Waqt Ke Firon
وقت کے فرعون

سورہ یونس آیت نمبر 92 میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں۔ "سو آج ہم صرف تیری لاش کو نجات دیں گے تا کہ تو ان کے لیے نشان عبرت ہو جو تیرے بعد ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے آدمی ہماری نشانیوں سے غافل ہیں"۔
خالق اپنی مخلوق سے واقف ہے، اسی لیے چودہ سو سال قبل اپنے نبی ﷺ اور ان پر نازل کی گئی کتاب کے زریعے سب سمجھا دیا۔ سیدھا راستہ بتا دیا۔ نافرمانوں کا انجام بھی دکھلا دیا۔ پھر بھی ہم لوگ کیوں نہیں سمجھتے؟
پیغمبرِ، نبی، رسول کے ناموں سے مختص دعائیں دیکھیں۔ یہ معصوم عن الخطا تھے۔ جنت الفردوس کی بشارت تھی۔ مگر پھر بھی اللہ تعالیٰ کے حضور معافی کے طلبگار رہتے تھے۔
ولیوں، بزرگان دین اور علماء اکرام کو دیکھیں۔ ہر وقت اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی کرتے ہیں۔ معافی اور بخشش کے طلب گار رہتے ہیں۔
عام عوام پر توجہ کریں۔ بہت سے لوگ کسی کے ساتھ زیادتی کرتے ظلم۔ کرتے گھبرا جاتے پیں کہ آخرت میں پکڑ نا ہو جائے۔
غرض مجموعی طور پر ہم سب اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ کیوں کہ ہمارے دین میں روز محشر حساب کتاب کا قوی تصور موجود ہے۔ ہر مسلمان گناہ کرتے ہوئے شیطان کے بہکاوے میں آنے کے باوجود یہ جانتا ہے کہ مجھے اپنے ہر عمل کا جواب دینا پڑے گا اور میں جن لوگوں کے ساتھ زیادتی کروں گا، روز محشر میری طرف اشارہ کرتے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ سے شکایت کریں گے۔
لیکن کبھی کسی نے سوچا کہ اس وقت میری ذہانت چالاکی، دلیل سے جواب دینے کی صلاحیت میرا تکبر، میرا غرور کہاں جائے گا؟
وہ دن جب نگاہیں جھکی ہوں گی، جسم خوف کے باعث تھر تھر کانپ رہے ہوں گے اور کسی کی چھوٹی سی غلطی پر تھپڑ برساتے ہاتھ جرم کی گواہی دیں گے۔ تو کیا خالق سے رحم مانگا جا سکے گا؟
اس وقت کیا ہوگا جب بے زبان جانور اللہ تعالیٰ سے اپنی زبان کاٹے جانے کا جرم پوچھے گا؟
اس وقت کیا ہوگا جب پاکباز مرد اور خاتون اپنے کردار پر لگی تہمت کا گلہ اللہ تعالیٰ سے کریں گے اور مجرموں سے سوال ہوگا۔
اس وقت کیا ہوگا جب حکمران سے عوام کے متعلق سوال کٹہرے میں کھڑا کرکے پوچھا جائے گا؟
کیا سیاست اور تعلقات کام آئیں گے؟
کیا اس وقت پوری کائنات کی مخلوق بھی مل کر کسی کی سفارش کر سکے گی؟ اور کیا اس سفارش کو مانا جائے گا؟
کیا کوئی سیاسی رہنما اپنے پیروکاروں کو پہچانے گا؟ باپ بیٹے یا بیٹی کی طرف دیکھے گا؟
مر کر بھی زندہ رہنے کی آرزو رکھنے والوں کے لیے فرعون کی لاش کو نشان عبرت بنا دیا گیا اور ہم۔ پھر بھی عبرت نہیں پکڑتے؟
وہ وی آئی پی عمرے حج کرتے ہیں۔ ویڈیوز اور تصاویر بنواتے ہیں۔ دنیا کواپنے نیک ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔
کیا یقین ہے کہ یہ سب قبول بھی ہو جائے گا۔ جانتی ہوں اللہ تعالیٰ سے جیسا گمان رکھا جائے گا، ویسا ہی ہوگا۔
مگر مخلوق پر ظلم کرکے، اس کا حق چھین کر خالق کی خوشنودی کیسے حاصل ہوگی؟ کوئی کیوں نہیں سوچتا؟
مانتی ہوں کہ سب درست ہو جائے تو دنیا جنت نا بن جاتے اور شیطان کو دی گئی ڈھیل کہاں جائے گی؟
مگر سیدھے راستے پر چلنے والوں کے اجر کو ہم جھٹلا نہیں سکتے۔
التجا ہے کہ اشرافیہ اور صاحب اقتدار وقت کے فرعون نا بنیں۔
ہو سکے تو مصر کا ایک چکر لگا لیں۔ ممکن نہیں تو اہرام مصر کی ڈاکومنٹری دیکھ لیں۔۔ آپ کی آنکھیں بھی تکبر سے نہیں اٹھیں گی۔ آپ اونچا بول نہی سکیں گے۔ کسی کو تکلیف دیتے ہوئے ہاتھ کانپ جائیں گے۔ کیوں کہ آپ کے سامنے (نعوذباللہ) اپنے وقت کے خدا کی وہ لاش پڑی ہوگی۔ جس نے صرف تکبر میں خدائی کا دعویٰ کیا تھا اور جسے اصل بادشاہ نے رہتی دنیا تک کے لیے نشان عبرت بنا دیا۔ اس اصل بادشاہ کا خوف دل میں پیدا کر لیں۔۔

