Yaseeyat Umeed Per Muqaddam Hain
یاسیت امید پر مقدم ہے
قدیم یونان میں لوگ زندگی کے کسی پہلو کو سب سے زیادہ سنجیدہ لیتے تھے تو وہ ٹریجڈی تھا۔ ٹریجڈی سے انہیں عشق تھا۔ شنید ہے، رسل سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ کو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ بعد از مرگ کوئی ایسی دنیا ہونی چاہیے جہاں اِس دنیا کی تمام ناانصافیوں کا مداوا ہو؟ رسل کا جواب تھا کہ اِس کائنات کا تمام تر نظام مبنی ہی شکست و ریخت پر ہے۔
اور اسی حقیقت کا ادراک یونانیوں کو تھا۔ یعنی تباہی، بربادی، جنگ و جدل، بے معنویت اور یاسیت انسانی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہیں۔ پانچویں صدی قبل مسیح میں جب ایتھنز کی ریاست اپنی طاقت اور عظمت کے عروج پر تھی تو دنیا کے اس اوّلین جمہوریہ کے شہری سالانہ میلے کی صورت میں عظیم فنکاروں کی ٹریجڈیز دیکھنے جمع ہو جایا کرتے تھے۔
عوامی خزانے سے بڑے بڑے سٹیج شوز سجتے، عوام کی جمِ غفیر اکھٹی ہوتی۔ صبح سے شام تک سٹیج پہ کرداروں کے فن اور کرتب کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے۔ اور ٹریجڈی سے محظوظ ہو کر سرِشام اپنے گھروں کو لوٹ جاتے۔ ان سٹیج ڈراموں کے پلاٹس اور سٹوری لائنز تو مختلف ہوتے مگر آخر میں سبق عموماً ایک ہی ہوتا، اہم افراد عظمت کی بلندیوں سے اپنی کمی کوتاہیوں، لاپرواہیوں، لاعلمی یا غیر ضروری تفاخر کی وجہ سے گمنامی اور ناکامی کی کھائیوں میں جا گرتے۔
ارسطو کے مطابق ایتھینز کے باشندوں کا ٹریجڈی کے حوالے سے اتنا حساس ہونا، اور اس کے ساتھ اتنا شغف رکھنا یہ باور کراتا ہے کہ وہ لوگ مستقبل میں رونما ہونے والے ناخوشگواریوں کے متعلق زمانہ حال میں زیادہ فکر مند رہتے تھے۔ اور ارسطو نے سامعین پر ٹریجڈی کے اثرات کے حوالے سے لکھا کہ وہ عموماً بلند پایہ کرداروں کے زمین بوس ہو جانے کو پسند کرتے تھے۔
کیونکہ اس سے جہاں خوف کا ایک پرلطف احساس ملتا تھا، وہیں یہ ان کے لیے کتھارسس کا انمول ذریعہ تھا۔ بلکہ ایتھنز میں انفرادی، سماجی اور سیاسی زندگی بنیادی طور پر اسی فکر میں گوندھی ہوئی تھی۔ وہ زوال کو بڑے اچھے سے سمجھتے تھے۔ ناکامی، تباہی اور بربادی کا انہیں بڑا ادراک تھا۔ تاریخ کے جبر اور اس کی غیرہموار رو سے وہ شعوری واقفیت رکھتے تھے۔
سلیم انصاری کی زبان میں سادھو بدھا بھی کہہ چکا ہے، کہ یہ ساری موہوم و بے نشاں کائنات دکھ ہے۔ ثبات دکھ ہے، دوام دکھ ہے، تمام دکھ ہے۔ اور اس دکھ کو یونانیوں سے زیادہ کوئی سمجھا نہیں، کوئی جانا نہیں۔ ایسکیلیس، سوفوکلیس اور یوریپیڈس کی ٹریجڈیز سے ان کے لگاؤ کو محض تھیٹر تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ یہ بنیادی انسانی فطرت اور زندگی کی بنیادی حقیقت سے ان کی واقفیت تھی۔
