Laughter Therapy
لافٹر تھراپی
اگر آپ لافڑ تھراپی پر میری طرح یقین کرتے ہیں۔ تو آج کل کے سیاسی حالات آپ کے لئے آئیڈیل ہیں۔ آپ کو ہر روز لافٹر تھراپی کے لئے مواد مل جاتا ہے۔ اور آپ مہنگائی، بے روزگاری، ذخیرہ اندوزی کے غم کو قہقہوں میں اڑا دیتے ہیں۔ ویسے تو سارے سیاستدان عوام کو مفت میں یہ مواقع فراہم کرتے رہتے ہیں۔ لیکن تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین عمران خان اس میں بازی لے گئے ہیں۔
جب سے اقتدار کا ہما عمران خان کے سر سے اڑا اور وہ بلٹ پروف جیکٹ کے ساۓ تلے آۓ ہیں۔ بلٹ پروف جیکٹ نے ان کے دماغ پر کیمیکل ری ایکشن کر دیا ہے۔ وہ انتہائی معصوم ہو گئے ہیں اور اپنی یاداشت بھی کھو بیٹھے ہیں۔ لیکن یہ یاداشت جزوی طور پر گئی ہے۔ یعنی اندازہ کریں انہیں یہ یاد ہے کہ عدم اعتماد کے ذریعے میری حکومت گرائی گئی مگر یہ یاد نہیں کہ اپنے دور اقتدار میں انہوں نے کیا بلنڈرز کیے تھے۔ عمران خان یہ بھول گئے کہ ان کی حکومت نے عوام کا جینا کیسے حرام کیا تھا اور ان کے کیے گئے غلط فیصلوں کا بوجھ غریب عوام ابھی تک اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا رہی ہے۔
بلکہ وہ دوبارہ اقتدار میں آنے کے لئے تڑپ رہے ہیں۔ جیسے دودھ اور شہد کی جو نہریں جو وہ چھوڑ کر گئے تھے ان میں دودھ اور شہد کم ہو رہا ہے اور عمران خان نے خود اپنے ہاتھوں سے ان نہروں کو بھرنا ہے۔ کتنے معصومانہ انداز میں وہ آئین کی بحالی کی فکر کرتے ہیں۔ جمہوریت کو نقصان سے بچانے کی فکر کرتے ہیں۔ غریب عوام کی فکر اتنی ہوگئی ہے کہ گھر کے باہر ان کے ڈیرے لگوا دیئے ہیں۔ عوام سے اتنی محبت ہوگئی ہے کہ ان کو اپنی گاڑی کی چھت پر بٹھا کر باہر نکلتے ہیں۔ عمران خان کی یہ حرکتیں دیکھ کر ہنس ہنس کر پیٹ میں درد ہو جاتی ہے اور بندہ سوچتا ہے یااللہ کیا عوام کو اتنا ڈفر سمجھا ہوا ہے؟
آج کا روزہ تھوڑا سخت لگ رہا تھا۔ اپنے پیاروں کو کھونے کا دکھ، روزے کی نقاہت۔ سوچا ٹی وی آن کرتی ہوں۔ شاید دھیان بٹ جائے۔ کچھ ہی لمحوں کے بعد نیوز کاسٹر کی آواز سنائی دی جو کہ ہیڈ لائینز سنا رہی تھی۔ اچانک ایک ایسی ہیڈ لائن سنی کی کہ بے اختیار قہقہہ ہونٹوں پر آ گیا۔ نیوز کاسٹر بولی۔ عمران خان نے امریکی صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ حکومت بہت پریشان ہے کہ مجھے دوبارہ سسٹم میں کیسے لائے کیونکہ عوام کا اصرار بہت شدید ہے۔
یااللہ سارا گھر ہنس ہنس کر بے حال ہو رہا تھا۔ ایسا زبردست مذاق تو صرف لاہور کے تھیٹر میں ہی ہوتا ہے۔ یعنی عمران خان پر لاہور کا اثر ہونا شروع ہو ہی گیا۔ میرا عمران خان سے سوال ہے کہ کیا آپ میں سوچنے سمجھنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت بالکل ہی ختم ہوگئی ہے۔ یا دوا کے زیادہ استعمال نے آپ کے ذہن پر اپنے اثرات چھوڑ دئے ہیں؟ آخر آپ نے وہ کون سے کارنامے سر انجام دئے ہیں جو حکومت اور عوام آپ سے دوبارہ فیضیاب ہونے کی متمنی ہے؟
عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیس کر رکھ دیا۔ نوجوانوں کا اخلاق تباہ کرکے رکھ دیا۔ معاشرے میں تقسیم پیدا کر دی۔ آرمی، ججز، پولیس، خواتین، سیاستدان، بیوروکریسی، میڈیا پرسنز، دوست ممالک غرض ہر ایک کو ذلیل و رسوا کر دیا اور سب سے بڑا نقصان دین میں بدعات و شرک کو پرموٹ کیا۔ جادو ٹونے کے چکروں میں رشتوں کی تذلیل کی۔ معاشرے میں شرم و لحاظ کے پردوں کو تار تار کر دیا۔ کون صاحب عقل اور محب الوطن شخص آپ کے ہاتھ میں ایٹمی ملک کی باگ ڈور دینا چاہے گا؟
عمران خان آپ ایک بات یاد رکھیں بائیس کروڑ عوام کی قسمت کا فیصلہ آپ کا فین کلب نہیں کرے گا۔ عوام کو وہ لیڈر درکار ہے جو حقیقت میں عوام کا احساس کرے۔ جو عوام کی فلاح کا سوچے نہ کہ خود بھی گانوں پر جھومے اور عوام کو بھی صرف نچاۓ۔ قائداعظم پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے۔ لیکن یہ ملک کن تجربات کی لیبارٹری بن گیا ہے اس پر سب کو سوچنا ہوگا۔ ورنہ خدانخواستہ
ہماری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