Kul Auqat Bas Itni Hai
کل اوقات بس اتنی ہے

اورئینٹل کالج میں میرے ایک استاد ڈاکٹر مرغوب حسین طاہر تھے۔ کالی داڈھی والے ظاہری حلیے میں سادہ انسان۔ ہم نے انھیں ہمیشہ سادہ شلوار قمیص یعنی قومی لباس میں دیکھا۔ استاد محترم سے پڑھنے کا موقع کم ملا۔ کیوں کہ وہ سال اول ہی میں کچھ عرصے کے بعد چھٹی پر چلے گئے۔ مقصد اپنی پی ایچ کی ڈگری مکمل کرنا تھا۔ لیکن جتنا بھی ہمیں پڑھایا شاندار پڑھایا۔
صوفی ازم کے منفرد موضوع اور مغلیہ سلطنت کے زوال کو لے کر انھوں نے جو اسباب بیان کیے تھے۔ وہ لیکچرز آج بھی ذہن کے یاداشت والے کونے میں محفوظ ہیں۔ زوال کے ان اسباب نے ہم لوگوں کے اذہان کا رخ ہمدردی کی طرف سے موڑ کر اصل حقیقت کی جانب گامزن کر دیا اور حقائق سے آگاہی ہوئی۔ بے حد خوبصورت شاعری سناتے اور کرتے بھی تھے۔ مگر اپنا کلام کم ہی لیکچر کے دوران سناتے تھے۔
اسی مختصر تدریسی دورانیہ میں ایک مرتبہ استاد محترم مرغوب حسین طاہر نے ایک دن کی رخصت لی۔ وہ اتنی باقاعدگی سے لیکچر لیتے تھے کہ ہم تمام طالب علموں کو حیرانی ہوئی۔ پھر اڑتی اڑتی خبر ملی کہ ان کے کسی دوست کی ناگہانی وفات کے سبب استاد محترم تشریف نہیں لائے۔ دوسرے دن جب لیکچر لینے آئے تو ایک طالب علم لڑکے نے شاید اخلاقاً پوچھا کہ آپ کے دوست کو کیا ہوا تھا۔ استاد محترم نے جو بتایا اس کے بعد جماعت میں خاموشی چھا گئی۔
سر نے بتایا کہ ان کے دوست بالکل صحت مند تھے۔ اپنی صبح کی روٹین کے مطابق اٹھے۔ جو روزانہ کے کام تھے وہ کیے۔ گیراج میں موجود اپنی گاڑی میں بیٹھے، ملازم کو دروازہ کھولنے کا اشارہ کیا۔ دروازہ کھلنے پر گاڑی آگے بڑھائی۔ جب گاڑی گھر سے باہر نکل گئی تو گردن موڑ کر دیکھا کہ ملازم نے دروازہ بند کیا یا نہیں؟
اسی گردن موڑنے کے عمل میں رب تعالیٰ نے ان کی مہلت ختم کر دی اور ان کی روح جسم کے پنجرے سے آزاد ہوگئی۔ ملازم کو شاید کچھ عجیب محسوس ہوا۔ اس نے دروازہ کھول کر دوبارہ دیکھا تو صاحب اسی طرز پر دروازے کو دیکھ رہے تھے۔
چند لمحوں کے لیے استاد محترم خاموش ہوئے پھر بولے۔۔
بس جان لیں ہماری کل حیثیت یہ ہے۔۔ کلاس میں سناٹا چھا گیا۔۔
اس واقعے نے میرے دل و دماغ پر اپنا بھرپور اثر چھوڑا۔ کئی مرتبہ ذہن سے جھٹکا۔ مگر جب بھی کسی پیارے کو اصل زندگی کے سفر پر روانہ ہوتے دیکھا۔ نہانے والے لکڑی کے تختے پر بے جان وجود کو اپنی پاکیزگی کے لیے دوسروں کا محتاج دیکھا۔ بغیر جیب کا سفید لباس پہناتے دیکھا۔ مٹی کی کچی قبر دیکھی، دل میں ایک ہی جملہ آیا۔ یہ ہے ہم سب کی حیثیت۔۔
