1.  Home/
  2. Blog/
  3. Saleem Zaman/
  4. Algorithm, Azaa Ki Chughli, Momin Ki Ungli Aur Sorakh (1)

Algorithm, Azaa Ki Chughli, Momin Ki Ungli Aur Sorakh (1)

الگورتھم، اعضاء کی چغلی، مومن کی انگلی اور سوراخ (1)

آج سے کوئی 5 سال قبل میں جدید خوراک (junk food) اور پورنو گرافی کے درمیان ربط پر ایک لیکچر تیار کر رہا تھا۔ اس سلسلے میں بہت سا کام خوراک کے اجزاء ترکیبی (یعنی ان میں شامل کیمیکل اور ان کے اثرات) کے ساتھ ساتھ مجھے بہت سی فحش ویب سائٹس، ان کا طریقہ کار اور ان کا طریقہ ذہن سازی ان میں استعمال ہونے والے انفرا ساونڈ یا beta version میوزک کے اثرات پر کام کرنا پڑا۔ بہت عرصے بعد فحش مواد دیکھا۔ اس میں ہونے والی جدت سے بہت متاثر ہوا اور حیران ہونے کے ساتھ شدید خوفزدہ بھی کہ اب اس انڈسٹری سے نہ کوئی بڑا بوڑھا اور نہ کوئی نوجوان یا بچہ بچ پائے گا۔ "سوائے اس کے جس کی حفاظت خدا کرے" (یہ جملہ مضمون کے آخر تک یاد رکھیے گا)۔

ان فحش ویب سائٹس کا جو نقصان آئیندہ 6 ماہ تک ہوا وہ یوں تھا کہ جب فیس بک کھولتا ایک سیلاب اشتہارات کا ہوتا، جن میں فحش مواد کی بھرمار ہوتی۔ مختلف طریقے موجود تھے جن میں مجھے اپنی عمر کے مطابق ایک عیاش زندگی گزارنے کی ترغیبات شامل ہوتیں۔ ایسے ایسے لنک کہ بس اللہ کی امان، پھر میرے تمام سوشل میڈیا اکاؤنٹ حتیٰ کہ email پر بھی فحش لنک اور مخصوص اعضاء کی شاعری کی بھر مار ہوگئی۔ میں ان دنوں اپنے ذہن کو ریلیکس کرنے کے لئے چند ویڈیو گیمز کھیلتا تھا وہاں بھی اشتہارات میں جنونیت کی حد تک غلاظت بھر گئی۔ اور یہ معاملہ ختم ہونے کی بجائے دن بدن بڑھتا جا رہا تھا۔

آخر تنگ آ کر ایک دن اپنے چند بہترین ہم عمر دوستوں سے اس مسئلے کو حل کرنے کا کہا تو وہ بولے یار تو ٹھرکی ہے دیکھنا بند کر دے، تو رک جائے گا۔ میں نے انہیں برا بھلا کہا اور بتایا کہ قسم لے لو جو ایک منٹ بھی اس بکواس کو دیکھتا ہوں مگر ہر روز اس کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اب تو کچھ خواتین کے حتیٰ کہ نوجوان لڑکوں کے میسج بھی آنا شروع ہو گئے ہیں کہ کوئی پروگرام ہے تو بتاو؟ اب بات حد سے آگے نکل گئی ہے۔ وہ ہنستے اور کہتے کچھ لنکس تو بھیجو۔

ڈرتے ڈرتے آخر نوجوان نسل سے رابطہ کرنا پڑا۔ جنہیں سمجھانے کو میں نے یہ سب شروع کیا تھا۔ اپنے بڑے بھانجے سے نہایت شرمندگی سے بات کی کہ بھانجے! پھنس گیا ہوں کیا کروں۔ وہ کنجر پہلے تو دانت نکال کر پھر بڑے ماموں کے احترام میں دانت چھپا کر دو دن تک ہنستا رہا۔ جب اسے ڈانٹ پلائی تو بولا ماموں اس کا آسان حل ہے۔ آپ اتنا پریشان کیوں ہوتے ہیں۔ اسے دیکھیں مت۔

الو کے پٹھے! میں تقریبا چیخا۔ تجھے لگتا ہے یہ بکواس میں دیکھتا ہوں؟ قسم لے لو جو میں نے کبھی ایک منٹ بھی یہ بکواس دیکھی ہو۔

