Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saira Kanwal
  4. Teenage

Teenage

ٹین ایج

میں نے اپنے بیٹے سے پوچھا۔۔ زرا اے آئی سے پوچھ کر بتاؤ۔۔ موٹر اسکلز کیا ہوتی ہیں؟ بیٹے کو میری چالاکی کا معلوم نہیں تھا۔ فوراََ موبائل چلانے لگا۔۔ پھر بولا اماں یہ وہ انسانی صلاحیتیں ہیں۔ جو فطری طور پر ہر انسان میں پانی جاتی ہیں۔ جیسے چلنا، کھانا، پینا، کسی چیز کو اٹھانا، اسے استعمال کرنا۔۔

اچھا یہ پتا کرو یہ اسکلز کس عمر میں ڈویلپ ہوتی ہیں؟

یہ انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی ڈویلپ ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ بیٹے نے جواب دیا۔

کیا مطلب بچہ پیدا ہوتے ساتھ ہی چلنا، بیٹھنا یا اپنے کام کرنا شروع کر دیتا ہے؟ میں نے مصنوعی حیرت سے پوچھا۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ تو بہت چھوٹا سا ہوتا ہے۔۔ بیٹے نے جواب دیا۔

تو پھر یہ سب اسے کون سکھاتا ہے؟ میں نے پھر پوچھا۔۔ بیٹے نے مجھ پر اپنے علم کا رعب جھاڑنے کے لیے اے آئی سے یہ سوال پوچھا۔۔

جواب ملا کہ جانوروں کو سکھانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مگر انسانی بچے کو معاشرہ، خاندان اور والدین سب کچھ سکھاتے ہیں۔

یعنی بچہ پیدائش کے بعد ایک چند پاونڈ وزن کا گوشت اور خون کا لوتھڑا ہوتا ہے۔ جو اپنی گردن کو بھی سنبھال نہیں سکتا، کروٹ بھی نہیں لے سکتا۔ کھانے پینے کے لیے بھی والدین کا محتاج ہوتا ہے۔ حتی کہ اہنی گندگی بھی صاف نہیں کر سکتا۔ میں نے پھر سوال کیا۔

بیٹا چالاکی سمجھ گیا۔ فوراََ بولا یہ تو سب والدین کرتے ہیں ان کا فرض ہے۔ ویسے بھی بچوں میں یہ قدرتی اسکلز ہوتی ہیں۔ وہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے، اسکول سے بھی یہ سب سیکھ سکتا ہے۔

آخر میں بھی اس کی والدہ تھی، ہار نہیں مانی۔۔ بولی۔۔ بالکل ٹھیک کہا کہ بچہ والدین کو جو کرتا دیکھتا ہے زیادہ تر خود بھی وہی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تو کیا تم نے کبھی دیکھا تھا کہ تمہارے بابا نے کبھی اپنے والدین سے بحث کی ہو، ضد کی ہو، کسی بھی حکم پر" کیوں" بولا ہو؟

بیٹا مسکرایا اور بولا اس کا بھی جواب پوچھ لیتے ہیں۔۔ تھوڑی دیر بعد موبائل سے سر اٹھایا اور جواب دیا۔۔ دراصل پچھلے دور میں سر جھکا کر خاموشی اس لیے اختیار کی جاتی تھی کہ بچے والدین کے سامنے دباؤ کا شکار ہو جاتے تھے۔ اس وجہ سے ان کی شخصیت میں ایسی کمزوری پیدا ہو جاتی تھی کہ وہ اپنی تمام زندگی ذہنی دباؤ کے تحت گزارتے تھے۔ ان میں سوال کرنے اور جواب ڈھونڈنے کی صلاحیت نہیں رہتی تھی۔

میں یہ جواب سن کر مسکرائی مگر ہار نہیں مانی بولی۔۔ میرے بیٹے کیا تم بحیثیت مسلمان اس بات کو مانتے ہو کہ قرآن میں کہیں یہ حکم نہیں دیا گیا کہ اولاد کی ہر بات مان کر ان پر ہر وقت محبت نچھاور کی جائے۔ کیوں کہ اولاد سے محبت انسان کی فطرت میں ہے۔ یہ وہ آزمائش ہے جس کو تمام والدین ہنس کر گلے لگاتے ہیں۔۔

مگر اسی قرآن میں جو اللہ تعالیٰ کی سچی کتاب ہے۔ جس کی حفاظت کا ذمہ خود خالق نے لیا ہے۔۔ متعدد جگہوں پر والدین کی اطاعت پر زور دیا گیا، ان سے محبت کے اظہار کو ناگزیر قرار دیا گیا ہے۔۔ بلکہ بے تحاشا احادیث نبوی ﷺ میں بھی والدین کی اطاعت کے لیے اولاد کو احکامات دئیے گئے ہیں۔

بیٹا خاموش ہوگیا۔۔ پھر بولا کیا میں آپ سے محبت نہیں کرتا؟ کیا میں نا فرمان ہوں؟

میرے پیارے بیٹے تم اپنے والدین سے بے پناہ محبت کرتے ہو۔۔ مگر زندگی کو اپنے تجربے سے چلانا چاہتے ہو۔۔ یہ چیز والدہ کی حیثیت سے مجھے پریشان کرتی ہے کیونکہ میں نہیں چاہتی کہ تم۔ کوئی ٹھوکر کھاؤ اور پھر خود کو سنبھالو۔

کیوں کہ تمہارے پاؤں پر لگی ہلکی سی ٹھوکر۔۔ کی تکلیف میرا دل پوری شدت سے محسوس کرے گا۔ مجھے اپنے آنسو پی کر تمہیں تسلی دینا پڑے گی۔۔ یہ عمل میرے لیے بہت تکلیف دہ ہوگا۔۔ کیا تم اپنے والدین کو تکلیف دینا چاہتے ہو؟

بیٹے نے نفی میں سر ہلایا اور فون اسکرین پر انگلیاں چلانے لگا۔۔ مگر میں سمجھ گئی کہ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا ہے وہ موبائل اسکرین دیکھ رہا ہے مگر۔۔ دیکھ نہیں پا رہا۔۔ کیوں کہ اس کے دل و دماغ میں میری باتیں گونج رہی ہیں۔

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed