Hukumran Jhoote Waade Na Karen
حکمران جھوٹے وعدے نا کریں
پاکستان میں ریاست کے ترجمان اور وفادار صحافی کبھی عام عوام کی بات نہیں کرتے۔ ان کی ساری صحافت اشرافیہ اور صاحب اقتدار کے گرد گھومتی ہے۔ یہ اپنے خالق ومالک کے اتنے شکر گزار نہیں ہوتے جتنے مراعات، سہولیات اور مفادات کی خاطر اشرافیہ کے آگے سر تسلیم خم رکھتے ہیں۔
اتنی فکر صاحب اقتدار کو خود اپنی نہیں ہوتی، جتنی یہ عظیم صحافی کرتے ہیں۔ ان بیچاروں کے دماغ ہر وقت ایک بوجھ تلے دبے رہتے ہیں۔ یہ بوجھ اپنے پسندیدہ سیاست دان کی حکومت یا عہدے کو کامیاب کروانا ہے۔ یہ چاہتے ہیں کہ عام عوام ماضی بھول کر اس سیاست دان کے بارے میں وہی رائے قائم رکھیں۔ جس کی آرزو سیاست دان ان کے زریعے پوری کروانا چاہتا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ، بیوروکریسی، عدلیہ اور پا ک فوج کے خلاف بولنا ان کا "پسندیدہ مشغلہ" ہے۔ اس مضمون میں یہ ہمیشہ پورے نمبر حاصل کرتے ہیں اور یہی پورے نمبر انھیں فرسٹ پوزیشن بھی دلوا دیتے ہیں اور پھر اچھی "جاب" بھی مل ہی جاتی ہے۔
ہر وقت عام غریب عوام کی گوشمالی کرتے ہیں۔ انھیں چور، گندے، سست، نا اہل، کام چور اور بے کار ہونے کے طعنے دیتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر چھوٹی سے بڑی شے پر ٹیکس یہی عام عوام دیتی ہے اور اسی سے آپ کے اللے تللے پورے ہوتے ہیں۔ میں ہمیشہ یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اگر ہم عام عوام اتنے برے ہیں تو آپ ہمارے لیے اتنے فکر مند ہو کر اعلیٰ عہدے کیوں لیتے ہیں؟
یہ صحافی حضرات ٹی وی چینل پر بیٹھ کر پروگرامز کیوں کرتے ہیں؟ اپنے یو ٹیوب چینلز پر وی لاگ کرنے کی زحمت کیوں اٹھاتے ہیں؟ آپ لوگ باہمی رضا سے یہ کیوں نہیں طے کر لیتے کہ ہم نے حکومت کے مزے لینے ہیں۔ صحافی حضرات نے ہمیں سراہنا ہے۔ سیکورٹی اداروں نے ہماری حفاظت کے ساتھ ساتھ ہمیں سیلوٹ بھی کرنا ہے۔ پولیس صرف ہماری اور ہمارے محلوں کی حفاظت پر معمور رہنے کے لئے بنی ہے اور عام عوام کا کام صرف دکھاوے کے ووٹ دینا ہے۔ جلسے جلوسوں میں تالیاں بجانا، نعرے لگانا اور لہو کو گرما دینے والی تقاریر سننا ہے۔
اس کے علاوہ عام عوام آپ کے ڈرائیور، مالی، خانسامے، خاکروب بن سکتے ہیں۔ آپ کی زمینوں پر اناج اگانے کے لیے بھی عام عوام کی ضرورت ہے۔ آپ کی فیکٹریوں میں کام کرنے کے لیے، آپ کے محلوں کی تعمیر اور تزئین و آرائش کے لیے، بھی عام عوام کی ضرورت پڑتی ہے اور سب سے بڑھ کر آپ کی "خود" کے لیے قیمتی جانوں کو بچانے کے لیے اپنے پر گولی کھائے والے بھی عام عوام ہی ہوتے ہیں۔
میں جانتی ہوں ان سب باتوں کے جواب میں ہزارہا دلائل سامنے آ جائیں گے۔ جو مجھے غلط ثابت کرنے پر تل جائیں گے۔ لیکن میں ان دلائل کو کیوں تسلیم کروں؟ جب میرے رب تعالیٰ نے اپنے پسندیدہ دین، دین اسلام میں ہر شے کو واضح کر دیا۔ ہمارے پیارے نبی ﷺ جنھوں نے عالم، حکمران، سپاہی، معلم غرض معاشرے کے ہر فرد کو اس کا کام اور مقام عملی نمونے کے زریعے سمجھا دیا۔ تو ہم اغیار کی مثالیں کیوں دیں؟
