Bebasi Ki Maut
بے بسی کی موت

ماضی کی کچھ زہریلی آوازیں یاد آتی ہے۔۔ ٹرین حادثہ اگر ہوگیا تو میں کیوں استعفیٰ دوں۔ ڈرائیور استعفیٰ دے۔۔ یہ لاشیں رکھ کر مجھے بلیک میل کرنا چاہتے ہیں۔۔ میں ہر گز ان کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہوں گا۔۔
پروٹوکول پر اعتراض ہوا۔۔ تو کہا گیا۔۔ بچے نے جہاں پیدا ہونا ہو۔۔ وہ ہو جاتا ہے اور بھی بہت سی ایسی باتیں۔۔ ایسے زہر آلودجملے۔۔ جنھوں نے عام عوام کا دل دکھایا، ان کی سماعتوں کو چیر کر رکھ دیا۔۔ حالیہ جملہ سنیں۔۔
میں نے جا کے انھیں کوئی تنبو نہیں دینے۔۔ یہ جملہ کہنے والے سے کوئی گلہ نہیں۔۔ کیوں کہ اس سے بہتر یا اچھا بولا جاتا تو حیرت ہوتی۔۔ آخر اس رویے کو عام عوام کب تک برداشت کرے گی؟
وطن عزیز پر آسیب کے کالے سائے چھٹنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ کوئی نا کوئی ایسی دلخراش خبر سننے کو مل جاتی ہے کہ دل میں تیر کی طرح پیوست ہو جاتی ہے۔
دریائے سوات میں ڈوب کر شہید ہونے والے افراد ایک سے ڈیڑھ گھنٹے تک مدد کے منتظر رہے۔۔ سوئی ہوئی خیبرپختونخوا کی حکومت سے کیا گلہ۔ ان کا مقصد وفاق اور پنجاب پر یلغار کرنا اور اپنے لیڈر کی فکر کرنا ہے۔۔ عوام سے انھیں کوئی سروکار نہیں۔۔
ہمیشہ کی طرح پاک فوج کی امدادی ٹیمیں پہنچ گئیں اور ریسکیو کا عمل شروع ہوگیا۔۔
یہ لاشوں کا ریسکیو تھا۔۔ کوئی ذی شعور انسان مانے گا کہ ڈیڑھ گھنٹے کے لگ بھگ ایک صوبے میں لوگ مدد کے لیے پکارتے رہے اور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔۔
مرنے والے تو بے بس تھے۔۔ کنارے پر کھڑے لوگ ان سے بھی زیادہ بے بس تھے۔۔ جو کوئی تدبیر نا کر سکے۔۔ ان کی سوچ اور ذہانت مکمل طور پر واضح ہے۔۔
مجھے سابقہ سی ایم شہباز شریف یاد آگئے۔۔
پنجاب کارڈیالوجی میں ایک مرتبہ دوا کی غلط مقدار پر مریضوں کے طبیعت خراب ہوئی۔۔ چند دنوں میں مسئلے کی جڑ تک پہنچا گیا اور غفلت کے باعث پیش آنے والا حادثہ۔۔ پنجاب کو فرانزک لیب کا تحفہ دے گیا۔۔
ڈینگی مچھر پر عوام کو لاجواب آگاہی دی۔۔ عوام کو خود عادت پڑ گئی کہ اس مچھر سے کیسے محفوظ رہنا ہے۔۔
زینب قتل کیس کو دن رات ایک کرکے حل کی گیا اور عوام کو ایسے معاملات پر ایپ کا تحفہ دیا گیا۔۔
ہزار ہا مثالیں ہیں۔۔ ہم عوام احسان فراموش نہیں۔۔ سب یاد رکھتے ہیں۔۔ مگر خیبرپختونخوا کے عوام کی یاداشت اتنی کمزور کیوں ہے؟ یا یہ لوگ ایک بہترین زندگی کے آرزومند نہیں؟
اس کے علاؤہ پاکستان میں جہاں دریا یا سمندر ہیں۔۔ یا پھر پورے پاکستان میں تیراکی کی تربیت کے مراکز کھولے جائیں۔ جہاں ڈوبنے سے بچنے کی ابتدائی تربیت دی جائے تا کہ امداد پہنچنے تک ڈوبنے والا خود کو بچانے کی کچھ تو کوشش کر پائے۔۔
میڈیا میں ایسے پروگرام ہی چلوا دیں جن میں ڈوبنے سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر ڈیمو کے زریعے بتائی جائیں۔۔ سیاحوں کو لائف جیکٹس کے بغیر ایسے مقامات پر داخل نا ہونے دیا جائے۔۔ یہ چھوٹے چھوٹے کام اتنے مشکل تو نہیں۔۔
دین اسلام میں ڈوبنے والے کو شہید کا درجہ دیا گیا ہے۔۔ وہ معصوم تو شہادت کی موت پا گئے۔۔ مگر حکمران کی نا اہلی کا پردہ فاش کر گئے۔۔ گزارش ہے کہ سیاحتی مقامات کو قتل گاہیں بننے سے بچائیں۔۔ ریسکیو کا مکمل نظام ترتیب دیں۔ تا کہ مستقبلِ میں ایسے واقعات سے بچا جا سکے۔۔

