Snow Man
اسنو مین
اگر آپ کو پاکستان کے ان علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوا ہے جہاں برف پڑتی ہے۔ تو آپ نے ایک شے تقریباً ہر ایسے علاقے میں ضرور دیکھی ہوگی۔ وہ ہے اسنو مین۔ snow man برف کا بنایا ہوا ایک مجسمہ ہوتا ہے۔ جسے وہ منچلے بناتے ہیں جو برف باری کے نظارے دیکھنے آتے ہیں۔ یہ لوگ بڑی مہارت کے ساتھ برف کو ایک اونچے لمبے مرد کی شکل دیتے ہیں۔ پھر اس کے گلے میں اسکارف۔ آنکھوں پر کالی عینک اور سر پر ٹوپی دیتے ہیں۔ پھر یہ منچلے اپنی تخلییق کو دیکھ کر خوش ہوتے رہتے ہیں۔ جب ان کی واپسی کا وقت آتا ہے تو اس اسنو مین کو دوسروں کی تفریح کے لئے چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔
کیوں کہ یہ اسنو مین برف سے بنا ہوتا ہے۔ اس لئے گرمی آتے ہی یہ آہستہ آہستہ پگھلنا شروع ہو جاتا ہے اور پانی بن کر ندی نالوں میں ضم ہو جاتا ہے۔ اس کی ٹوپی، کالی عینک بھی گر جاتے ہیں۔ یہ اسنو مین گرمی حالات برداشت نہیں کر سکتا۔ اس کا وجود پانی بن کر بہہ جاتا ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی جماعت بھی اسنو مین جیسی نکلی۔ خوف کے بت ٹوڑ دو جیسا مشورہ دینے والے خود ہی اپنی پارٹی کو توڑ رہے ہیں۔ اور ان کا لیڈر چھپنے اور بھاگنے کے مشورے دے رہا ہے۔
ڈٹ کر کھڑے ہونے والے ٹکرکے بدزبان، بدکردار لوگ جن کے ہاتھوں اور زبانوں سے کوئی بھی محفوظ نہیں تھا۔ بھیگی بلی بنے نظریں جھکائے آتے ہیں اور نو مئی کے واقعات کی مذمت کرتے ہیں۔ سیاست اور پارٹی چھوڑنے کا اعلان کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ سب سے قابل ترس ان کے کارکن ہیں جن کو کوئی اون نہیں کر رہا ہے اور وہ اپنی فرسٹریشن پولیس پر نکالتے ہیں۔ کسی کا کوئی قصور نہیں قصور ان والدین کا ہے۔ جنہوں نے اپنی بیٹیوں، اپنے جوان بیٹوں کو دجالی جلسوں میں بھیجا۔ عہدوں کی لالچ نے آنکھوں پر پٹی باندھ دی۔ ماں باپ نے اس وقت اپنے بچوں کو کیوں نہیں روکا تھا؟
کچھ لوگوں کو ان پر ترس آتا ہے۔ ترس کیوں کھایا جائے؟ کسی بھی جنگ میں دو فریقوں میں سے ایک نے جیتنا ہوتا ہے۔ ہارنے والے پر ترس نہیں کھاتے۔ کیوں کہ ہار اپنی نااہلیوں کی وجہ سے مقدر بنتی ہے اور دوسرے جب اللہ ہی نہ چاہے تو آپ کی تمام کوششیں بےکار جاتی ہیں۔ تحریک انصاف کے دنوں میں زوال سے ایک بات کنفرم ہوگئی کہ یہ ایک اسنو مین ٹائپ پارٹی تھی۔ جو گرمی حالات سے ایسی پگھلی کہ نام و نشان بھی مٹ گیا۔
کہاں کا انقلاب کہاں کی حقیقی آزادی اور کہاں ہے نیا پاکستان؟
جو لوگ اس فتنے سے محفوظ رہے وہ شکرانے کے نفل ادا کریں اور جو لوگ اس کا شکار بنے وہ بھی اپنی ناکامی کی فرسٹریشن اداروں اور حکومت پر نکالنے کی بجائے اللہ کا شکر کریں کہ اللہ نے ان کو زندگی میں ہی توبہ کرنے کا وقت دے دیا۔
میں نے ہمیشہ اپنے کالمز میں لکھا ہے کہ لیڈرز سے جی بھر کر بےلوث محبت کریں۔ ووٹ کی طاقت کا استعمال کریں۔ مگر اپنے گھر اور کیرئیر کو داؤ پر مت لگائیں۔ ویسے بھی ایک سچا لیڈر اور مخلص سیاستدان کبھی بھی اپنے کارکنان کو پریشانی میں نہیں ڈالتا بلکہ خود آگے بڑھ کر جیل اور سزا کو اپنے سینے پر تمغے کی طرح سجاتا ہے۔ ہم ازادی حاصل کر چکے ہیں۔ الحمدللہ ملک میں جمہوریت بھی ہے۔ ادارے مضبوط ہیں۔ کالی بھیڑیں اور مسائل ہر جگہ ہوتے ہیں۔
صرف مسائل سے نکلنا باقی ہے۔ وہ بھی انشاءاللہ نکل جائیں گے۔
بس عوام سے ہاتھ جوڑ کر التجا ہے کہ اپنے ذہن اور اپنی سوچ کو استعمال کریں۔ کسی کے آلہ کار نہ بنیں۔ کیوں کہ نقصان بھی صرف آپ کا ہی ہوگا۔