Ustad e Mohtaram Khawaja Muhammad Zakariya
استاد محترم خواجہ محمد زکریا

پچھلے دنوں اپنے بے حد محترم استاد خواجہ زکریا صاحب کی کتاب پڑھنے کا موقع ملا۔ کتاب کا نام "کہتا ہوں سچ" ہے۔ میں ایم اے کے بعد ذاتی مصروفیات کی وجہ سے بہت عرصہ کتابوں سے دور رہی۔ مجھے علم نا ہو سکا کہ استاد محترم کی کالمز پر مشتمل کتاب شائع ہوئی ہے۔
الحمد پبلیکشنز کا شکریہ جن کے فیس بک پر اشتہارات کے باعث یہ ممکن ہوا۔ عرصہ دراز کے بعد استاد محترم کو دیکھا۔ کچھ کمزور محسوس ہوئے۔ یقین مانئیے آنکھوں کے سامنے اورئینٹل کالج کا دور آگیا۔ اتنی خوبصورت یادیں کہ جن کو یاد کرتے آنکھیں جگمگانے اور لب مسکرانے لگے۔۔
میں نے جب اورئینٹل کالج میں داخلہ لیا تو خواجہ زکریا صاحب سے نام کی حد تک پہلے سے شناسا تھی۔ بی اے میں میری اردو ادب کی بے حد محبت کرنے والی استاد ڈاکٹر مسز تسنیم مشتاق نے اپنا ایم فل کا مقالہ استاد محترم زکریا صاحب کے زیر سایہ لکھا تھا اور انھوں نے اردو ادب کی کلاس میں بارہا انھیں سراہا تھا۔
جب میں نے اورئینٹل کالج میں داخلہ لیا تو پتا چلا کہ میرے تاریخ، ادب، اردو کے استاد، محترم زکریا صاحب ہیں۔ میں نے بےحد خوشی کے ساتھ یہ بات میم مسز تسنیم مشتاق کو بتائی اور انہی کے کہنے پر زکریا صاحب سے اس بات کا ذکر کیا۔ زکریا صاحب نے کچھ سوچتے ہوئے مسکرا کا سر ہلا دیا اور دوسری بات شروع کر دی۔ میں ایک دم شرمندہ ہوگئی۔ شباب کا دور اور جذباتی عمر تھی۔ محسوس ہوا بڑی تہذیب کے ساتھ نظر انداز کیا گیا ہے۔
ان دنوں مسز تسنیم مشتاق سے فون پر اکثر و بیشتر رابطہ رہتا تھا۔ فوراََ ان سے بھی اس بات کا گلہ کر دیا۔ وہ بھی خاموش ہوگئیں۔
بعد میں مسز تسنیم مشتاق نے شاید ان سے گلہ کیا کیوں کہ جب میں دوبارہ ملی تو سلام کا جواب دیتے ہوئے بولے۔ آپ تسنیم مشتاق کی اسٹوڈنٹ رہی ہیں نا؟ میں نے بھی ہاں میں سر ہلا دیا۔
لیکن میں کتنی غلط تھی آنے والے ہر دن نے یہ ثابت کیا۔ میں نے ان کی خود نوشت میں پڑھا کہ وہ بعض اوقات اپنے ملاقاتیوں کو بھول جاتے تھے اور لوگ انھیں مغرور تصور کرتے تھے۔ آج اتنے سالوں بعد یہ جملہ پڑھ کر مسکراتے ہوئے میں نے سوچا بالکل پروفیسروں والا کام۔۔
استاد محترم زکریا صاحب کا جس نے ایک بھی لیکچر لے لیا وہ ان کا گرویدہ ہوگیا۔ یہ واحد استاد تھے جن کے چہرے پر ہر وقت ہلکی مگر دلفریب مسکراہٹ رہتی تھی۔ استاد محترم کا چہرہ تھکاوٹ یا بیزاری سے بے نیاز تھا۔
دوران لیکچر ایک مرتبہ میں نے سوال کیا سر غالب کا ذریعہ معاش کیا تھا؟ سر نے جو جواب دیا مجھ سمیت بہت سے لوگ قہقہ لگا کر ہنسے اور کچھ منہ نیچے کرکے مسکرانے لگے اور استاد محترم مسکراتے ہوئے بغور سب کا جائزہ لینے لگے۔
اور یہ ان کا مخصوص انداز تھا۔ ہمیں قہقہوں پر مجبور کرنے کے بعد خود ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ہم سب کا جائزہ لیتے۔
ہماری کلاس میں میانوالی کے گاؤں کا ایک لڑکا تھا۔ شاعر بھی تھا اور اورئینٹل کالج میں خود کو اکثر کھیت کی منڈیر پر بیٹھا محسوس کرتا تھا۔
پہلی کلاس آٹھ بجے صبح ہوتی تھی۔ ایک دن میں کلاس میں داخل ہوئی تو وہ لڑکا بڑے اطمینان سے چئیر پر بیٹھا سگریٹ کے کش لگا رہا تھا۔ باقی سب ناگواری سے اسے دیکھ رہے تھے۔ مگر کوئی اعتراض یا منع نہیں کر رہا تھا۔ میں نے سب کو دیکھا اور اٹھ کر پرنسپل آفس پہنچ گئی۔ یہاں یہ بتانا چاہوں گی کہ سر زکریا پرنسپل بن چکے تھے مگر پھر بھی ہمارا لیکچر لیتے تھے اور پہلی کلاس انہی کی ہوتی تھی۔
خیر میں آفس گئی۔ سر نے بیٹھنے کو کہا میں نے سر سے پوچھا کہ کیا یونیورسٹی میں کلاس کے اندر سگریٹ پینے کی اجازت ہے؟ سر نے جواب دیا سگریٹ کی اجازت تو پبلک پلیس پر بھی نہیں۔ تو جامعہ میں کیسے ہو سکتی ہے؟ میں نے کہا فلاں لڑکا کلاس میں سگریٹ پی رہا ہے اور مجھے بہت برا لگ رہا ہے۔
سر نے فرمایا آپ کلاس میں جائیں اور کسی سے بات مت کریں۔ میں ہاں میں سر ہلا کر جب کلاس میں گئی تو وہ لڑکا سگریٹ ختم کر رہا تھا۔ مجھے اس انداز میں دیکھا جیسے کہہ رہا ہو مجھے پتا چل گیا کہ تم نے میری شکایت لگائی ہے۔
جن لوگوں نے اورئینٹل کالج دیکھا ہے جانتے ہو گے کہ اس دور میں پرنسپل آفس اور کلاس کا فاصلہ بے حد کم تھا۔ جب میں آفس گئی تو اس لڑکے کے گاؤں کے یار بیلی بھی ادھر ہی کھڑے تھے۔ جنھوں نے فوراً اطلاع پہنچانا اپنا فرض سمجھا۔
پانچ چھ منٹ کے بعد سر زکریا کلاس میں تشریف لائے۔ ادھر ادھر کی چند باتیں کیں۔ پورا لیکچر دیا پھر جانے سے پہلے بولے۔ شاعر اور ادبا سگریٹ اور بہت کچھ پیتے رہتے ہیں۔ ہمیں اعتراض نہیں۔ اگرچے یہ عادات اچھی نہیں ہیں۔
مگر کلاس میں سگریٹ پینا بے حد ناپسندیدہ حرکت ہے۔ یہ کام مناسب نہیں۔ امید ہے دوبارہ نہیں ہوگا۔
یہ سنتے ہی اس لڑکے کے اندر کا اجڈ دیہاتی مکمل طور پر باہر نکل آیا۔ سر سے تو کچھ نہیں بولا مجھے بے حد غصے سے گھورنے لگا۔ جوابا میرا عمل بھی یہی اور زیادہ شدید تھا۔
سر زکریا نے ایک سیکنڈ میں دونوں کے رویے کو بھانپ لیا۔ فوراََ بولے میرے کلاس میں سے جانے کے بعد اس موضوع پر کسی بھی اسٹوڈنٹ نے ہرگز کوئی بات نہیں کرنی۔ مجھے کوئی شکایت نا ملے اور واقعی کسی نے کوئی بات نہیں کی۔
