Hamare Naqqad
ہمارے نقاد

آپ کا طرز تحریر بہت سادہ ہے۔ ایک نقاد نے بہت پرسکون انداز میں تنقید کی۔
سادہ؟ میں نے تعجب سے پوچھا، پھر بولی تو کیا مجھے تحریر کا میک آپ کرکے زیورات سے آراستہ کرنا چاہیے؟
ہلکے سے دلکش قہقہے کی ساتھ کہا گیا۔ جی۔۔ تحریر کو خوبصورت الفاظ سے سجاتے ہی ہیں۔ لفظوں کی بیل کو خوبصورت پھولوں سے مہکا دیتے ہیں۔
اور تحریر کا مقصد کہاں گیا؟ میں نے بحث کے انداز میں سوال پوچھا۔
جی۔۔ مقصد بھی اہم اور ناگزیر ہے۔ مگر جملے خوبصورت الفاظ سے آراستہ ہونے چاہئیے۔ ورنہ یہی محسوس ہوتا ہے کہ ادبی شہ پارہ تخلیق نہیں ہوا۔ کسی عام لکھاری نے دل کے بغض نکالے ہیں۔
عام لکھاری کا لفظ میرے دل پر تیر کی مانند لگا۔ اب میں نے محاورتاً آستینیں چڑھائیں اور بولی۔
سب سے پہلے تو یاد رکھیں کہ تحریر کا حد سے زیادہ ادبی الفاظ سے آراستہ ہونا، اس میں مصنوعی پن بڑھا دیتا ہے اور اصل مقصد کی اہمیت بھی ختم ہو جاتی ہے۔
یہ بھاری بھرکم الفاظ کا انتخاب بتاتا ہے کہ مصنف قاری کو اپنے علم سے متاثر کرنا چاہتا ہے۔ کیوں کہ اس کے پاس مقصد کی کمی ہے اور یہ کسی بھی مصنف کی ناکامی ہے۔
دوسری بات میں بہت اچھے سے سمجھتی ہوں کہ تحریر پر تنقید کیسے کی جاتی ہے؟
کیوں کے انٹر، گریجویشن اور اورئینٹل کالج میں، میں نے مصنفین اور شعراء کی تخلیقات پر تنقید کرکے ہی نمبر، ڈگری اور اسکالر شپ حاصل کیا تھا۔ تحریر کے ہر پہلو پر تنقید بالکل ویسے ہی کی جا رہی ہوتی ہے۔ جیسے ہمارے صحافی حضرات کسی بھی سیاست دان کے بیان کا ہر پہلو سے جائزہ لیتے ہیں۔ یہ جائزہ متوازن ہوتا ہے۔ اس میں جانبداری سے گریز کرنا ہی کامیابی ہے۔
آپ نے مجھے عام لکھاری کہا تو جناب۔۔ میں نے کب خود کو خاص کہا؟
میں عام ہوں۔ میری تحریر خواص کے لئیے نہیں۔ عوام کے لیے ہے۔ وہ عام عوام جن کے مسائل بھی ان کی طرح عام اور چھوٹے ہیں۔ وہ عام عوام جو ہے تو زیرو مگر جس کے ساتھ جڑ جائے، اسے قیمتی بنا دیتے ہیں۔
سستے، نا اہل لوگوں کو اہم بھی یہی عام عوام بناتی ہے۔
دیکھا آپ جزباتی ہو رہی ہیں۔ مانا کہ مسائل ہیں۔ مگر آپ مسائل سے زیادہ تعمیری کاموں پر نظر نہیں رکھتی ہیں۔ اسی وجہ سے آپ کی تحریر میں اشرافیہ سے بغض جھلکتا ہے۔ نقاد نے سیدھے وار کیے۔
تو میں نے کب اشرافیہ کی محبت کا اقرار کیا ہے؟ تعمیری کاموں کے ڈھول بجانے کے لیے اشرافیہ نے ڈھولچی رکھے ہوئے ہیں۔ وہ خود بھی اپنے کامیاب منصوبے عوام کو بھولنے نہیں دیتے۔ تو ہم عام عوام اپنے مسائل کا ہی ذکر کریں گے نا۔
آپ ہر وقت صرف سیاست دانوں اور صحافیوں پر تنقید کیوں کرتی ہیں؟ اس ملک کو نقصان پہنچانے والے اور بھی ہیں۔ ان کی بات کرتے کیا آپ کے پر جلتے ہیں؟ نقاد نے لحاظ کیے بغیر بولا۔
اچھا میرے پر بھی ہیں۔ مجھے تو آج تک پتا نہیں چلا۔ میں تو خود کو انسان ہی سمجھتی رہی۔ ویسے یہ پر۔۔ پری والے ہیں۔ میں نے شرارت سے پوچھتے ہوئے نقاد کے سوال کو چٹکیوں میں اڑایا۔
دیکھا فوراََ موضوع پلٹ دیا۔ نقاد نے فاتحانہ نظروں سے جتایا۔
آپ شاید بھول گئے کہ میں اسی پر بات کرتی جو میں نے اپنی شعوری زندگی میں دیکھا ہے۔ ماضی کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے کا مجھے کوئی شوق نہیں۔
تاریخ کو ہم جھٹلا نہیں سکتے اور پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ سیاست دانوں کے ساتھ محافظوں نے بھی بہت سی غلطیاں کی ہیں اور ان کے نتائج عوام نے بھگتے ہیں۔ نقاد صاحب بولے۔
ہو سکتا ہے۔۔ لیکن محافظوں کو اپنے مفادات کی خاطر سیاست میں گھسیٹنے والے بھی سیاست دان ہی ہیں۔ آپ صرف میرے طرز تحریر پر تنقید کریں۔ میں کیا لکھتی ہوں۔۔ اسے چھوڑ دیں۔
چلیں چھوڑ دیا۔ قصہ مختصر آپ کی تحریر کچھ خاص نہیں۔ نقاد نے بڑے آرام سے جواب دیا۔
آپ مخصوص سیاسی رہنماؤں پر توجہ مرکوز رکھتی ہیں اور اپنے دلی بغض کا اظہار کرتی ہیں۔ طنز کی آمیزش کرتی ہے۔ نقاد نے مزے لیتے ہوئے کہا۔۔
چلیں میں طنز کرتی ہوں، اشرافیہ کے بغض میں مخصوص لوگوں پر توجہ مرکوز رکھتی ہوں۔ ذاتی خیالات کا اظہار کرتی ہوں۔ میری تحریر میں کوئی خوبی نہیں۔
مگر پھر بھی آپ کی توجہ ایک گھنٹے سے حاصل کیے ہوئے ہوں اور یہ ٹوٹے پھوٹے سادہ الفاظ پر آپ اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔
میں نے شرارت سے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
نقاد نے بھی دلکش ہلکا سا قہقہہ لگایا اور بولے اس بات پر متفق ہوں۔