Zindagi Aur Maut Dono Hi Mushkil
زندگی اور موت دونوں ہی مشکل
ہمارے پیارے ملک پاکستان کے بارے میں کہا جاتا ہےکہ یہاں زندگی گزارنا اسان نہیں۔ ایک طویل اور سخت جدوجہد کے بعد بھی اپ پرسکون زندگی گزارنے کے قابل نہیں ہوتے(یاد رہے میں، عام، کی بات کر رہی ہوں، خواص، کی نہیں) دنیا کے معاشی حالات تو اب جا کر خراب ہونے ہیں۔ مگر ہمارے ملک میں عوام کے لئے زندگی ہمیشہ سے نا ہموار رہی ہے۔ بچپن کے معصوم اور پر لطف راستے چھوڈ کر جب شعور کی منزل پر قدم رکھتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے والدین کی قدر ہوتی ہے۔
والدین کی محبت ان کا خیال رکھنا۔ ہم ان سب چیزوں کو اپنا حق سمجھ کر وصول کرتے ہیں۔ مفت کی چیز، جو ہمیں ملنی ہی ہے۔ سوچیں یہ وہ ہستیاں ہیں۔ جنھوں نے اپنی جوانی کے بھرپور دن ہم پر قربان کر دئے، اچھا نوالہ پہلے ہمیں کھلایا بعد میں اپنے منہ میں ڈالا۔ وہ کمائی جس پر صرف ان کا حق تھا، انھوں نے ہم پر لٹا دی۔ ہمارے ملک میں یورپ اور دیگر ممالک کی طرح بچے کی پیدائش پر کوئی سہولت نہیں دی جاتی۔
زندگی کی ابتدا کے بعد سے بچے کے اس دنیا میں انے تک کا عمل انتہائ مشکل بنا دیا گیا ہے۔ اور یہاں کا ہیلتھ سسٹم تو ایسا ہےکہ اگر اپ پرائیوٹ ٹریٹمنٹ کروا رہے ہیں۔ تو اپنی کمائی کا ایک بڑا حصہ اس کے لئے مختص کر دیں۔ اور گورنمنٹ ہسپتال میں جائیں تو ایک بیماری کا علاج ہو نا ہو چار مزید اپ کو لگ جائیں گی۔ ںجلی، پانی، گیس، بھی خرید کر استعمال کریں یعنی کھانے کے ایک نوالے سے لے کر وضو کے پانی تک اپ کے پیسے خرچ ہوتے ہیں۔
ان حالات میں ںچوں کی پرورش کرنے والے والدین کو سلام ہے۔ جو اپنی اولاد کے سروائیول کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اور صاحب اقتدار تو اس قدر بے حس اور بے شرم لوگ ہیں۔ کہ عوام پر حکومت کرنے کے لئے مرتے جارہے ہیں۔ عوام اپنی اولاد کو زندگی کی بنیادی ضروریات دینے کی کوشش میں مصروف ہیں پھر بھی وہ یہ ضروریات پورا نہیں کر پاتے۔ اور ان کی اولادیں اپنی اگلی دس نسلوں کے لئے مال اکھثا کرنے کی فکر میں ہیں۔
دنیا میں جینے کا حق صرف مونس الہی، بلاول زرداری، حمزہ شہباز شریف، مریم نواز شریف اور جرنلز، ججز کے بچوں کو نہیں ملا۔ عوام جن پر اپ حکمرانی کرتے ہیں۔ ان کی اولادوں کی بھی فکر کر لیں۔ عوام تو کسی کو لوٹتے بھی نہیں، بلکہ محنت کر کے کماتے ہیں۔ اپ کو ٹیکسز دیتے ہیں۔ پھر بھی اپ ان کی زندگیاں مزید تنگ کرتے جا رہے ہیں۔ زندگی بھی مشکل موت بھی مشکل اور پھر نام نہاد زبردستی مسلط کیا گیا لیڈر کہتا ہے، سکون تو قبر میں ہی ملے گا۔
سمجھنے سے قاصر ہوں ہمیں ںتانے والے خود یہ سکون اپنی قبر میں تلاش کیوں نہیں کرتے؟ خود کیوں اقتدار کے لئے مارے مارے پھر رہے ہیں؟ اپنی سیکورٹی پر لاکھوں لگاتے ہی تھے۔ اب اپنی اولادوں کی حفاظت پر بھی ہمارا پیسہ لگاتے ہیں۔ عوام کے بچے اچھی خوراک کے لئے ترسیں اور ان کی اولادوں کی جان بچانے پر آپنے ٹیکسز کا پیسہ خرچ کریں۔ شرم کا لفظ بھی ان لوگوں کے لئے چھوثا پڑ گیا ہے۔ زندگی کے اتنے تماشوں میں عمران خان کا جیل بھرو تحریک کا تماشہ شروع ہو چکا ہے۔
والدین سے درخواست ہے، اپ جس لیڈر کو چاہئں ووٹ دیں، محبت کا اظہار کریں۔ مگر اپنی اولاد کو ان کے ہاتھوں استعمال نا ہونے دیں۔ اور نوجوانوں سے درخواست ہے کہ اپنے والدین کی فکر کریں، ان کی خدمت کریں، کیونکہ جنت اپ کو ان کی خدمت کے باعث ملے گی نا کہ لیڈروں کی پیروی کرنے سے۔