Monday, 21 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saira Kanwal
  4. Kam Aqal Pareshan Na Hon

Kam Aqal Pareshan Na Hon

کم عقل بالکل پریشان نا ہوں

پاکستانی معاشرے میں ہم ہر وقت عقل، اہلیت، ذہانت، سمجھداری کے راگ الاپتے رہتے ہیں۔ ہماری ساری زندگی خود اور پھر اپنی اولاد کو ذہانت، چالاکی، عقلمندی سکھاتے گزر جاتی ہے۔ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ جتنے بھولے اور بیوقوف ہم خود تھے۔ ہمارے بچے بھی ویسے ہیں۔ کسی چھوٹے سے شعبے سے لے کر بڑے سیٹ آپ تک نظر دوڑائیں۔ ہر کوئی گلہ کرتا نظر آئے گا۔ مجھے تو عقل ہی نا آئی۔ فلاں دیکھو کتنا چالاک تھا۔ خوب ترقی کر گیا۔

گھریلو سطح سے لے کر پیشہ ورانہ زندگی تک ہر کوئی ذہانت، عقل اور اہلیت استعمال کرنے کے چکر میں دیوانہ ہو رہا ہے۔ لیکن اگر دوسرے پہلو سے سوچیں، تو یہ سب باتیں وقت گزاری کا ایک حصہ ہیں۔

جب انسان کا وجود رحمِ مادر میں پرورش پاتا ہے۔ تو کچھ وقت کے بعد اللہ رب العزت اس کی قسمت لکھ دیتے ہیں۔ (خیال رہے اچھائی اور برائی ہمارے اپنے اعمال کی وجہ سے آتی ہے اور دعا، نیک اعمال قسمت کا لکھا ٹال دیتے ہیں)

اس موضوع کی گہرائی میں جائے بغیر صرف اسی جزو کو فوکس کریں کہ قسمت لوح پر رب تعالیٰ کے قلم سے لکھ دی گئی ہے۔ عہد الست بھی لیا جا چکا ہے۔ شیطان کو خون میں دوڑنے تک کی طاقت دے دی گئی ہے۔ جی بھر کر بہکانے کی اجازت مل چکی ہے۔ مگر آخری سانس تک معافی کی خوشخبری بھی موجود ہے۔ دعاوں اور نیک اعمال کی صورت میں حفاظتی انتظامات کرنے کی بھی مکمل اجازت کے ساتھ طریقے بھی سمجھا دئیے گئے ہیں۔

پھر بھی انسان کو اپنی عقل پر اتنا بھروسہ کیوں ہے؟ سمجھ سے بالاتر ہے۔

اللہ تعالیٰ نے نیک اعمال کا اجر صرف آخرت میں نہیں دینا بلکہ دنیا میں بھی وہ کچھ عطا کر دینا ہے۔ جو انسان کی چاہت ہے۔ پھر انسان رزق، کامیابی، عقل، اہلیت کو اپنا ہی کارنامہ کیوں سمجھتا ہے؟ اپنا سینہ چوڑا کرکے کیوں پھرتا ہے؟ سمجھ سے بالاتر ہے۔

رزق، کھانا پینا، دولت، زمین جائیداد نہیں ہوتا بلکہ نیک اولاد بابرکت رشتے بھی بہترین رزق کے ضمرے میں آتے ہیں۔ مگر ہم کیا کرتے ہیں سب کو سوچنے کی ضرورت ہے۔ ہم بڑے فخر سے خود کو عقل کل سمجھتے ہوئے اپنی خوبیوں اور ذہانت کا پرچار کرتے ہیں۔ جو لوگ ہمارے معیار کے مطابق ناکام، کم عقل ہیں ان کی گوشمالی کرتے ہیں۔

صرف ایک بات سوچیں کہ آپ اپنا ایک سانس اندر رکھنے کے تو اہل نہیں۔ آج جان نکل جائے تو ساری عقل دماغ میں دھری کی دھری رہ جائے اور یہی دماغ قبر میں کیڑوں کی خوراک بنے گا۔ پھر کس عقل، اہلیت پر بھروسہ کرکے ہم ستر اسی سالوں پر اترا رہے ہیں؟

ہم بڑے فخر سے دولت، جائیداد، اقتدار کو عقل سے جوڑتے ہیں اور خود کو عقل کل سمجھتے ہیں۔ بھول جاتے ہیں کہ عقلمند ہوتے تو گھاٹے کا سودا نا کرتے بلکہ مستقبل کی سرمایہ کاری کرکے جنت حاصل کرتے۔

اقتدار کی دوڑ میں پاگل ہو کر ہانپتے نا رہتے۔ لہزا پیچھے رہ جانے والے بظاہر ناکام، دولت کی کمی کا شکار لوگوں کو کم عقل کہہ کر ان کی گوشمالی نا کریں۔ فیصلے روز محشر پر چھوڑ دیں۔ اللہ تعالیٰ کی نظر میں کون کامیاب ہے۔ یہ اسی دن ہتا چلے گا اور میرے جیسے کم عقل جاہل بالکل بھی پریشان نا ہوں۔ اصل کامیاب کون ہوگا؟ یہ فیصلے ہونا باقی ہیں۔

Check Also

Maa Bache Se Iss Qadar Muhabbat Kaise Kar Sakti Hai?

By Tehsin Ullah Khan