خوراک اور دیکھ بھال فراہم کی جائے۔
حدیث نبوی ﷺ: "بلاشبہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے"۔ (صحیح بخاری: حدیث 1975)
ب) تعمیری خود کلامی اور روحانی تسکین:
جس طرح سائنسی طور پر مثبت خود کلامی مؤثر ہے، اسی طرح اسلام میں نفس کا احتساب (خود سے سوال و جواب) ایک بنیادی اخلاقی عمل ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کا قول ہے کہ "اپنا احتساب کرو، اس سے پہلے کہ تمہارا احتساب کیا جائے۔ " یہ تعمیری گفتگو ذہنی تربیت اور فلاح کا باعث بنتی ہے۔
حضرت یعقوبؑ نے اپنے بیٹے حضرت یوسفؑ اور بعد ازاں حضرت بنیامین کو کھو دینے کے شدید غم میں جو الفاظ کہے، وہ دراصل مشکل وقت میں تنہائی میں اللہ سے مخاطب ہونے اور اپنا بوجھ ہلکا کرنے (خود کلامی) کی بہترین مثال ہے:
آیت مبارکہ کا ترجمہ: "یعقوب نے کہا: میں اپنی پریشانی اور غم کی فریاد صرف اللہ سے کرتا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے"۔ (سورۃ یوسف: 86)
سائنسی تناظر میں یہ عمل ایک تھراپیوٹک خود کلامی (Therapeutic Self-Talk) ہے، جہاں انسان اپنے شدید ترین جذبات کو ایک قابل اعتماد ہستی (اللہ سبحانہ و تعالٰی) کے سامنے ظاہر کرکے ذہنی دباؤ اور غم کو کم کرتا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے یہ مناجات اور حسنِ ظن کی اعلیٰ مثال ہے۔
ج) اپنی ذات پر خرچ کرنا پہلا صدقہ:
اسلامی تعلیمات میں خرچ کرنے اور صدقہ کا بہترین اصول یہ ہے کہ انسان سب سے پہلے اپنی جائز ضروریات اور صحت پر خرچ کرے۔ یہ عمل خود کو بہتر حالت میں رکھنے کے لیے ایک نیک عمل اور صدقہ شمار ہوتا ہے۔
حدیث نبوی ﷺ (صدقہ کی اولین ترجیح):
حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جب تم میں سے کسی کے پاس خادم ہو تو اسے وہی کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے اور وہی پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے اور اللہ کی مخلوق کو عذاب نہ دے اور جو شخص بھی صدقہ دے اور اپنی ذات سے ابتداء کرے تو وہ (صدقہ) سب سے افضل ہے۔ اگر کچھ بچ جائے تو وہ اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے، اگر اس کے بعد بھی کچھ بچ جائے تو وہ اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرے اور اگر اس کے بعد بھی کچھ بچ جائے تو وہ اللہ کی باقی مخلوق پر خرچ کرے"۔ (صحیح مسلم: کتاب الزکاۃ، حدیث نمبر 997)
حوالہ جات (References)
Harvard Health Publishing. (2021). Mind-body connection: How your thoughts and emotions affect your health. Harvard Medical School.
صحیح مسلم: کتاب الزکاۃ، حدیث نمبر 997۔
صحیح بخاری: کتاب الصوم، حدیث نمبر 1975۔
القرآن الکریم: سورۃ یوسف، آیت 86۔

