Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Saira Kanwal/
  4. Kya Hum Awam Waqai Shoodar Hain?

Kya Hum Awam Waqai Shoodar Hain?

کیا ہم عام عوام واقعی شودر ہیں؟‎‎

میں رمضان کے آخری عشرے میں جاوید چوہدری صاحب کے ڈیجیٹل فاسٹنگ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے سوشل میڈیا سے دور ہوگئی سوچا دل لگا کر بہتر عبادت کرنی چاہیے اور رمضان کے آخری عشرے میں اپنے اُن ناکردہ گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے جن کے نتیجے میں پاکستان کے خواص ہم پر مسلط ہو گئے ہیں۔

خیر ٹوٹی پھوٹی عبادتیں کیں اور کبھی کبھی ڈیجیٹل فاسٹنگ کی افطاری بھی کرلی۔ یعنی چلتے چلتے ٹی وی پر خبریں سن لیں، ایک آدھا وی لاگ بھی سن لیا۔ اسی دوران گوھر بٹ صاحب کا وی لاگ سننے کا موقع ملا۔ باتیں تو ساری سو فیصد سچی تھیں مگر دل کو جا کر لگیں۔

وہ ہمیشہ خود سمیت عام عوام کے لیے شودر اور صاحبِ اقتدار کے لیے برہمن کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ مین نے یہ الفاظ اُن کے وی لاگ میں پہلی مرتبہ نہیں سنے، مگر نہ جانے کیوں اِس مرتبہ یہ سچ دل پر تیر کی طرح جا کر لگا۔ بچپن میں معاشرتی علوم کی کتاب میں پڑھی ہوئی ہندوؤں کی ذاتیں یاد آ گئی جن میں برہمن سب سے اعلٰی اور شودر سب سے نیچلے درجے کے گھٹیا لوگوں کی ذات تھی جو تمام ذاتوں کے افراد کی چاکری کرتے تھے۔ عام فہم زبان میں جو "چوڑے" تھے۔

کوئی لمحہ ایسا ضرور ہوتا ہے جس میں آپ کے دل پر بات پوری شدت سے اثر کرتی ہے۔ میری زندگی کا بھی وہ ایسا ہی لمحہ تھا۔ میں نے وی لاگ جیسے تیسے سنا اور سوچ میں پڑ گئی کہ ہم واقعی شودر ہیں؟ دل اور دماغ دونوں نے ہاں میں جواب دے دیا۔ میرا مورال اور نیچے گر گیا۔

کچھ دیر بعد دل و دماغ اِس کیفیت سے باہر نکلے تو میں نے سوچا کہ شودر ہم عام عوام نہیں بلکہ اِس ملک کے خواص اور صاحبِ اقتدار لوگ ہیں۔ ان کی اپنی کوئی حیثیت نہیں۔ عوام کے پیسے چوری کرکے کھانے والے جن کی نسلیں ہمارے پیسوں پر پل رہی ہیں شودر تو یہ لوگ ہوئے ہم نہیں۔

کتنے قابلِ ترس ہیں یہ صاحبِ اقتدار لوگ۔۔ اقتدار کا مداری کیسے انھیں اپنی ڈگڈگی پر نچاتا ہے اور یہ بیچارے ناچتے ہیں۔ کبھی کوئی اپنے گھر کے باہر سڑک پر عام لوگوں کے ساتھ بیٹھتا ہے اور کھجور ساتھ والے شودر کو پیش کرتا ہے۔ کبھی کوئی ننگے پاؤں جھونپڑیوں میں شودروں سے ملنے جاتا ہے۔ کبھی کوئی اپنے ہاتھوں سے شودروں میں آٹا اور راشن بانٹتا ہے، تو کبھی کوئی اپنے ہاتھوں سے شودر کی بچی کو بسکٹ کھلاتا ہے۔

دل قہقہے لگانے کو کرنے لگا اپنے رب کے انصاف پر بےتحاشا پیار آ گیا۔ کیسے اُس نے اِن برہمنوں کو اپنی پکڑ میں لیا ہے۔ کیسی اقتدار اور کرسی کی ہوس عام عوام تو اِس چاہت سے بے نیاز ہیں۔ یہ بیچارے لوگ کبھی پکوڑے تلتے ہیں اور کبھی اپنے گھر کے باہر گھنٹے لگوانے کا سوچتے ہیں۔ ساری زندگی ان کی جوڑ توڑ کرتے گزر جاتی ہے اور مرنے کے بعد کا حساب اتنا سخت کہ اللہ کی پناہ۔ ایک عام شہری تو اللہ کے آگے اپنے اعمال، اپنے خاندان یا حقوق العباد کا حساب دیے گا، یہ لوگ تو بائیس کروڑ عوام کا حساب دیں گے۔

باقیوں کو چھوڈیں میرے جیسی شودر ہی ان کو معاف نہیں کرے گی۔

سوچیں زرا کیسا اقتدار ہے یہ جو اپ کے سر پر کالا ڈبہ پہنا کر دنیا میں اپ کا تماشہ بنا دے۔ ریاست مدینہ کے خواب اور اپنی اولاد کلمہ گو مسلمان بھی نہیں۔

کیسا اقتدار کہ جوان بیوی اور 300 ارب سنبھالنا مشکل۔۔ کیسا اقتدار ہے کہ نورا فتیحی پر پیسے لٹا کر سپین کی گلیوں میں سکون کی تلاش کی جا رہی ہے۔ کیسا اقتدار کہ محبوب بیوی کے قتل کے بعد بھی جواں سال اکلوتے بیٹے کو پرخار راستے پر چلانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔

کیا کسی کو صدام حسین، معمر قزافی، سلطنت عثمانیہ اور مغلیہ سلطنت کا انجام یاد دلانے کی ضرورت ہے؟ کیا کسی کو یاد ہے کہ تین مرتبہ کا وزیر اعظم جیل میں زمین پر سویا تھا۔ مرتی بیوی کو نا دیکھ سکا۔۔ جوان بیٹی کو موت کی چکی میں قید کیا گیا۔

تو جناب کہاں کے برہمن اور کیا فائدہ ایسی دولت کا۔۔ جب واچ مین کے بغیر اپ اپنے گھر میں سو نا سکیں۔ چار بندے اردگرد نا ہوتو گھر سے باہر نکل نا سکیں۔ یہ لوگ تو اللہ کی پکز میں ہیں۔ زندگی پرسکون ناہی آخرت کا پتہ ہے۔

علم اور غربت تو نبیوں میراث ہے۔ جو ہم شودروں کو عطا ہے۔ ہماری زندگی ان برہمنوں سے بہتر ہے۔ مہنگائی کا جن ہی تنگ کر رہا ہےنا۔ ایک دن یہ بھی بوتل میں بند ہو جانے گا۔ کم از کم ہم پیرا سائٹ تو نہیں۔۔

Check Also

Babo

By Sanober Nazir