وہ خزاں میں بہار سے زیادہ، بہار میں خزاں کا سوچنا پسند کرتے تھے۔ وہ ٹوٹ پھوٹ، تباہی، تخریب اور شکست و ریخت کو بنیادی فطری حقیقت گردانتے ہوۓ، اسے سمجھتے ہوۓ، اس سے بچنے کی ہرممکن کوشش کرتے۔ اور یوں انفرادی، سماجی اور سیاسی ترقی کے مدارج طے کرنا چاہتے تھے۔ ٹریجڈیز کو وہ مستقبل کے خطرات سے نمٹنے کے لیے مؤثر ترین ہتھیار خیال کرتے تھے کہ یہ انہیں اجتماعی ذمہ داری کا احساس دلانے کی وجہ تھیں۔
انفرادی طور پر بھی زندگی کی بے معنویت اور اس بےمعنویت کی بنیاد پر یاسیت پسندی سے زیادہ حقیقت پسندانہ چیز کوئی نہیں ہو سکتی۔ یاسیت پسندی ایک انتہائی آزاد، بے چین اور تخلیقی دماغ کا وصف ہوتا ہے۔ ایک ایسا آزاد دماغ جو دنیا کو اس کی تمام تر تاریکیوں اور بربادیوں کے ساتھ سمجھتا ہے۔ ایک ایسا ذہن جو بےمعنویت کے ایک صاف شفاف شیشے کی صورت میں انسانی زندگی کا تصور کرتا ہے۔
زندگی اور فطرت کی ٹریجڈیز سے ایک یاسیت پسند ذہن سے زیادہ شناسا کوئی نہیں ہو سکتا۔ انفرادی طور پر جب کسی شخص کو اس حقیقت کا ادراک ہو جاتا ہے کہ کسی قسم کا بت مقدس نہیں، تمام تصوّرات سراب ہیں، تمام خیالات مصنوعی اور من گھڑت ہیں، تمام بت ہمارے اپنے تراشیدہ ہیں، تمام آسمان ہماری اپنی ذہنی اختراع ہیں، تمام آوازیں ہماری اپنی ہیں۔
جو اوپر پہونچ کر واپس ہمیں لوٹ آتی ہیں، تمام روایات انسانی ذہن کی پیدا کردہ ہیں، تمام قوانین بنی نوع انسان کی تخلیقات ہیں، سب انسانی ذہن کا کنسٹرکٹ کردہ ہے، تمام عقل کی عیّاری ہے، سب معنی کی تلاش ہے، اور کچھ نہیں۔ تو اس عظیم ادراک کے بعد جو رہ جاتا ہے، وہ کیا ہے؟ یاسیت ہے۔ یعنی کچھ نہیں ہے۔ وجود ہے اور وجود کا اپنا بار جسے اس نے اٹھانا ہے۔
بحرِ بے تہہِ ہستی کو سراب سمجھنے میں کامیاب و کامران دماغ ہی ایک اعلی دماغ کہے جانے کا حقدار ٹھہرتا ہے۔ یہ ذہن ٹریجڈی کی تہہ میں جا کر اسے ڈھونڈ نکال لایا ہوتا ہے۔ یہ خیالات، نظریات، تصورات، عقائد اور مقدسات کے ملبے تلے دبے زندگی کی خالی سلیٹ کو کامیابی سے باہر نکال کر لانے والا بے چین، مگر آزاد اور مضبوط دماغ ہوتا ہے۔
وجود کی ٹریجڈی کو پالینے والا دماغ۔ اس ٹریجڈی کے بوجھ کو شعوری طور پر اٹھانے والا دماغ۔ ایک مستعد اور چالاک دماغ۔ وجود کی ناقابلِ برداشت لطافت کے بوجھ کو تسلیم کرنے والے انسان تخلیق کی اس معراج کو پہونچتا ہے کہ اب اپنے اس اکلوتے اور فانی وجود کی بقا کے لیے وہ ہزار جتن کرتا ہے۔ تکلیف اور یاسیت جب اسے تباہی اور بربادی کی حقیقت کے مد مقابل لاکھڑا کرتے ہیں۔
تو وہ اپنی تمام تر استعداد اور صلاحیتوں کو بروۓ کار لا کر ان تباہیوں کے سامنے وجود کی کامیابی کو یقینی بناتا ہے۔ اب وہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی کی خالی سلیٹ کو پُر کرتا ہے۔ وہ اسے تخلیق، جمالیات، فنونِ لطیفہ، مزاحمت غرض جو جو اسے اس کی وجود کی ضمانت دیتے ہیں، اس سے اس سلیٹ کو سجاتا ہے۔ اپنی زندگی کو معنویت بخشتا ہے۔