وہ پھر گھوڑے کی طرح ہنہناتے ہوئے ہنسا۔ بولا ماموں یار۔ آپ نے خود ہی تو ٹاپک لکھا تھا کہ 21 ویں صدی کا سب سے خطرناک ہتھیار الگورتھم algorithm ہے۔ آرٹیفشل انٹیلیجنس کے اس دور میں ہر اپلیکیشن کا اپنا الگورتھم ہے۔ اسی طرح فیس بک اور سوشل میڈیا کا الگورتھیم یہ ہے کہ اگر آپ چند سیکنڈ کے لئے بھی کسی اشتہار پر رک جائیں گے۔ یعنی اسے صرف 5 سیکنڈ بھی دیکھ لیں گے۔ یا کسی ویڈیو کو صرف کلک کرکے اوپر کر دیں گے اور فوری طور پر بند یا ڈیلیٹ بھی کر دیں گے فیس بک یا دیگر سوشل میڈیا کا الگورتھم اسے آپ کی دلچسپی کا عنصر سمجھتے ہوئے۔ ان اشتہارات اور ویڈیوز کی ترغیب دینا شروع کر دے گا۔ دراصل یہ آپ کی خدمت کر رہا ہوتا ہے تاکہ آپ کی ترغیب اور شوق کی چیزیں آپ کے لئے مہیا رکھے۔

میں نے کہا لعنت ہے ایسی خدمت پر کہ زمانے میں رسوا کر دیا ہے۔ اب اس کا حل بتاو؟ میں تو ان کو بلاک کر کرکے تنگ آگیا ہوں۔ وہ بہت ہنسا اور بولا ماموں آپ جانتے بھی ہیں کہ الگورتھم ایک طرز پر کام کرتا ہے، اسے دھوکہ دیں۔ آپ تین دن صرف اپنے شوق کی ویب سائیٹس، اور ویڈیوز کھیلیں اور دیکھیں۔ ان pages پر جائیں جو آپ کا شوق ہے۔ یہ خود بخود ختم ہو جائیں گے۔ ورنہ انہیں ڈیلٹ کرنے کے لئے بھی جب آپ انہیں کلک کریں گے یہ الگورتھم کی نظر میں آپ کے شوق کے طور پر آجائے گا اور پھر میرے شوق دا نہیں اعتبار تینوں۔

اب بھانجے کو کیا بتاتا کہ کچھ کچھ تو اب مجھے یہ سب بھی اچھا لگنے لگا ہے۔ مگر عمر اور مذہبی لبادہ جو میں نے اوڑھ رکھا تھا اس کا تقاضہ تھا کہ سب کے سامنے یہ سب نہ آئے تو۔ واقعی چند دنوں میں جب میں نے اسپورٹس اور کامیڈی اور قدیم کھنڈرات کے پروگرام دیکھنے شروع کئے تو یہ فحش بھر مار ختم ہوگئی۔ لیکن ایک کام الگورتھم اب بھی کر رہا تھا۔ وہ مجھے میرے سابقہ شوق کے مطابق اسپورٹس میں ہونے والے جنسی واقعات، کھندرات میں بننے والی جنسی ویڈیوز اور حتیٰ کہ ٹام اینڈ جیری کارٹون کا بھیانک گندہ ورژن بھی کبھی کبھی ارسال کرتا رہتا کہ شاید کوئی پرانا شوق پھر جاگ جائے۔ لیکن میں اسے نہ کھولتا اور نہ ہی ڈیلیٹ کرتا لیکن اسے گزار دیتا۔ الگورتھم کو میرے شوق یاد رہتے ہیں آج 5 سال بعد اب بھی وہ مجھ کو میرے شوق کے علاوہ بھی ترغیبات دیتا ہے۔ تھوڑا تھوڑا ورغلاتا ہے۔ شاید اسے معلوم ہے کہ میں خفیہ طور پر کبھی کبھی ان خرافات کا نہ چاہتے ہوئے۔ بڑی بے توجہی اور کراہت سے انہیں دیکھ ضرور لیتا ہوں۔

الگورتھم آپ کے پاس موجود ایندائیڈ فون، آئی فون یا کسی بھی آرٹیفشل انٹیلیجنس کا بنیادی جز ہے۔ چاہے کار ہو یا ہوائی جہاز موبائل ہو یا گھڑی۔ لیکن یہ الگورتھم دراصل ہے کیا۔ تو اس کی تعریف نہائت آسان ہے۔

الگورتھم دراصل ہدایات کا ایک مجموعہ ہے۔ تعریف واقعی اتنی ہی مختصر اور آسان ہے۔ الگورتھم اتنا آسان ہوسکتا ہے جتنا اس طرح ہدایات دیں۔

