Daad Ke Mutalashi Log
داد کے متلاشی لوگ
شیطان انسان کا وہ کھلا دشمن ہے جو وار ہمیشہ چھپ کر کرتا ہے اور ہمیشہ دیوار کی اس جگہ پر ضرب لگاتا ہے جو کمزور رہ جاتی ہے۔ سراہے جانے کی خواہش، اپنی تعریف سننے کی عادت حد میں رہے تو اتنی بری نہیں مگر حد سے بڑھ جائے تو جنون بن جاتی ہے اور جنون کا سمندر جب بپھر جاۓ تو ہر شے کو بہا کر لے جاتا ہے۔ ہمارے اردگرد بےشمار ایسے لوگ ہیں جو اپنی تعریف سننے کے بعد عجب سرور کی کیفیت میں چلے جاتے ہیں۔ ایسا کیف و سرور جس کے آگے ہر شے ہیج ہے۔ میں جب بھی ایسے لوگوں کو دیکھتی ہوں مجھے ان پر ترس آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں ہیں۔ ان پر سراہے جانے کی عادت ایک عذاب کی صورت میں مسلط ہے۔
کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے۔ صاحب اقتدار اس علت کے عذاب میں کس بری طرح مبتلا ہیں؟ ہمارے ایک مشہور سیاستدان جن کی فین فالونگ کافی ہے۔ ایک غیر ملکی کو انٹرویو دیتے ہوئے فرما رہے تھے کہ باہر کے ملک کی سیاست تو بورنگ ہے۔ سیاست کا اصل مزہ تو پاکستان میں ہے۔ کیسے آپ کے آگے پیچھے لوگ پاگل ہو رہے ہیں۔ اندازہ کریں عوامی نمائندے عوام کی خدمت کم اور داد کے شوقین زیادہ ہوتے ہیں۔ اسی لئے تو جب یہ کرسی سے اترتے ہیں یا کھینچ کھانچ کر اتارے جاتے ہیں۔ تو باؤلے ہو جاتے ہیں۔ کبھی کسی کو کاٹتے ہیں۔ کبھی کسی پر حملہ کرتے ہیں۔
قرآن کی وہ پہلی سورہ جس کے پڑھے بغیر نماز مکمل نہیں ہوتی۔ وہ سورہ فاتحہ ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ خود فرماتے ہیں۔ الحمد للہ رب العالمین۔ تمام تعریفیں صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں۔ پھر ہم کیوں شیطان کے دلفریب جال میں پھنستے ہیں؟ خوشامد پر خوش ہو کر کیوں خود کو قابلِ ترس بناتے ہیں؟ شیطان جانتا تھا کہ اللہ نے ہر رکعت میں اس سورت کو پڑھنے کا جو حکم دیا ہے۔ اس سے اس سورہ کی اہمیت واضح ہے۔ ابلیس کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی ہم تو پہلی آیت پر ہی اس کے جال میں پھنس گئے۔ آگے کا سفر تو بعد کی بات ہے۔
خدارا اپنے اندر اس بری عادت کو ختم کریں۔ اپنے آپ کو مضبوط بنائیں۔ آپ کچھ بھی نہیں ہیں۔ یہ ذہانت، یہ مال و دولت، یہ حسن، یہ دشمنیاں سب دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ جب ملک الموت سامنے ہوگا۔ آج آپ مریں گے تو کل دوسرا دن ہوگا۔ آپ کے اپنے بچے، دوست، بہن بھائی آپ کو دفنانے کے بعد بریانی اڑا رہے ہوں گے۔ آپ کے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ پھر کیوں خود کو ہلکان کرتے ہیں؟
میں بےحد محدود علم کی مالک ہوں۔ عالمہ بھی نہیں ہوں۔ تمام باتیں اپنے ناقص تجربے اور مشاہدے پر کی ہیں۔ کسی کو اختلاف ہو یا دل ازاری ہوئی ہو تو معافی کی طلبگار ہوں۔ اللہ ہم سب کے گناہوں کو معاف فرمائے آمین ثم آمین۔