Chota Sa Ehsas
چھوٹا سا احساس

چلیں آج آپ کو ایک قصہ سناتی ہوں۔ یہ قصہ بھی ذاتی تجربے کا نتیجہ ہے۔ اس لیے ظالم نقاد مجھ پر ذاتی تجربے بیان کرنے کا جرم صادر کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ میں نے مختلف اسکولز میں جاب کی۔ مختلف کولیگز اور پیرینٹس سے ملنا جلنا رہا۔ اس تعلق میں بہت کچھ دیکھنے، سمجھنے اور سیکھنے کا موقع ملا۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ مختلف اداروں میں لنچ ٹائم پر ایک دوسرے سے لنچ شئیر کرنے کی روایت ہے۔ عام طور پر سب ایمپلائز ایک ہی جگہ مخصوص اور مختصر وقت میں لنچ یا ریفریشمنٹ لیتے ہیں۔ جاب کے دوران ایک پرائیویٹ اسکول میں ہم اساتذہ کو ویک اینڈ پر کام زیادہ ہونے کی وجہ سے بلایا گیا۔ کیوں کہ متعین وقت پر امتحانات کے نتائج کی تقریب کا انعقاد تھا۔ اس لیے ہر صورت کام مکمل کرکے نتائج انتظامیہ کے حوالے کرنا تھے۔
ہم سب کولیگز مسلسل کام کرتی رہیں۔ پھر سوچا کہ لنچ بریک لی جائے۔ کچھ نے گھر سے لایا کھانے کا ڈبہ کھولا۔ میرے جیسی سست ٹیچرز نے سیکورٹی گارڈ سے کچھ منگوانے کا سوچا۔ کچھ دیر بعد انواع اقسامِ کے کھانے کی خوشبوؤں نے کمرہ مہکا دیا۔
سب ایک دوسرے کو شئیر کرنے کی آفر بھی دے رہے تھے۔ کچھ خوش دلی سے اور کچھ تکلفاََ ایک دوسرے کا کھانا چکھ رہے تھے۔ ہماری ایک کولیگ جو باقاعدگی سے اپنا لنچ گھر سے لاتی تھی۔ اس نے اپنا کھانے کا ڈبہ کھولا اور بولی آج امی کے گھر سے اسکول آئی ہوں لنچ بھی انھوں نے دیا ہے۔ ڈبے میں مٹن پلاؤ تھا۔ سب نے اس کی مزیدار خوشبو محسوس کی۔ اس نے سب کو کھانے کی آفر دی۔ بلکہ پلیٹ میں نکال کر سب کے پاس لے گئی۔ ایک پلیٹ مٹن پلاؤ جس میں دو سے تین گوشت کی بوٹیاں نظر آرہی تھیں اور دس سے بارہ خواتین موجود تھیں۔ سب نے ایک ایک چمچ لینا شروع کر دیا۔ پلاو مزے دار تھا۔ کچھ نے تھوڑے پر اکتفا کیا اور کچھ نے چمچ بوٹی سمیت بھر کر منہ میں ڈال لیا۔
میں نے اور میری ایک کولیگ نے یہ محسوس کیا کہ پلاؤ آفر کرنے والی کا منہ اترا ہوا لگ رہا۔ ہم نے ایک دوسرے کو آنکھوں سے اشارہ کیا۔ وہ بیچاری کولیگ جب ہم دونوں کے قریب آئی تو پلیٹ آدھے سے زیادہ خالی ہو چکی تھی اور گوشت کی ایک بوٹی چاولوں میں چھپنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ میں نے اور میری دوست نے چند چاول کے دانے منہ میں ڈالے اور کہا آج تم ہمارے ساتھ برگر کھاؤ۔ یہ پلاؤ، بریانیاں تو ہم کھاتے ہی رہتے ہیں۔ ہم دونوں نے اپنے اپنے برگر کا آدھا حصہ اس کی پلیٹ میں رکھ دیا۔ وہ بیچاری مسکرا کر بولی نہیں تم لوگ کھاؤ۔ نہیں بھئی آج تو تمہیں ہم باہر کا کھانا کھلا کر چھوڑیں گے۔ تا کہ تم ہمیں ہائی جین گھر کا کھانا دکھا کر جلا نا سکو۔