نعوذباللہ من ذالک ہمارے حکمران کیا نبی کریم ﷺ، عمر بن خطاب سے بڑھ کر بہترین حکمران ہیں؟ انھوں نے اور ان جیسے بہت سے اسلامی حکمرانوں نے قیمتی لباس زیب تن کیوں نہیں کیے؟ اعلی سواریوں کا استعمال کیوں نہیں کیا؟ شاندار محلوں میں رہائش کیوں نہیں رکھی؟
اس لیے کہ ان کا ایمان رب تعالیٰ پر مضبوط تھا۔ جانتے تھے کہ یہ دنیا اور اس کی حکمرانی فانی ہے۔ ہمیں روز محشر حساب کتاب کے مرحلے سے بھی گزرنا پڑے گا۔ ہماری زندگی چاہے جتنی بھی عیش و عشرت میں گزر جائے۔ قبر سب کو کچی ہی ملے گی ہاتھ سے سلا کفن بے رنگ اور بغیر جیب کے ہوگا۔
میں ان صحافیوں کی ذہنیت اور سوچ پر حیران ہوں کہ جب اغیار سے مفادات کا حصول مقصود ہو تو، چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ ہم سپر پاورز کے کمزور سہاروں کے بغیر اس دنیا میں جی نہیں سکتے اور جب مقامی حکمرانوں سے مراعات حاصل کرنی ہوں، تو اغیار کے خلاف بول کر عوام کی سمع خراشی کا باعث بنتے ہیں۔
یہ رات کو سوتے وقت کبھی اپنی ذات اور کردار کے بارے میں بھی سوچتے ہیں۔ کہ آخر ہم۔ لوگ کیا ہیں؟
اندازہ کریں کسی بھی سیاسی جماعت کا رہنما ہزاروں عام عوام کے سامنے جھوٹے وعدے کرتا ہے۔ ایک عہدے کی خاطر، ہوٹر والی گاڑی کے پروٹوکول کے لیے عام عوام کو دنیا میں جنت کے خواب دکھاتا ہے اور جب کامیابی حاصل کر لے تو رونے شروع کر دیتا ہے۔ عام عوام سے کہتا ہے کہ خود بھی کچھ کر لو، سب کچھ کیا ہماری حکومت ہی کرے۔ جب آپ میں کچھ کرنے کی اہلیت نہیں ہوتی تو کرسی سے کیوں چپک جاتے ہیں؟ اس اقتدار کو حاصل کرنے کے لیے اپنے اصولوں کو قربان کرکے سب "کچھ" کرنے کو تیار کیوں ہو جاتے ہیں؟
کیا یہ عہدے نعوذ باللہ جنت کی ضمانت ہیں؟ ہمارے حکمرانوں کو تو اپنے چہرے کے تاثرات پر بھی قابو نہیں۔ جب انھیں غیر ملکی دورے کی سہولت، عجیب و غریب پروجیکٹس کے فیتے کاٹنے کا موقع ملے، تو ان کے چہروں پر بچوں جیسی مسکراہٹ ہوتی ہے۔ جو اپنا من پسند کھلونا حاصل ہونے پر خوش ہو رہا ہوتا ہے اور کچھ صحافی حضرات مرغ بسمل کی طرح تڑپ تڑپ کر ان کی تعریف میں بے حال ہو رہے ہوتے ہیں۔
اندھے پیروکار اور کارکنان کے حال پر تو اللہ تعالیٰ ہی رحم فرمائیں۔ جو اپنے اعمال کی وجہ سے جیل کے مکین بنتے ہیں۔ ان کی رہائی کے لیے پاگل ہو جاتے ہیں۔ اپنے خاندان، والدین اور بچوں کو بھول جاتے ہیں اور لیڈرز جب ڈیل کرکے اپنے مفادات کا فیصلہ کرتے ہیں تو مڑ کر بھی نہیں دیکھتے۔
خدارا کچھ تو گریس دکھائیں۔ کیوں عام عوام کو دھوکے دیتے ہیں؟ میری التجا ہے کہ حکمران اور اشرافیہ عوام کی فلاح و بہبود کے کاموں کو اپنا فرض سمجھ کر خاموشی سے ادا کریں اور صحافی حضرات تعریف کے ڈھول ل پیٹنا بند کر دیں۔ عام عوام ان بے مقصد باتوں سے تنگ آ چکی ہے۔ وہی وعدہ کریں، جسے عملی طور پر پورا کرنے کے بعد اس کا فائدہ عام عوام تک پہنچے۔ کیوں کہ یہ عوام کا حق اور آپ کا فرض ہے۔