Algorithm, Azaa Ki Chughli, Momin Ki Ungli Aur Sorakh (2)
الگورتھم، اعضاء کی چغلی، مومن کی انگلی اور سوراخ (2)
چونکہ الگورتھم جذبات سے عاری ہے۔ لہذا وہ کسی بھی بندے کی سابقہ ہسٹری سے نتائج اخذ کر لیتا ہے کہ اگر یہ شخص ایسا کر رہا ہے اور بار بار کر رہا ہے تو اس کی مستقبل میں فلاں فلاں خواہشات پیدا ہو سکتی ہیں لہذا وہ انہی اشیاء کی طرف راغب کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اور اسی طرح ایلگورتھم یہ اندازہ بھی لگا لیتا ہے کہ اگر اس شخص کے یہ شوق ہیں تو مستقبل میں اس کی کون سی بیماریاں ہو سکتی ہیں۔ اور اس کی ان کمزوریوں کا کیا علاج اس کی ضرورت ہو سکتا ہے۔ لہذا وہ اشتہارات جو آج اپنی ضرورت نہیں سمجھ رہے وہ بھی آپ کی آنکھوں کے آگے سے گزارتا ہے۔ جس کے نتیجے میں آپ کے اردگرد سوشل میڈیا میں مختلف قسم کے اشتہارات اور ترغیبات کی بھر مار ہو جاتی ہے۔
آج سے 10 سال قبل مجھے انسان میں موجود الگورتھم پڑھنے کی ٹریننگ میرے استاد محترم نے دینا شروع کی قدیم دنیا میں اسے روحانی مشاہدہ کہا جاتا تھا لیکن رموز معرفت جدید میں انسان کو سمجھنا مکمل طور پر ایک سائنسی عمل ہے۔ جو کشف و کرامات پر نہیں بلکہ تجربات پر بننے والے انسان کا تجزیہ ہے اور اسی تجزیہ کی بنیاد پر مستقبل کا لائحہ عمل یا پیشگوئی کی جاتی ہے۔ جس طرح موسم کی پیش بینی۔ اس لئے انسانی حرکات سومنات یعنی اس کے الگورتھم کو سمجھنے کے لئے استاد محترم نے میرے قریب چند ایسے مرد و خواتین رکھے جن کی تربیت والدین اور اساتذہ نے نہیں کی تھی، بلکہ وقت اور حالات کے اتار چڑھاو میں وہ پروان چڑھے تھے۔
ان میں سے ایک خاتون جو مجھ پر فریفتہ تھیں اور ان کے بقول میں ان کی کم از کم آخری محبت تھا۔ مجھ سے ملنے کی شدید خواہش کرنے لگیں۔ جب وہ مجھ سے ملنے آئیں اور جب وہ واپس گئیں تو انہوں نے نہائت تفصیل سے تمام ملاقات کس طرح میں نے انہیں pick کیا سے کس طرح میں نے انہیں ڈراپ کیا جب بیان کیں اور وہاں ماحول میں موجود جزیات کا جس طرح انہوں نے منظر کھینچا۔ اس الگورتھم نے مجھے سمجھا دیا کہ یہ خاتون اس تمام کام کی عادی ہیں اور جیسا کہ ان کا اصرار تھا کہ وہ پہلی مرتبہ مل رہی ہیں کسی بھی اجنبی سے۔ کم از کم ان کا الگورتھم اس کے خلاف تھا۔ اور جذبات اور عشق کی رو میں بہہ کر نہیں آئیں تھیں۔ بلکہ ہر طرح سے سوچ سمجھ کر اور سابقہ تجربات کی روشنی میں قدم اٹھا کر آئیں ہیں لہذا میں ان کے الفاظ کی قید سے آزاد ہوگیا۔
جو وہ مجھے اعتبار دلانے کے لئے کہتی تھیں۔ اس کے بعد اس کی تمام قسمیں وعدہ الگورتھم کی پرکھ پر پورے نہیں اترے۔ کیونکہ ان کے جسم کا الگورتھم ان کے الفاظ کے خلاف تھا۔ تب میں نے انھیں یہ بات کہی کہ تم یہ عاشقی معشوقی بار بار کرو گی اور میرے ہوتے ہوئے تم دوسروں سے تعلق جوڑو گی۔ جس پر انہوں نے مجھ سے شرط لگائی کہ ایسا کم از کم اس زندگی میں نہی ہوگا۔ لیکن جب ایسا ہی ہوا تو میرے پوچھنے پر وہ بولی آپ کی زبان کالی تھی آپ کی بدعا مجھے لگئی ہے۔
اسی طرح جب مرد شادی کی پہلی رات، یا کسی خاتون دوست پر اپنا رعب ڈالنے کے لئے ایک بھونڈا طریقہ اختیار کرتے ہیں جس میں وہ اپنے سابقہ معاشقے اور ذلالت مرچ مصالحے گا کر سناتے ہین۔ اگر سامنے بیٹھی عورت جذبات سے نکل کر آرٹیفشل انٹیلیجنس کے الگورتھم کی طرح تجزیہ کرے تو وہ یہ بہت آسانی سے جان سکتی ہے کہ یہ شخص گزشتہ خواتین کے ساتھ والا رویہ ہی اس کے ساتھ بھی استعمال کرے گا۔ یہ ہر جگہ منہ مارے گا۔ اگر نئی شادی ہے یا نئے جذبات ہیں تو زیادہ سے زیادہ ایک سال بعد یہ اپنے پرانے الگورتھم پر دوبارہ آجائے گا۔
