Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saira Kanwal
  4. Insani Khoon

Insani Khoon

انسانی خون‎

ہم میں سے بہت سے لوگ انسانی خون نہیں دیکھ سکتے چاہے وہ تصویر میں ہی کیوں نا ہو۔ مجھے اوائل عمری میں اخبار پڑھنے کا خبط تھا۔ میں نے جنگ اخبار کے میگزین میں قتل کی ایک لرزہ خیز داستان تصویر کے ساتھ پڑھی۔ گھریلو نوکرنے میاں بیوی کو نیند کی حالت میں بے دردی سے قتل کیا اور مال لے کر فرار ہوگیا۔

تصویر میں خون سے لت پت بستر اور لحاف دیکھ کر سر میں شدید درد اور متلی کی کیفیت ہوگئی۔ مجھے خون کی بو محسوس ہو حالانکہ یہ ممکن نہیں تھا۔ میں نے ایسی خبریں پڑھنا اور دیکھنا بند کر دیں۔ لیکن پاکستان میں رہ کر یہ کیسے ممکن ہے؟ اے پی ایس سولہ دسمبر، وہ حادثہ تھا جس نے پاکستان کے والدین کو ذہنی مریض بنا دیا۔

بہت سال لگے اس خوف سے باہر نکلنے کے لیے۔ خون آلود جوتے اور یونیفارم کو ذہن سے جھٹکنے کے لیے۔۔ مگر پاکستانی قوم آگے بڑھ ہی گئی۔ اپنے زخمی اور شہید فوجیوں، سیکورٹی فورسز کی تصاویر دیکھنا مشکل کام ہے۔ مٹی اور خون میں لت پت بے جان وجود گھر والوں کے ذہنوں پر کیا اثر چھوڑتے ہوں گے اکثر یہ خیال آتا ہے۔

دہشتگردی کے واقعات اور خود کش دھماکوں کے اذیت ناک دور بھی دیکھے اور محسوس ہوا کہ اب دل مضبوط ہوگیا ہے۔ لیکن یہ خام خیالی تھی۔ سیالکوٹ بھائیوں کے قتل نے بتا دیا کہ یہ معاشرہ درندوں کا معاشرہ بنتا جا رہا ہے۔ سری لنکن مینجر، ہو یا شمالی علاقہ جات کا سیاح ہو، یونیورسٹی کا طالب علم ہو۔ جس کا دل چاہے زندہ جلا دے، قتل کر دے۔۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔۔ یہ واقعات دل و دماغ پر اثر چھوڑتے گئے، پھر سے یہ واقعات ذہن جھٹک کر آگے بڑھنے کی کوشش کی۔

مگر قندیل بلوچ کے قتل نے پھر زیرو پر لا کر کھڑا کر دیا۔ وہ بری تھی بدکردار تھی یہ وہ اور خالق جانے۔ مگر قتل کی مستحق نہیں تھی۔

زارا کا کیا قصور تھا وہ تو بچے کی ماں اور گھریلو عورت تھی۔ کیا ایسی موت کی حقدار تھی؟

نور مقدم کے قاتل کے ساتھ کیا تعلقات تھے۔ مجھے نہیں علم مگر اسے ذبح کر دینا کسی طرح سے بھی انسانی معاشرے کا عمل نہیں تھا۔

ثنا یوسف پہلی ٹک ٹاکر نہیں ہے۔ بہت سی غیرت کے نام پر یا کسی اور الزام کو سر پر لے کر زندگی ہار چکی ہیں۔

ثنا یوسف کے قتل نے دل دہلا کر رکھ دیا۔ محسوس ہوا ابھی اس معاشرے کے درندے ختم نہیں ہوئے۔ یہ وہ درندے ہیں جو ٹک ٹاکرز کی ویڈیوز دیکھ کر انھیں فالو کرتے ہیں۔ محبت کا اظہار کرتے ہیں اور جب ان پر ظلم کرتے ہوئے کوئی درندہ مار دے تو کہتے ہیں بہت اچھا ہوا، اسی قابل تھی۔ بدکردار تھی، معاشرے میں خرابی کا باعث تھی۔

میں نے اس بچی کے قتل کے بعد اس کی ویڈیوز دیکھیں۔ مجھے کہیں کوئی نا شائستہ بات نظر نہیں آئی۔ شاید اس کا جرم خوبصورتی، کم عمری اور ٹک ٹاکر ہونا تھا۔ یا پھر لڑکی ہونا ہی جرم تھا۔

ثنا یوسف کے سارے جرائم اور برائیاں ایک طرف۔۔ مگر وہ قتل کی مستحق نہیں تھی۔ کیوں کہ زندگی اور موت کا فیصلہ صرف رب تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ ہم کون ہوتے ہی خالق کا حق اپنے ہاتھ میں لینے والے؟

حکومت وقت سے سوال ہے کہ کیا پاکستان میں خواتین کے لیے ثک ٹاک محفوظ نہیں ہے؟

تو پھر اسے مکمل طور پر بند کر دیں۔

خواتین کا باہر نکل کر کام کرنا پسند نہیں تو اس پر بھی پابندی لگا دیں۔ بتا دیں کہ زندگی کیسے گزارنی ہے؟ نا ماننے والوں کو سزا دیں جرمانے کر دیں۔ مگر خواتین کو کھلے عام قتل سے بچائیں۔

ان حادثوں کا عام عوام کے ذہنوں پر کیا اثر پڑتا ہے؟ کبھی کسی نے سوچنے کی ضرورت محسوس کی ہے؟

خدارا انسانی خون کو اتنی بے وقعتی سے بچائیں۔۔ تا کہ پتا چلے کہ ہم مسلمان اور مہزب معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں۔۔ درندوں کے ریوڑ سے نہیں۔۔

Check Also

Gumshuda

By Nusrat Sarfaraz