Pur Sakoon Rahen
پر سکون رہیں

کہتے ہیں ایک درویش کسی سفر پہ نکلا۔ راستے میں چلتا ہوا مسلسل کہہ رہا تھا کہ جو کچھ ہے میرے رب کی طرف سے ہے۔ درویش اس جملے کی تکرار کرتا جا رہا تھا۔ ایک بستی سے گزر ہوا تو کچھ انسان کے بھیس میں شیطان گروہ بنا کر بیٹھے تھے۔ انھوں نے درویش کا یہ توکل اور ایمان دیکھا تو پیچھے سے کھینچ کر پتھر مارا۔ درویش نے بے اختیار سر پر ہاتھ لگایا۔ ہاتھ خون سے بھر گیا۔
درویش نے نظر اٹھا کر اجنبی لوگوں کی طرف دیکھا۔ ایک نے شیطانی ہنسی ہنستے ہوئے کہا۔ یہ پتھر ہم نے نہیں مارا۔ بلکہ اللہ کی طرف سے تیرے سر پر آ گرا ہے۔ درویش نے کہا بیشک یہ تکلیف میرے رب کی طرف سے ہے۔ میرا رب ہی اس کو دور کرے گا اور اس کا بہترین نعم البدل عطا فرمائے گا۔ میں تو اس بدقسمت کو دیکھ رہا تھا جس نے اس عمل میں اپنا منہ کالا کروایا۔ اپنے سر پر عذاب لیا اور جہنم کا راستہ اپنے لیے آسان بنایا۔
اس چھوٹے سے بظاہر بے ضرر واقعے کی گہرائی میں جا کر سوچیں۔ آپ کو خود سمیت سب پر ترس آنے لگے گا۔ ہم کتنے بڑے بیوقوف اور احمق ہیں۔ جانتے ہیں کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ رگوں میں موجود خون کے ساتھ پورے جسم میں دوڑتا ہے۔ ہمیں ہر وقت بہکاتا ہے اور ہم سب پوری رضا مندی سے اس بہکاوے میں آتے ہیں۔
جانتے ہیں دنیا کی حیثیت ایک چیونٹی کے پر کے برابر بھی نہیں۔ مگر اس ستر اسی سال کی دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے مرے جا رہے ہیں۔ بڑے آرام سے دوسروں کی سیڑھی کھینچتے ہیں اور خود بلندی کے آرزو مند رہتے ہیں۔ دوسروں کی تذلیل کرکے عزت چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو خالق مانتے ہیں اور غلامی اشرافیہ اور امراء کی کرتے ہیں۔ رازق اللہ تعالیٰ کو کہتے ہیں اور سارا دن رزق کے حصول کے لیے جھوٹ، بے ایمانی کے دھندے کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح فرمایا کہ ہر کوئی آزمائش میں مبتلا ہوگا۔ مضبوطی سے ایمان پر قائم رہنے والوں کو اختتام پر انعام ملے گا۔ یہ آزمائش، موت، بھوک، دولت کے چھن جانے سے لے کر ہر شے کی کمی کی صورت میں آئے گی اور لازم آئے گی۔
آزمائش کی ایک صورت ذہنی آزمائش بھی ہے۔ اس آزمائش میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو غم عطا کرتے ہیں۔ یہ غم نعمتیں چھن جانے سے ہی نہیں ملتا۔ بلکہ انسان نما شیطانوں سے بھی ملتا ہے۔ یہ انسان کے بھیس میں شیطان آپ کو ہر جگہ مل جاتے ہیں۔ آپ کے قریبی رفقاء سے لے کر جاننے والوں تک یہ آپ کی آزمائش بننے کو تیار رہتے ہیں۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ جن کے دل و دماغ کثافتوں سے دھلے ہوں۔ وہ اپنی اس آزمائش کو پہچان کر ایک قہقہہ لگاتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں کہ وار کس طرف سے اور کتنا تکلیف دہ کیا جائے گا؟ تاکہ صبرِ کرنے پر انعام کا تخمینہ لگایا جا سکے۔
دوسری طرف انسان نما شیطان خود کو کامیاب سمجھتے ہیں۔ یہ سمجھ نہیں پاتے کہ صرف مہرے ہیں۔ جنھوں نے اپنی غلط سوچ کا تاوان اس دنیا کے ساتھ آخرت میں بھی بھگتنا ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے وزن میں ہلکے مہرے ہوا کے رخ کے ساتھ ساتھ کبھی ادھر تو کبھی ادھر لڑھکتے رہتے ہیں۔ دنیا میں تو یہ سزا ملتی ہے۔ آخرت کا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیتے ہیں۔
پاکستان کے موجودہ حالات پر نظر دوڑائیں۔ جن کے پاس اقتدار ہے اور جو اس کے آرزو مند ہیں سب بےچین ہیں اور ان سے زیادہ پریشان، درباری ہیں۔ کیوں کہ انھوں نے اپنا رازق اور اپنا مالک اپنے لیڈرز کو سمجھ لیا ہے۔ وہ دنیاوی سستے فائدوں کے لیے کچھ بھی کرنے پر تیار رہتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں۔ روز محشر تو بہت دور کی بات ہے۔ یہ لیڈرز اقتدار ختم ہونے کی دیر ہے، پردہ اسکرین سے اوجھل ہونے میں دیر نہیں لگائیں گے۔
انسان سے بڑھ کر گھاٹے کا سودا کرنے والا کون ہوگا؟
پھر شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کا کیا بنے گا؟ ہر ایک پر وہ وقت ضرور آیا ہے اور آئے گا۔ کیوں کہ کائناتی سچ یہی ہے۔ بس انتظار ہے۔۔ کب اور کیسے؟ تب تک سب کو پر سکون رہنے کی ضرورت ہے۔ تو جو آپ کو تکلیف پہنچا رہے ہیں، جی بھر کر ذہنی آزمائش کا سبب بننے دیں۔ اپنے ہاتھوں سے انھیں اپنا منہ کالا کرنے دیں۔ جہنم نے بھی تو جلنے کے لیے ایندھن مانگنا ہے نا اور جان لیں کہ اس مرتبہ آزمائش ذہنی آئی ہے۔