مثلا، الگورتھم کی ایک عمومی مثال جسے ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں استعمال کرتے ہیں وہ ایک نسخہ ہے۔ ہدایات کا یہ مجموعہ ہمیں وہ سب جزو فراہم کرتا ہے جن کی ہمیں ضرورت ہوگی اور ان اجزاء کے ساتھ کیا کرنا ہے اس کی ہدایت دی۔ مثلا ایک چٹ پٹی کھانے کی ریسپی۔ جس کی ہدایات پر عمل کرکے اور مطلوبہ اشیاء کی مقررہ تعداد فراہم کرکے آپ بھی ویسا ہی مزیدار کھانا تیار کر سکتے ہیں جیسا کہ ہدایات میں درج ہے۔ لیکن ان ہدایات میں سے کسی ایک ہدایت کو مس کر دینے سے نتائج درست نہیں آئیں گے۔ سادہ زبان میں آپ اسے کمپیوٹر پروگرامنگ کی درجہ بہ درجہ ہدایات کہہ لیں یا کیمسٹری بیالوجی کے ایک تجربہ میں استعمال ہونے والے اجزاء کا صحیح استعمال۔

الگورتھم کا بانی ایک مسلمان سائنسدان محمد ابن الموسی الخوارزمی تھا۔ لیکن جدید الگورتھم کا موجد برطانوی سائنسدان اور کمپیوٹر کے ماہر ایلن ٹیورنگ کہلائے۔ مشہور بیست سیلرز کتاب 21 ویں صدی کے 21 اصول کے مصنف پروفیسر یوال نواح ھرارے تو الگورتھم سے اتنے گھبرائے ہوا ہے، کہ وہ الگورتھم کو اکیسویں صدی کے خدا کے طور پر پیش کرتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ "یہ بات بھی یقینی ہے کی آئندہ چند دہائیوں میں ٹیکنالوجیکل انقلابات برپا ہوں گے اور بنی نوع انسان کے لئے اب تک کی بڑی آزمائشیں لائین گے۔ اب انسانوں میں وہی کہانی چل سکے گی جو انفو ٹیک infotech یا بائیو تیک biotech کا مقابلہ کرنے کی اہل ہوگی۔ اگر لبرل ازم، قوم پرستی، اسلام یا کوئی بھی نیا عقیدہ یا نظریہ 2050 کی نئی دنیا تشکیل دینا چاہے گا تو اس کے لئے ضروری ہوگا کہ مصنوعی ذہانت، Artificial intelligence، بگ ڈیٹا ایلگورتھم اور بائیو انجنئیرنگ کی سمجھ بوجھ حاصل کرے"۔

انسانی جذبات کے مقابل جب پروفیسر ہرارے بائیو کیمسٹری الگورتھم کو کھڑا کرکے عقلیت کی دلیل دیتا ہے تو لکھتا ہے کہ "اگر جذبات اور روئیے محض بائیو کیمسٹری الگورتھم کا نتیجہ ہیں تو پھر انہیں سمجھنے میں کمپیوٹر کیوں انسانوں سے پیچھے رہ سکتے ہیں۔ یہ مصنوعی ذہانت والے کمپیوٹر انسانوں کے چہرے اور آواز کے ردعمل سے اندازہ لگا لیں گے کہ سامنے والا کیسی شخصیت کا مالک ہے"۔

چونکہ الگورتھم کی بنیاد اسلام نے رکھی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہدایات کا مجموعہ دراصل الہامی کتاب القرآن ہے۔ جو الگورتھم کی اعلی ترین مثال ہے۔ اس میں نیک اعمال کا نتیجہ جنت اور اعمال غیر صالحہ کا نتیجہ جہنم ہو سکتا ہے اور درجہ بہ درجہ ہدایات اور واقعات اور مثالوں سے سمجھایا گیا ہے کہ نیک اور بد کی شناخت کیا ہے۔ مثلا اگر کوئی شخص جھوٹ بولتا ہے، تو وہ لازمی دھوکہ دے گا، جس کا نتیجہ لڑائی، فساد غیبت اور لوٹ مار اور ہوس کی تسکین ہو سکتا ہے۔ جس کے نتیجے میں قتل و غارت، بے انصافی ہوگی اور بے انصافی جب بڑھے گی تو قحط اور دیگر معاشرتی امراض پیدا ہوں گے لہذا اس انتشار کا باعث جھوٹا ہے۔ اب اگر وہ اپنی اصلاح نہیں کرتا تو یہ علامات اسے جہنم میں لے جائیں گی۔ اس سے ہمیں اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اہل جہنم کے خدو خال کیا ہو سکتے ہیں۔

Check Also

Sahafi Hona Itna Asaan Bhi Nahi

By Wusat Ullah Khan