Mere Zaraye
میرے ذرائع
آج کل ہر طرف انکشافات کی ریس لگی ہوئی ہے۔ کئی صحافی تو بڑی بہادری کے ساتھ نام لے کر واقعات بیان کر رہے ہیں۔ حالانکہ ذاتی طور پر میں اس کے خلاف ہوں۔ کیونکہ وقت گزرنے کے بعد نقصان کے بعد، وجہ بتانا، ایسے ہی ہے جیسے سانپ نکلنے کے بعد لکیر پیٹی جائے۔ لیکن کبھی کبھی میرا دل کرتا ہے میرے بھی کوئی ذرائع ہوں اور میں بھی کہوں باخبر ذرائع سے پتا چلا ہے۔ ہاے کتنا دل کرتا ہے یہ جملہ لکھنے کو اور اس کے بعد گردن اکڑا کر چھوٹے موٹے لوگوں کو فخریہ نظروں سے دیکھنے کو۔ آخر اللہ نے میری آرزو پوری کر دی اور میں ایک باخبر، باوثوق ذرائع ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگئی۔
تو دل کو تھام لیجئے انکشافات کے سمندر میں ڈوبنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ میرے باخبر ذرائع نے بتایا کہ بقول جاوید چوہدری صاحب کے جس دن قمر باجوہ اور فیض حمید صاحب عمران خان سے ملاقات کر کے نکلے (یہ وہی ملاقات ہے جس میں عمران خان ٹریک سوٹ اور چپل پہن کر ان حضرات سے ملنے آئے تھے) اور فیض حمید صاحب نے فرمایا کہ اس کو ہم وزیراعظم بنانا چاہتے تھے۔ تو اس کے بعد پھر کیا ہوا؟ جی اس کے بعد دونوں ایک جگہ پریشان ہو کر بیٹھ گئے پھر دونوں نے یہ مصمم ارادہ کیا کہ ہم اپنے کیریئر اور زندگی میں ہی اپنی اس سنگین خطا کو سدھاریں گے انشاءاللہ۔
پھر ایک منصوبہ بنایا گیا، ہر طرف سے اس کی نوک پلک کو سنوارا گیا۔ باریک بینی سے ایک ایک جزو کا جائزہ لیا گیا۔ جب سو فیصد کامیابی کا تناسب نظر آیا تو اس کی ابتدا کا فیصلہ کر لیا گیا۔ اس منصوبے میں ان لوگوں کو لیا گیا جو اپنے پروفیشن میں ایکسپرٹ تھے۔ خاص طور پر ماہر نفسیات کی خدمات بھی حاصل کی گئیں۔ منصوبہ انتہائی کامیابی سے تکمیل کی جانب بڑھنے لگا۔ کرداروں کو اپنا کردار نبھانے کے لئے زیادہ محنت ہی نہیں کرنی پڑی کیونکہ عمران خان جیسے نااہل، نالائق لیڈر اور انہی خصوصیات کے ماہر ٹولے کو شکست دینا کوئی مشکل نہ تھا۔ بس اس کام میں کچھ معصوم لوگ پھنس گئے اور ناحق زیادتی کا شکار بھی ہوۓ جیسے شریف خاندان۔
میرے ذرائع نے بتایا اس بات پر منصوبہ مکمل کرنے والوں کو دکھ ہے مگر وہ کیا کریں کہ جنگ میں فتح کو یقینی بنانے کے لئے سب کچھ جائز ہے۔ جب بھی منصوبہ ساز ایک کردار رحمت اللہ کی بریفنگ لیتے وہ دن ان کی لافٹر تھراپی کا دن ہوتا۔ ہنس ہنس کر ان کے پیٹ میں بل پڑ جاتے اور بشریٰ بی بی اپنی ہنسی کو نقاب میں چھپا لیتی۔ جب وہ عمران خان کو خواب سنا رہی ہوتی تھی۔ (اس لئے اس نے کردار نبھانے کے زیادہ پیسے مانگے تھےکہ اسے عمران خان کو اپنے سامنے برداشت کرنا پڑتا تھا۔)
اس منصوبے کو کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے بشریٰ بی بی نے اپنا کردار بخوبی نبھایا اور اب تک نبھا رہی ہیں۔ بدلے میں ان کے خاندان پر نوازشات کی بارش کی گئی تاکہ ماں کی جدائی اور بیوی سے دور رہنے کا غم بھلایا جا سکے۔ کیونکہ منصوبہ ساز جانتے تھے کہ بےتحاشا پیسہ غم کی شدت کو کم کر دیتا ہے۔ منصوبہ کامیابی سے چلتا رہا اور اب میرے ذرائع نے بتایا منصوبہ مکمل کر لیا گیا ہے۔ نتیجہ سو فیصد کامیابی کی صورت میں نکل چکا ہے۔ ایک شادی کی تقریب میں اس کی سیلیبریشن بھی کر لی گئی ہے۔
آپ سوچ رہے ہیں کہ عمران خان کا کیا کیا جائے گا۔ تو ذرائع کے مطابق اسے اس کے حال پر چھوڈ دینے کا فیصلہ ہوا ہے۔ چند دن کے بعد یہ خالی کرسیوں سے خطاب کر رہا ہوگا۔ الیکشنز میں بدترین شکست اس کا مقدر ہوگی۔ گرفتار اس لئے نہیں ہوگا کہ نشئ کو پاکستان میں کوئی بھی چند گھنٹوں سے زیادہ گرفتار نہیں کرتا۔ اپنے سر پر سیاپا ڈالنا ہے کیا؟ ہو سکتا ہے تھوڑے عرصے تک زنجیریں ڈال کر بنی گالہ یا زمان پارک کے کمرے میں بند کر دیا جائے کہ کہیں بلٹ پروف شیشوں سے سر ٹکرا کر خود کو زخمی نہ کر لے۔ اور انشاء اللہ پاکستان اپنی ترقی و خوشحالی کا سفر دوبارہ شروع کرے گا۔
(یہ کالم ایک مزاحیہ کالم ہے۔ تمام باتیں تخیلاتی اور ذہنی اختراع ہیں۔ کوئی سچ سمجھ کر ناراض نہ ہو۔ کوئی بات بری لگی ہے تو معافی کی خواستگار ہوں۔)