لیکن ہم انسان رب تعالیٰ کی وہ مخلوق ہیں جو سبق نہیں سیکھتے۔
آپ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں
ساماں ہے سو برس کا اور پل کی خبر نہیں۔۔
یقین مانئیے بعض اوقات خود سمیت سب پر ہنسی آتی ہے۔ شیطان کے دلفریب چمکتے دمکتے جال میں ہم سب کیسے پھنستے ہیں؟ سب کچھ جانتے ہوئے بھی کیسے خود کو اہم اور ناگزیر سمجھتے ہیں؟ دو ٹکے بلکہ شاید ایک ٹکے کے بھی نہیں۔۔ عہدوں پر کیسے اتراتے ہیں؟ خود کو عقل کل، اعلیٰ عہدے دار، کامیاب سمجھتے ہوئے ہم اس زمین پر اس طرح چلتے ہیں جیسے زمین کو اپنی ایڑھی سے پھاڑ کر رکھ دیں گے۔
جانتے ہیں کہ یہ وہی زمین ہے جو بڑے بڑے فرعونوں کو اپنے اندر سموئے بیٹھی ہے۔ مگر پھر بھی عبرت نہیں پکڑتے۔
کیا پتا کس کی موت کیسے لکھی ہے؟ شاید کسی کو ایک کے بعد دوسرا جوتا پہننا نصیب ناہو۔ شاید کوئی مکمل لباس نا پہن سکے۔ کوئی دوسرا قدم نا اٹھا سکے، کسی کے منہ میں نوالہ جاتے جاتے رہ جائے۔ کوئی موبائل پر بات مکمل نا کر سکے۔ کوئی سجدہ کرتے کرتے رہ جائے۔
کس نے کس حالت میں جانا ہے یہ صرف رب تعالیٰ ہی جانتے ہیں۔۔
پھر اتنا تکبر اور اتراہٹ کس لیے؟
مال و دولت اور عہدوں کی ہوس کس زندگی کی خاطر؟
دوسروں کا مال کھانا جائیدادوں پر قبضہ کرنا، حق دار کو حق نا دینا، کسی کا رزق چھیننا۔۔
یہ سب کرتے وقت کبھی یہ خیال کیوں نہیں آتا کہ سوال جواب قبر میں ہی شروع ہو جائیں گے۔۔ کیوں کہ قبر کی زندگی جسمانی ریمانڈ کی طرح ہے۔ سزا وجزا کا فیصلہ تو روز محشر ہی ہوگا۔
ہم نے اپنی نیکیوں کو زیورات کے ڈبوں اور تجوریوں میں مال کی صورت میں بند کر رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ضرورت سے زیادہ مال ودولت کو وبال قرار دیا۔ کوئی ہم سا بیوقوف بھی ہوگا۔ چار سے پانچ شاندار گھر بنا کر خود چھوٹے سے کمرے میں اس مال و دولت کا حساب دیتے زندگی کا خوبصورت وقت گزار دیتے ہیں۔
زمینیں خرید کر بے حال ہو جاتے ہیں۔ ناجائز قبضے کرتے ہیں اور پھر چند فٹ کی اس کچی قبر میں جا لیٹتے ہیں۔ جہاں کوئی آسائش نہیں۔
یاد رکھیں ہم میں سے جو شخص سانس لے رہا ہے وہ خوش قسمت ہے۔ کیوں کہ اسے مہلت ملی ہوئی ہے۔ اس کی رسی دراز ہے۔
اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ ہم اپنے معاملات دنیا میں ہی سنوار کر احسن طریقے سے ختم کر جائیں۔ تا کہ قبر میں لیٹ کر چیخیں مارتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مزید مہلت طلب نا کریں۔
کیوں کہ جب مہلت ختم ہو جائے تو گردن سیدھی کرنے کا بھی وقت نہیں ملتا۔۔