میں نے بھی ہنس کر جواب دیا۔ دوسری دوست نے زبردستی آدھی کوک بھی اسے تھما دی اور کہا آج تو تمہیں یہ فزی ڈرنک بھی پینا ہی پڑے گا۔ آپ یقین کریں وہ بے اختیار ہنس پڑی اور اس کا دھواں دھواں چہرہ کھل پڑا۔ باقی کولیگز نے بھی شرمندہ ہو کر آفر کرنی شروع کر دی۔ ماحول خوشگوار ہوگیا۔
مُجھے اس واقعے سے ہمیشہ کےلئے نصیحت حاصل ہوگئی۔
بظاہر یہ غیر اہم واقعہ معاشرے میں موجود انسانی رویوں کا اظہار کرتا ہے۔ ہمارے دین اسلام میں ایک دوسرے کو کھانا کھلانے کا حکم دیا گیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں تو کوئی خاص شے پکنے پر ہمسایوں کے گھر بھیجنے کا بھی رواج تھا جو اب مہنگائی کے ہاتھوں ختم ہوتا جارہا ہے۔
معاشی تنگدستی نے دل بھی چھوٹے کر دیئے ہیں۔ یہ وہ دور نہیں رہا جس میں صحابی رسول ﷺ مسافر کو کھانا کھلانے کے لیے چراغ گل کر دیتے تھے اور اپنے بچوں کو بھوکا سلا دیتے ہیں۔ یہ اول خویش بعد درویش کا معاشرہ ہے۔
مُجھے اس سے بہت زیادہ اختلاف بھی نہیں۔ لیکن درخواست ہے کہ اپنے کام کی جگہ پر اس بات کا خیال رکھیں کہ اگر کسی بیچارے نے سنت رسول ﷺ پوری کرتے ہوئے آپ کو شریک طعام دینے کا سنگین جرم کر ہی لیا، تو صدیوں کے بھوکوں کی طرح کھانے پر ٹوٹ نا پڑیں۔ دوسرے کا بھی احساس کر لیں۔ اکثر لوگ ناشتہ کیے بغیر گھر سے نکلے ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے انھوں نے سارے دن میں یہی کھانا ہو۔
دوسرے کی پلیٹ میں اپنا کھانا ڈالنے کی بھی ہمت پیدا کریں۔ ایک جگہ کام کرنے والے ایک جیسے حالات کا شکار ہوتے ہیں۔ پہلے ہی انتطامیہ ہڈیوں میں سے کیلشیم اور رگوں میں سے خون نکال رہی ہوتی ہے۔ تو ایسے لوگ، ایک دوسرے کا زیادہ احساس کریں۔
یہ غیر محتاط رویہ متوسط طبقے میں بہت تیزی سے سرائیت کر رہا ہے۔
اعلیٰ طبقے کی تو بات ہی نا کریں۔ ان کے ظہرانے اور عشائیے صرف نمود و نمائش اور بامقصد ہوتے ہیں۔ یہ کھانے کھلاتے ہیں اور بعد میں کہتے ہیں جسے بھی راتب کھلاتے ہیں وہ ہم پر ہی غراتا ہے۔
ایسے لوگوں کا ایک کپ چائے بھی پینا گورا نا کریں۔ جو آپ کی تذلیل کریں۔ مگر دوسروں کو اپنی حیثیت کے مطابق ضرور کھلائیں۔ کھانے والے بھی احساس اور شرم کا دامن ہاتھ سے نا جانے دیں۔ وہ اونٹ نا بنیں جس نے بدو کو خیمے سے رات باہر بسر کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔
رزق بانٹنے سے بڑھتا ہے۔ درست ہے۔ مگر احساس بھی ضروری ہے۔ نیکی کا انجام تکلیف دہ ہو تو انسان دوبارہ نیکی کرتے وقت محتاط ہو جاتا ہےاس چھوٹی سی بات پر احتیاط کریں۔ کہیں جانے انجانے میں۔ طبعیت کی لاپرواہی کے سبب آپ سے بھی یہ غلطی تو نہیں ہوگئی؟