اگرچے پورے تعلیمی دور میں اس لڑکے نے ہر جگہ میرے خلاف باتیں کیں۔ مگر میں نے کبھی پرواہ نہیں کی۔ مگر سر زکریا کی اس حمایت سے میرے دل میں ان کا احترام اور بڑھ گیا۔ قارئین کو بوجھ نا لگے اس لیے زیادہ واقعات سے گریز کر رہی ہوں۔
ابھی ہم سر کے پرنسپل بننے کی خوشی منا ہی رہے تھے کہ پتا چلا سر تو ریٹائرڈ ہونے والے ہیں۔ انتہائی اداس کرنے والی خبر تھی۔ مجھے آج بھی وہ آخری دن یاد ہے۔ جب سب طالب علم ان سے ملنے گئے۔ تعداد اتنی زیادہ تھی کہ سر زکریا نے کہا آپ سب کلاس میں چلیں۔
سر نے ڈائس سنبھالا اور ہم سے باتیں شروع کر دیں۔ ایک لڑکے نے کہا سر آپ ایکسٹینشن کیوں نہیں لے لیتے؟ میں نے بھی بڑے بے تکے انداز میں جذباتی ہو کر بولا جی سر ابھی تو آپ بہت ینگ لگتے ہیں۔
استاد محترم نے بھرپور مسکراہٹ سے ہمیں دیکھا اور بولے میرے فلاں کولیگ نے ایکسٹینشن لی تو میں نے اس پر اعتراض کیا تھا اور کہا تھا کہ میں اپنی مدت ملازمت میں کبھی توسیع نہیں کراؤں گا۔ باتیں کرتے کرتے خدا حافظ بولا اور پہلی مرتبہ استاد محترم کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی دیکھی۔ جسے چھپانے کے لیے وہ فوراََ جماعت سے نکل گئے۔
بعد میں اپنے کاموں کے سلسلے میں اکثر اورئینٹل کالج آتے اور اسی شفقت اور محبت سے مسکراتے ہوئے ملتے۔ جو ان کی شخصیت کا ایک لازم جزو ہے۔
میں نے صرف چند ماہ سر زکریا صاحب سے پڑھا۔ مگر یہ چند ماہ بھولنے کے قابلِ نہیں۔
استادِ محترم زکریا صاحب کی حالیہ خود نوشت "پتھر نہیں ہوں میں" شائع ہوئی ہے۔
پڑھ کر محسوس ہوا کہ میں سر کی کلاس میں ہوں، سر ڈائس پر کھڑے باتیں کر رہے ہیں اور درمیان کے ماہ وسال ناجانے کہاں چلے گئے؟
اپنی ڈائری میں استاد محترم کے ہاتھ سے لکھی تحریر دیکھتے ہوئے دل تشکرکے احساس سے لبریز ہے۔
مجھے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ان سے ملنے کا موقع کبھی نہیں ملا مگر میں کبھی نہیں بھولوں گی کہ انھوں نے ایک عام سی طالب علم لڑکی کو اہمیت دی۔ شفقت کا اظہار کیا اور اسی شفقت پر مجھے آج فخر ہے۔ یہ فخر ہر طالب علم کا اثاثہ ہے۔
استادِ کی شفقت زندگی کیسے بدلتی ہے کوئی مجھ سے پوچھے کیوں کہیں اساتذہ کے معاملے میں بے انتہا خوش قسمت ثابت ہوئی ہوں۔ دعا ہے کہ محترم زکریا صاحب کو اللہ تعالیٰ صحت مند زندگی عطا فرمائے اور وہ ہمارے لیے ایسی ہی خوبصورت کتابیں لکھتے رہیں اور تمام طالب علموں کو ایسے شاندار اساتذہ کی شفقت نصیب ہو۔

