Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Saira Kanwal/
  4. Ikhlaq Ka Ya Murdon Ka Qabristan

Ikhlaq Ka Ya Murdon Ka Qabristan

اخلاق کا یا مردوں کا قبرستان

بحیثیت انسان ہم میں سے ہر کوئی اپنی زندگی میں کبھی نا کبھی قبرستان ضرور گیا ہے۔ انسان کا تعلق کسی بھی مزہب سے ہو وہ قبرستان یا شمشان گھاٹ ضرور جاتا ہے۔ کسی قریبی عزیز، کسی دوست یا کسی پیارے کو اپنی آخری منزل تک پہنچانے کے لئے۔۔

ہم اپنی آنکھوں سے اپنے پیاروں کا انجام دیکھتے ہیں۔ اپنے ہاتھوں سےمنوں مٹی کے نیچے دفناتے پیں۔ اپنے ہاتھوں سے جسم کو جلا کر راکھ بنا دیتے ہیں۔ کیا اپ نے کبھی سوچا کہ پھربھی سبق کیوں نہیں سیکھتے؟

جواب صاف ظاہر ہے، خوش فہمی۔ انسان شاید فطری طور پر خوش فہم واقع ہوا ہے۔ ہم اپنے کسی خون کے رشتے کو بھی دفناتے وقت عبرت پکڑنے کی بجائے سوچتے ہیں ابھی میں نے تھوڑی مرنا ہے۔ ابھی میرے پاس کافی وقت ہے۔ ابھی میرا وقت قریب نہیں۔ یہی سوچ ہم انسانوں کو انسان نہیں بننے دیتی۔ یہی سوچ فرعون، قارون اور شداد کو لے کر بیٹھ گئی۔

اس دنیا کے دھندے ایک وبال کی صورت میں ہم انسانوں پر مسلط ہو چکے ہیں۔ اپ اپنے اردگرد نظر دوڑا لیں ہر شخص حرص و ہوس میں مبتلا نظر آئے گا۔ رزق کا وعدہ اللہ سبحانہ و تعالٰی کا وعدہ ہے، مگر ہم اللہ کو چھوڈ کر زمینی خداؤں کی طرف دیکھتے ہیں۔ عزت اور ذلت اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے۔ مگر ہم انسانوں کے قدموں تلے قالین بن جاتے ہیں۔ ان کے آگے عزت حاصل کرنے کے لئے جھکتے ہیں۔

مال ودولت اللہ کافضل ہی نہیں بلکہ آزمائش بھی ہے۔ ہم ساری زندگی دولت حاصل کرنے کی تگ ودو میں گزار دیتے ہیں۔ اور آخرمیں خالی ہاتھ قبر میں لیٹ جاتے ہیں۔ اللہ تعالٰی کو تکبر اس قدر ناپسند ہے کہ ابلیس کو صرف تکبر اور نا فرمانی کی بنا پر اپنی رحمت کے دائرے سے نکال دیا تھا۔

کبھی اپ نے اس انسان کا تکبر دیکھا جس کی زندگی ہی کی کوئی گارنٹی نا ہو۔ اور وہ اللہ کی اس زمین پر تن کر چلے جس زمین نے اسے اپنے اندر ایک دن دبوچ لینا ہے۔

اپنے ملک کے صاحب اقتدار لوگوں کو دیکھ لیں۔ اقتدار کی ہوس میں مبتلا اس شخص کو دیکھ لیں جو اندھا بھینسا بنا ہوا ہے۔ جو ہر ایک کو ٹکر مار کر زخمی کرتا جا رہا ہے۔

زندگی کی اتنی چاہت اقتدار کی اتنی ہوس، آخر کیوں؟ اپنے جسم کو تکلیف سے، سختی سے بچانے کے لئے اتنی جدوجہد آخر کیوں؟

اتنا جھوٹ کے جھوٹ بھی شرما جائے، اتنی نا انصافی کے معاشرے کی چولیں ہل جائیں۔ کیا چہرہ شیشے میں دیکھتے ہوئے ان لوگوں کو شرم بھی نہیں آتی۔ نیب کے جسمانی ریمانڈ سے ڈرنے والوں کو کیا پتا ہےکہ قبر میں قیامت تک کا عرصہ جسمانی ریمانڈ جیسا ہی ہوگا۔۔

سزا سے پہلے کا ریمانڈ۔۔ کیا اس کی فکر ہے؟ ایک قبر ایک انسان کو اپنے اندر نہیں سموتی بلکہ اس کی کروڑوں خواہشات بھی اس کے ساتھ دفن ہو جاتی ہیں۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں؟

ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے فرمایا لذتوں کو توڑنے والی موت کو کثرت سے یاد کرو۔ اس بات کا حکم اسی لئے دیا گیا کہ معلوم تھا دنیا کی رنگینیوں کتنی پر کشش ہیں۔ انسان اپنی پیدائش کے مقصد سے بھٹک نا جائے۔ ایمان کمزور نا پڑ جائے۔ پھر اپنے نبی ﷺ کے یہ احکامات کیوں بھول جاتے ہیں؟

ہمارے پیارے ملک کے حالات جس بے یقینی کی کیفیت میں ہیں۔ کیا صاحب اقتدار کو اس بات کا احساس ہے کہ عام عوام ایک ریوڑ کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے۔ اور اس ریوڑ کو ہر کوئی اپنی خواہش کے مطابق ہانکنا شروع کر دیتا ہے، جناح ہاؤس، یادگار شہداء کی بے حرمتی دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔

اس بھی زیادہ تکلیف تب ہوئی جب ایک بوڑھا شخص ہاتھ میں کوک کی بوتل اور قورمے کا ڈونگا لے کر بھاگ رہا تھا۔ اور ایک لڑکا اس ڈونگے میں سے بوٹی اٹھا کر بھاگ گیا۔ وہ بوڑھا شخص اینکر پرسن کے سوال کا جواب دیتے ہوئے بھی قورمے کے ڈونگے کو بچا رہا تھا۔ یہ منظر کتنا تکلیف دہ تھا۔ ہمارا اخلاقی معیار کہاں پہنچ چکا ہے کسی کو اندازہ یا فکر ہے؟

ہمارے علماء اکرام، ہمارے استاد، لیڈران کو ڈوب مرنا چاہیے کہ اس قوم کی یہ تربیت کرنے کے ذمہ دار یہی لوگ ہیں۔ صاحب اقتدار کو تومیری درخواست ہےکہ گارڈز کے بغیر باہر نکلنے کی غلطی نا کریں۔ کہیں لوگ اپ کے کپڑے نا نوچ لیں۔

آخر میں عمران خان کو ایک مفت کا مشورہ ہیں کہ اپ نے اپنے مقصد کو حاصلِ کرنے کی خاطر نئی نسل کے اندر کے جانوروں کو باہر تو نکال دیا ہے اب زرا دھیان سے رہئے گا کہیں یہ وحشی درندے اپ کو ہی نا چیر پھاڑ کر رکھ دیں۔ اور آپ خود کو کالی بالٹی اور بشری بیگم کوسفید چادروں میں چھپاتے ہی رہ جائیں۔۔

کیوں کہ اپ نے اخلاق کو قبر میں دفنانے کی جو تربیت بائیس سال تک دی تھی، وہ رنگ لا رہی ہے۔

Check Also

Hojamalo

By Rao Manzar Hayat