Mazdoor Ka Din
مزدور کا دن
بچپن میں جب بھی مئی کی پہلی تاریخ آتی، ہم سب سکول میں بےحد خوشی مناتے کہ چھٹی آ گئ۔ مزدوروں سے کوئی ہمدرردی تھی اور نہ ہی اس دن کا کچھ پتا تھا۔ تھوڑے سے بڑے ہوۓ لیبر ڈے آیا۔ نویں کلاس تھی۔ مرحوم استاد سر سعید نے اردو کے پیریڈ میں اس موضوع پر لیکچر دیا۔ مرحوم استاد، مرحومہ عاصمہ جہانگیر کے خلاف تھے۔ ساتھ ہی انہوں نے ایلیٹ کلاس کو بھی رگڑا دیا۔ جو ہوٹلوں میں مزدوروں کے لئے سیمنار کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو مزدوروں کے مسائل کا کیا پتا۔
اس لیکچر کا نتیجہ یہ نکلا کہ گھر آ کر مرحوم والد محترم جو کہ ٹھیکے پر مکان بناتے تھے۔ سے کہا۔ ابو کل اپنے مزدوروں کو چھٹی دے دیں۔ لیبر ڈے ہے۔ والد ہنس کر بولے میں تو چھٹی دے دوں وہ نہیں لیں گے۔ وہ اپنی دیہاڑی نہیں ماریں گے۔
گزرتے وقت کے ساتھ پتا چلا کہ یہ دن صرف گارے سیمنٹ اور اینٹوں کے کام کرنے والے مزدوروں کا نہیں ہے۔ بلکہ یہ ہر کام کرنے والے کے حقوق کا دن ہے۔ پھر ان تحریکوں کا علم ہوا جو اس پسے ہوئے طبقے کے لیے چلائی گئیں۔ علامہ اقبال کے مشہور اشعار پڑھے۔ لیکن سب سے خوبصورت وہ حدیث پڑھی جس میں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ فرماتے ہیں کہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کر دو۔ اندازہ کریں اپنے نبی ﷺ کا وژن کیسا تھا۔ جو انہیں سرمایہ دارانہ نظام کی زیادتیوں کے بارے میں بتا چکا تھا۔ اسی لئے انہوں نے اس بارے حکم دے دیا۔
1886 میں شکاگو میں مرنے والے مزدوروں کی روح 2023 کے آج کے دن تڑپ اٹھیں۔ جب انہوں نے پاکستان میں عمران خان کو لاہور کی سڑکوں پر بلٹ پروف گاڑی میں مزدوروں کے لئے جدوجہد کرتے دیکھا۔ وہ انسان جس نے ساری زندگی کوئی کام نہیں کیا۔ جسے محنت کی کمائی کے نوٹوں کی خوشبو کا نہیں پتا جس نے اپنا پسینہ جم میں یا جلسوں میں بہایا۔ وہ مزدوروں کے حقوق کے لئے اپنی بلٹ پروف گاڑی میں نکلا۔ عام عوام پیدل اس کے اردگرد چل رہی تھی اور وہ کہ رہا تھا لگتا ہے تم لوگ تھک گئے ہو۔
کہیں ملے گا ایسا عظیم انسان؟ یہ چیزیں صرف پاکستان میں ہی ملتی ہیں۔ اسی لئے تو ہماری اشرافیہ اتنی ذلت کے بعد بھی کرسی کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ ایک دن صرف ایک دن عمران خان مزدور کے ساتھ گزار لے۔ اس کے گھر کو دیکھ لے اس کا کھانا کھا لے۔ میں مان جاؤں گی کہ یہ واقعی لیڈر ہے۔ جو شخص جیل سے بچنے کے لئے بالٹی سر پر رکھ کر پھر رہا ہے۔ پانی کی طرح عوام کا لوٹا پیسہ بہا رہا ہے۔ موت کا خوف جسے پاگل کر چکا ہے۔ وہ مزدور کے حق کی فکر کر رہا ہے۔
اس سے بڑا مزاق اس قوم کے ساتھ نہیں ہو سکتا۔ اور اس سے بڑا تماشا بھی کوئی نہیں ہو سکتا جو ریلی کی صورت میں لگایا جا رہا ہے۔ وہ پسا ہوا طبقہ جسے دو وقت کی روٹی بمشکل مل رہی ہے۔ وہ جن کے بچوں کا کوئی مستقبل نہیں۔ کیا وہ اس ریلی میں شریک تھے۔ نہیں اس میں ایک شخص کے پیٹ بھرے پیروکار تھے جو لاہور کا موسم انجوائے کرنے نکلے تھے۔ عوام کو کیا سمجھتے ہیں آپ لوگ؟ کیا ان کے دماغ بالکل آپ کے دلوں کی طرح خالی ہیں۔
میری گزارش ہے کہ خدا کے واسطے یہ ڈرامے بند کر دیں۔ بے شرمی کے اوڑھے لبادے اتار دیں۔ عوام کو آپ کے ان تماشوں سے کوئی سروکار نہیں۔ کرنے والے کام کریں یہ نہ ہو موت کا پنجہ آپ کی گردن کو پکڑ لے اور آپ خسارے لے کر اس دنیا فانی سے رخصت ہو جائیں۔