Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saira Kanwal
  4. Wardi Ke Shoq

Wardi Ke Shoq

وردی کے شوق

مجھے فرسٹ ائیر میں آرمی میں جانے کا شوق پیدا ہوا۔ والدہ بے حد معصوم اور پرانے خیالات کی تھیں۔ والد کی وفات کے باعث گبھرا جاتی تھیں۔ انھیں لگا کہ لڑکی کا گھر سے دور رہنا بہت خوفناک بات ہوگی۔ فوراََ مجھے منع کر دیا گیا۔ میں نے کالج میں این سی سی جوائن کر لی۔ دس دن کا ٹریننگ پروگرام تھا۔ سوچا آرمی خاکی یونیفارم پہنوں گی۔ تصویریں کھنچوا کر سب پر رعب ڈالوں گی۔ میں نے بہت شوق سے نام لکھوایا۔ خاکی یونیفارم کے حصول کی خاطر پیسے جمع کروائے۔ جب یونیفارم ملا تومیری خوشی دیدنی تھی۔ خاکی شلوار قمیض، سبز ٹوپی اور ایک بیلٹ۔ میں نے بڑے اہتمام سے خاکی یونیفارم پہنا۔ سترہ سال عمر تھی۔ اس عمر میں زیادہ تر لڑکیاں خوبصورت ہی لگتی ہیں۔ میں دس پندرہ منٹ شیشے میں خود کو ہر زاویے سے دیکھتی رہی۔ کبھی بال کھول کر کبھی باندھ کر ٹوپی سر پر سیٹ کرتی رہی۔

صبح میں بہت خوشگوار موڈ میں یہ یونیفارم پہن کر کالج پہنچی۔ کالج گراؤنڈ میں ایک فوجی افسر کرسی پر بیٹھا، سب کی حاضری لکھ رہا تھا۔ میرا پہلا دن تھا۔ سو میں سیدھی سر کے پاس گئی اور بولی السلام علیکم سر میرا نام بھی لکھ لیں۔ میرا فرسٹ ڈے ہے۔

سر نے مجھے ایک سرسری نظر دیکھا اور اتنی زور سے چیخ کر بولے کہ میرا دل کانپ گیا۔ سر بولے آپ کو تمیز نہیں، سیدھی میرے پاس آگئی ہیں۔ نظر نہیں آرہا میں باقی اسٹوڈنٹس کی حاضری لے رہا ہوں۔

میرا چہرہ شرمندگی کے مارے سرخ ہوگیا۔ آنسو برداشت کرنے کے چکر میں گلے میں نمکین پانی محسوس ہوا۔ سہلیوں کی طرف دیکھا سب انجان اور سنجیدہ چہرے کے ساتھ کھڑی تھیں۔ میں خاموشی سے چلتے ہوئے گراؤنڈ سے باہر نکلنے لگی۔ سوچا شاید سر واپس بلا لیں گے۔ مگر سر نے آنکھ اٹھا کر نوٹس بھی نہیں کیا۔

میں کلاس میں جاکر رونے لگ گئی۔ سہلیاں سمجھانے لگیں۔ قصے سنانے لگیں، کہ تمیں تو صرف ڈانٹ پڑی ہے۔ فلاں۔ کو تو گراؤنڈ کے چار چکر لگانے کی سزا ملی تھی۔

میں خاموشی سے سنتی رہی۔ گھر آکر میرا موڈ جب ٹھیک ہوا، میں نے این سی سی چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ مجھے سمجھ آگئی۔ یہ میرے بس کا روگ نہیں۔ نا ہی میرے اندر اتنی مضبوط قوّت برداشت ہے۔ میں نے خاکی یونیفارم میں تصویر کھنچوا کر اپنا یونیفارم پہننے کا شوق پورا کیا اور خاموشی سے پڑھائی پر دھیان دیا۔

اس سارے قصے کا مقصد یہ تھا کہ ہم زندگی میں بہت کچھ کرنے کے آرزو مند ہوتے ہیں۔ مگر کر نہیں پاتے۔ کچھ کو تو مواقع نہیں ملتے اور کچھ میں صلاحیت نہیں ہوتی۔ تو پھر ہمیں صرف اپنا شوق پورا کرنے کے لیے خود سمیت دوسروں کو بھی مصیبت اور پریشانی میں مبتلا نہیں کرنا چاہیے۔ انا کی خاطر معاملات کو خراب نہیں کرنا چاہیے۔

مجھے پتا چل گیا کہ میری خواہش وردی پہن کر خوبصورت لگنے کی تھی۔ وہ میں نے پوری کر لی۔ اس سے زیادہ مجھ میں اہلیت نہیں تھی۔ میرے اندر استادِ بننے کی اہلیت تھی۔ میں نے اس شعبے کو چنا اور لطف اٹھایا۔

جب کھلاڑی، بزنس مین وزیر اعظم بنیں گے۔ جب ساری عمر گھر میں بچے پالنے کے بعد خواتین ملک کے انتظامی امور کو، سیاسی جماعتوں کو گھر اور سسرال سمجھ کر چلائیں گی۔ تو وہی کچھ ہوگا، جو آج کل ہو رہا ہے۔

جتھوں کی سیاست لگتی بڑے مزے کی ہے، مگر یہ وہ راستہ ہے جس کی آگ آسانی سے بجھتی نہیں اور جب تک سلگانے والے کو خاکستر نا کر دے، شعلے بھڑکتے رہتے ہیں۔

پاکستان میں سب سیاستدانوں کو اپنی اپنی اہلیت پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ان کے شوق پورے ہو چکے ہیں، تو سب اپنی اہلیت کے حساب سے شعبے چنیں۔ یقین مانیئے پاکستان بہت ترقی کرے گا۔ انشاءاللہ

یاد رکھیں جو حرکات سولہ سترہ سال کی عمر میں اچھی لگتی ہیں۔ وہی عمل پچاس، ساٹھ ستر سال کی عمر میں زیب نہیں دیتا، مجھے صرف اتنا ہی کہنا ہے۔

Check Also

Aik Ustad Ki Mushkilat

By Khateeb Ahmad