Pakistani Khawateen Munafiq Hoti Hain
پاکستانی خواتین منافق ہوتی ہیں

پاکستان کی سب شادی شدہ خواتین منافق ہیں۔ عہد جدید کی نام نہاد علمبردار خاتون نے خوبصورت ہئیر کٹ کو ہاتھوں سے سہلاتے ہوئے بے حد اطمینان سے رائے کا اظہار کیا۔
میں نے زیر لب مسکراہٹ کو بہت مشکل سے روکا اور کہا الحمدللہ آپ نے صرف شادی شدہ خواتین کے بارے میں رائے کا اظہار کیا۔ اس کا مطلب غیر شادی شدہ، بیوگان اور طلاق یافتہ خواتین منافقت سے پاک ہیں۔
خاتون ایک لمحہ کے لئے گڑبڑائی۔ پھر بولیں۔ جی سب شادی شدہ خواتین منافق ہیں۔
برا نا منائیں تو وضاحت کریں گی؟ میں نے قصداً نرم لہجہ اپنایا۔
خاتون جو نئی نئی "اینٹلیکچول" بنی تھیں۔ بولیں۔ دیکھیں۔ پاکستان میں خواتین شادی کا رشتہ مجبوری میں نبھاتی ہیں۔ ان کے دل میں شوہر کے لیے نفرت بھی ہوگی تو یہ مسکرا کر بات کرتی ہیں۔ محبت تو شاید اپنے شوہر سے کسی کو بھی نہیں ہوتی۔ معاشرے کا ڈر، والدین کی عزت، بچوں کی خاطر یہ شادی شدہ زندگی کو گھسیٹتی رہتی ہیں۔ متوسط طبقے کا تو اس سے بھی برا حال ہے۔ دو وقت کا کھانا، رہائش کی سہولت، بدلتے موسم کے لباس اور جسمانی محبت کے تقاضے صرف اس کے حصول کے لیے عورت بیگار کاٹتی ہے۔ سارا دن کولہو کے بیل کی طرح کام کرتی ہے۔ اولاد، شوہر اور سسرال کی شیف بنی رہتی ہے۔
اپنی خواہشات کو مارتی ہے۔ دوسروں کے لیے زندگی گزارتی ہے۔ یہ تو سجتی سنورتی بھی شوہر یا دوسروں کے لیے ہیں۔ ان کی اپنی تو کوئی مرضی ہی نہیں ہوتی۔
یقین مانیئے مُجھے یہ سب باتیں سن کر خود پر رونا آنے لگا۔ ایسا لگا مجھے بھی ساری زندگی دوسروں نے اپنے مطلب کے لیے استعمال کیا۔ شوہر اور اولاد سب مطلبی لگنے لگے۔ خواتین کے حقوق کی سب تنظیموں کے ایجنڈے بالکل درست لگنے لگے۔ آخر میری مرضی کیوں نہیں؟
مرحوم والدین بہن بھائیوں سے گلے بڑھ گئے۔ ایسا محسوس ہوا سب نے مجھ سے میری آزادی چھین لی تھی۔ پنجرے میں قید رکھا اور پھر شادی کروا کر یہ پنجرہ دوسرے شخص کے حوالے کر دیا۔ جسے شوہر کہتے ہیں۔ کیا تھا جو اتنی جلدی شادی نا ہوتی۔ میں بھی کیرئیر پر توجہ دیتی۔ کیا پتا ملک و قوم کی قسمت ہی بدل دیتی۔ دنیا میں انقلاب برپا کر دیتی۔ اب دیکھو ہر وقت شوہر اور اولاد کی فرمائشیں ہی پوری کرتے رہو۔ کتنے چالاک ہیں، تعریفیں کرتے رہتے ہیں اور ہر وقت کھانے کی ڈشیز ہی بنواتے رہتے ہیں۔ سب مطلبی اور خود غرض ہیں۔
میں نے اداسی سے خاتون کی طرف دیکھا۔ اس سے پہلے میں اداسی اور ڈپریشن کے اس سمندر میں ان کو بھی ڈبو لیتی۔۔
اچانک ان کے موبائل کی رنگ ٹون بجنا شروع ہوگئی۔ انھوں نے پہلی بیل پر ہی فون اٹھایا اور بولیں۔ ہنی کیسے ہیں آپ؟ اس وقت فون خیریت تو ہے نا؟ کیا آپ گھر آگئے ہیں؟ آپ نے تو شام کا بولا تھا ڈنر پر نہیں جانا کیا؟ بچے تو کوچنگ سینٹر پر ہیں۔ نہیں میں خود ہی انھیں لیتی آؤں گی۔ آپ ریسٹ کریں۔ میں بس ایک گھنٹے تک آ رہی ہوں۔ پتا ہوتا کہ آپ نے جلدی آنا ہے تو کہیں جاتی ہی نا۔ ہاں دوست کی طرف ہوں۔ نہیں ایسی کوئی ضروری ملاقات نہیں تھی۔ جسٹ ٹائم ٹو کل۔۔ just time to kill..
جی جی۔ آپ کی فیورٹ بلیو ساڑھی ہی پہنوں گی۔ آپ بس چینج کریں، تھوڑا ریسٹ کریں۔ چائے میں آپ کو اپنے ہاتھ کی ہی پلاؤں گی۔
اوکے بس میں آ رہی ہوں، سمجھیں نکل ہی گئی۔
فون بند ہوتے ہی لبرل خاتون بولیں۔۔
اچھا یار پھر ملاقات ہوگی۔ اس موضوع پر دوبارہ بات کریں گے۔۔ ابھی جلدی میں ہوں۔۔
ارے سنو، ٹھہرو تو سہی۔۔ بات تو سنو۔۔
اتنی بھی کیا جلدی ہے؟
میں بولتی ہی رہ گئی۔۔ خاتون یہ جا اور وہ جا۔۔
پر سکون ہو کر بیٹھنے کے بعد سوچا۔۔ کیا سچ مچ پاکستانی شادی شدہ خواتین منافق ہیں؟ دل اور دماغ گویا اعتکاف میں بیٹھ گئے۔۔
آپ ہی اس بات کا جواب دے دیں۔۔