اسی طرح جب آپ کسی سے کاروبار کریں۔ کسی سے معاہدہ کریں یا کسی کو ہمسفر چنیں۔ تھوڑا سا جذبات سے عاری ہو کر اس کا معائنہ کریں۔ یقین کریں اس کے تمام اعضاء چیخ چیخ کر آپ کو اس کے ساتھ آپ کے حال اور مستقبل کی پیش گوئی کر رہے ہوں گے۔ وہ مشہور مثال کہ اگر آپ کسی کو اپنا ہمسفر چننا چاہتے ہیں تو اسے کسی ہوٹل میں مدعو کریں اور اس کا رکھ رکھاو اور ویٹرز سے پیش آنے کا رویہ دیکھیں آپ کو اندازہ ہو جائے گا وہ کیسا آدمی یا خاتون ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ 80 فیصد آپ کے اندازے اور مستقبل بینی کسی بھی شخص سے متعلق درست ہوگی۔
ایک مرتبہ کسی نے دو گواہ پیش کیے، ایک کے معاملات تو حضرت عمرؓ کو معلوم تھے لیکن دوسرے کے معلوم نہیں تھے۔
آپؓ نے پوچھا کہ اس شخص کے معاملات کسی کو معلوم ہیں۔ مجلس میں ایک شخص نے کھڑے ہوکر کہا کہ ہاں مجھے معلوم ہے۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ کبھی اس شخص کے ساتھ اکٹھا سفر کیا ہے؟ کبھی کوئی لین دین کا معاملہ آیا ہے؟ کیا یہ تمہارا پڑوسی ہے؟ اس شخص نے جواب دیا کہ نہیں؟ حضرت عمرؓ ارشاد فرمایا کہ آپ نے ان کو مسجد میں نماز پڑھنے اور روزہ رکھتے دیکھا ہوگا اس وجہ سے اس کے عادل ہونے کی گواہی دے رہے ہو۔ اس نے کہا کہ ہاں۔ تو حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ پھر تو آپ اس کو نہیں جانتے۔
یوال نواح ہراری کہتا ہے کہ زبان سیکھنا کوئی کمال نہیں غیبت کرنا کمال ہے۔ یہ طوطے، یا بندر یا دیگر مخلوق بھی زبان سیکھ جاتی ہے۔ دراصل انسان کا کمال اس واقعہ کو بیان کرنا ہے جسے نواح ہراری غیبت کا نام دیتا ہے۔ یعنی کسی بھی واقعہ کی تفصیل بیان کرنا اس میں آپ کے اعضاء، حرکات و سکنات gesture لہجہ اور ذہنی استعداد vocabulary کا استعمال ہے۔ یہ انسانی کو دوسرے جانوروں سے ممتاز کرتا ہے۔ جبکہ مذہب اسی بات کو جسے پروفیسر یوال نوح غیبت کہتا ہے۔ اسے اظہار کا ذریعہ یا نطق انسانی کہتا ہے۔
یہی انسانی رویہ اس کے اعضاء اس کی غیبت کرتے ہیں بس ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ کچھ دیر کے لئے اپنے مد مقابل اپنے حریف، پارٹنر یا معشوق کو جذبات سے عاری ہو کر دیکھیں سنیں اور سمجھیں۔ یقین کریں آپ کو اس حدیث پر اعتبار آجائے گا کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔ پہلے تو مومن ہر سوراخ میں انگلی ہی نہیں ڈالتا۔ لیکن اگر جذبات اسے مجبور کر بھی دیں تو دوبارہ اس کی نظر جذبات سے عاری ہو کر مشاہدہ کرتی ہے۔ اور اگر دوبارہ اسی سوراخ میں انگلی ڈال رہا ہے تو یا تو وہ مومن نہیں اور یا وہ ڈسے جانے کا شوقین بن چکا ہے۔
لوگوں کو سمجھنے کے لئے ان کے الگورتھم پر غور کریں۔ یقین کریں انسان کے اعضاء اس کے خلاف صرف قیامت کے دن ہی گواہی نہیں دیں گے یہ دنیا میں بھی انسان کے اصل رویہ کی چغلی کھاتے ہیں۔ یہ جذبات، مفادات، یا خواہشات کی پٹی ہے جو انسان کو کچھ دیر کے لئے اندھا کر دیتی ہے۔ تب یہ قصور آپ کے الگورتھم کا ہے کہ اس کی پرورش خواہشات نے کی ہے اس دھوکے کا الزام کسی کو مت دیں۔ بس خاموشی سے دوبارہ اپنے الگورتھم پر کام شروع کر دیں۔ یہی گمراہی کے بعد ہدایت کی طرف پلٹ آنے کا اصول ہے۔