اپنی ترقی اور بقا کا ضامن خود بنتا ہے۔ اسی طرح ایک قوم بھی۔ تباہی کا ادراک اور ٹریجڈی سے شغف اسے ترقی و خوشحالی کی راہیں کھوجنے میں مدد دیتا ہے۔ ایمرسن نے کہا تھا۔ عظیم اشخاص، عظیم اقوام شیخیاں بگھارنے والے احمق نہیں رہے ہیں۔ بلکہ زندگی کو اس کی تمام تر دہشتناکی کے ساتھ سمجھ کر خود کو اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرنے والے رہے ہیں۔
یونانیوں کو زندگی کی تمام تر ہولنا کیوں کا ادراک تھا۔ تبھی علم، فلسفہ، ادب، فنونِ لطیفہ اور تہذیب کی ترقی میں وہ جدید انسانی تاریخ کے علمبردار بنے۔ سو یہ واضح ہے کہ یاسیت پسندی کی غیر موجودگی اور تباہی سے ناآشنائی فرد اور قوم کو ذہنی طور پر نرگسیت کا شکار بنا دیتی ہیں۔ میرے دعوے کو بے شک غلط مان لیجیے۔ مگر ارد گرد سات دہائیوں سے جو ہجوم سا نظر آرہا ہے، اسے دیکھیے۔
کیا اس ہجوم کو بربادی کا ادراک ہے؟ کیا یہ موجودہ سماجی، سیاسی اور اقتصادی تباہی و بربادی کے باوجود ستاروں پر کمند ڈالنے کے گھمنڈ اور سراب میں مبتلا نہیں ہیں؟ کیا یہ خود بحرِ ظلمات کا شکار ہوتے ہوۓ بھی ان میں گھوڑے دوڑانے کا اب بھی نہیں سوچتے؟ کیا اس تعفن زدہ سماجی صورتحال کو نظر انداز کرتے ہوۓ یہ خود کو سب سے اعلی و ارفع تصور نہیں کرتے؟
کیا ثریا سے زمین پر آسمان نے ان کو دے نہیں مارا ہے؟ اور یہ اس سے بے خبر نہیں ہیں؟ اگر ہاں، تو یہ سب کیا ہے؟ یہ نرگسیت نہیں تو اور کیا ہے؟ جھوٹ، سراب، دھوکہ دہی نہیں تو کیا ہے؟ انفرادی سطح پر بھی یہی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ بے چین مگر آزاد، مضبوط اور تخلیقی دماغ خال خال ملتے ہیں، مگر امید کی کرنیں سب میں ہمہ وقت روشن ہیں۔ چراغیں یہ بجھ جائیں، دعا کرے کوئی۔
سو، جیسے وجود جوہر پر مقدم ہے، بعینہٖ یاسیت امید پر مقدم ہے۔ تبھی، میں انفرادی طور پر تمام زندگی کے حوالے سے یاسیت پسند ہوں۔ تبدیلی کے حوالے سے یاسیت پسند ہوں۔ انقلاب کے حوالے سے یاسیت پسند ہوں۔ خوشحالی کے متعلق یاسیت پسند ہوں۔ آزادی کے حوالے سے مکمل طور پر مایوس اور یاسیت پسند ہوں۔ اور مطلق شئے تو ویسے بھی کوئی نہیں۔ مطلق آزادی بھی کوئی نہیں۔ مگر چونکہ وجود کی بہتر بقا بہتر بیرونی حالات میں ممکن ہوتی ہے۔
تبھی میں بہتر بیرونی حالات کی خواہش، اس کی جستجو اور کوشش ترک نہیں کر سکتا۔ یہی بوجھ ہے، مسلسل رہنے والی تکلیف۔ سسیفس کا وہ گول پتھر جسے مسلسل پہاڑ کی چوٹی تک پہو نچانے کے لیے وہ دھکیل رہا ہے۔ میں بھی دھکیل رہا ہوں۔ مگر مجھے پہاڑ کی بے انتہا بلندی کا ادراک ہے۔ فطرت کی تباہ کاریوں، پتھر کے بوجھ کا سامنے کرتے یاسیت پسندی کی چادر اوڑھے پتھر دھکیلتا شخص، ٹریجڈی کی چادر کی اوٹ سے وجود کی بقا کو تلاشتا ہوا۔